بیجنگ؍ چینی سائنس دانوں نے ایک ایسی ’’ذہین پٹی‘‘ (اسمارٹ بینڈیج) ایجاد کی ہے جو ٹریفک لائٹ کی طرح رنگ بدل کر نہ صرف کسی انفیکشن کی اطلاع دیتی ہے بلکہ اینٹی بایوٹکس خارج کرکے جراثیم (بیکٹیریا) کو ہلاک بھی کردیتی ہے۔بنیادی طور پر ہم اسے ویسا ہی ایک ’’لٹمس پیپر‘‘ سمجھ سکتے ہیں جیسا اسکولوں کی کیمسٹری لیبارٹریز میں تیزابیت اور اساسیت کا پتا چلانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ ذہین پٹی، زخم میں انفیکشن کے باعث بڑھنے والی تیزابیت پر اپنا رنگ بدل لیتی ہے جبکہ یہ اپنے رنگ کے ذریعے انفیکشن کی وجہ بننے والے بیکٹیریا سے بھی آگاہ کرتی ہے۔عام حالات میں، جب زخم میں انفیکشن نہ ہو، تو زخم پر بندھی اس ذہین پٹی کی رنگت سبز رہتی ہے۔ البتہ، زخم میں انفیکشن ہونے پر اس کی رنگت بدلنے لگتی ہے: اگر زخم میں ہونے والا انفیکشن ایسے جرثوموں کی وجہ سے ہے جنہیں دستیاب اینٹی بایوٹکس سے ہلاک کیا جاسکتا ہے (اور جنہیں مختصراً DS یعنی ڈرگ سینسیٹیو بیکٹیریا بھی کہا جاتا ہے) تو پٹی کی رنگت پیلی ہوجائے گی؛ لیکن اگر وہ انتہائی سخت جان قسم کے بیکٹیریا ہیں جو موجودہ اینٹی بایوٹک دواؤں کے خلاف مزاحمت رکھتے ہیں (اور جو ’’ڈرگ ریزسٹنٹ‘‘ یا مختصراً DR کہلاتے ہیں) تو پھر پٹی کی رنگت سرخ ہوجائے گی۔انفیکشن میں ڈرگ سینسیٹیو بیکٹیریا موجود ہوں تو یہ پٹی خود ہی اپنے اندر موجود اینٹی بایوٹکس خارج کرکے انہیں ہلاک کردیتی ہے۔ تاہم ڈرگ ریزسٹنٹ بیکٹیریا ہونے کی صورت میں یہ معالج کو بھی خبردار کرتی ہے جو زخم پر تیز روشنی ڈال کر ان سخت جان جرثوموں کو پہلے کمزور بناتا ہے اور پھر اس پٹی کے اندر موجود اینٹی بایوٹک دوا خارج ہوتی ہے، تاکہ وہ اپنا اثر دکھا سکے۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ زخم میں انفیکشن جتنا شدید ہوگا، پٹی کی متعلقہ رنگت بھی اتنی ہی زیادہ گہری ہوگی جس سے انفیکشن کی شدت کا بھی فوری پتا چل جائے گا۔فی الحال اس ذہین پٹی کو چوہوں پر کامیابی سے آزمایا جاچکا ہے۔ جانوروں پر کچھ مزید آزمائشوں کے بعد اس پٹی کی انسانی آزمائشیں بھی شروع کردی جائیں گی۔ اس طرح امید کی جاسکتی ہے کہ انفیکشن کا پتا دینے والی یہ ذہین پٹی، اگلے چار سے پانچ سال میکں فروخت کیلیے دستیاب ہوگی۔اس ذہین پٹی کی دستیابی سے کسی زخم میں بیکٹیریا کی موجودگی (انفیکشن) کا پتا چلانے کے لیے مہنگے اور سست رفتار ٹیسٹوں کی ضرورت ختم ہوجائے گی اور تھوڑی سی معلومات رکھنے والا فرد بھی اس بارے میں فوری جان سکے گا۔اس ایجاد کی تفصیلات ریسرچ جرنل ’’اے سی ایس سینٹرل سائنس‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔