اردو محبت کی زبان ہے،ہم بھی اردو سے محبت کرتے ہیں: پروفیسر اخترالزماں

0
0

بنگلہ دیش میں اردو زبان کی جڑیں بہت مضبوط ہورہی ہیں: ڈاکٹر شیخ عقیل احمد
لازوال ڈیسک

ڈھاکہ؍؍ اردو محبت کی زبان ہے۔ہم اردو سے بہت محبت کرتے ہیں۔ڈھاکہ یونیورسٹی میں اردو کا شعبہ بہت پہلے سے قائم ہے جو بنگلہ دیش میں اردو زبان وادب کے فروغ میں اہم کردار اداکرتا رہا ہے۔ان خیالات کا اظہارمہمان خصوصی اور ’ڈھاکہ یونیورسٹی کے پروفیسر اخترالزماں نے ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبۂ اردوکے زیر اہتمام منعقدہ عالمی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میںخطاب کرتے ہوئے کیا۔ انھوںنے کانفرنس میں شریک تقریباً ایک درجن ممالک کے نمائندوں کا پرتپاک استقبال کرتے ہوئے پراعتماد انداز میںمزید کہاکہ شعبۂ اردو کی یہ عالمی اردو کانفرنس نئی صدی میں اردو ادب کا خاص مطالعہ پیش کرے گی۔قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،نئی دہلی کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے اس موقع پر اپنے خطاب میں کہاکہ اردو ہندوستان میں پلی بڑھی ہے مگر پوری دنیا میں اس کی عظمت کا پرچم بلند ہے۔جن ممالک میں اردو کو مقبولیت عام حاصل ہوئی، ان میںبنگلہ دیش بھی ہے ۔انھوںنے کہاکہ بنگلہ دیش میں اردو زبان کی جڑیں بہت مضبوط ہورہی ہیں۔یہاں اردو بولنے والوں کی اچھی خاصی تعداد پہلے بھی تھی اور آج بھی ہے بلکہ اس میں بتدریج اضافہ ہوتا جارہا ہے۔یہاں سے اردو رسائل واخبارات نکلتے ہیںجس سے اندازہ ہوتاہے کہ یہاں اردو صحافت کا موجودہ منظرنامہ قابل رشک ہے۔انھوںنے مزید کہا کہ بنگلہ اور اردو زبان کے مضبوط تعلق کا پتہ اس بات سے بھی چلتاہے کہ بنگلہ اور اردو زبان میں سیکڑوں الفاظ مشترک ہیں۔بنگلہ دیش سے ہمارا رشتہ صرف لسانی وثقافتی سطح پر ہی نہیں بلکہ سماجی،معاشی، سیاسی ، اور صنعتی سطح پر بھی ہے۔ بزم صدف کے سرپرست اعلیٰ محترم صبیح بخاری (قطر)نے اس موقع پر کہا کہ بنگلہ دیش میں اردو کے چاہنے والوں کا اتنا ہجوم دیکھ کر مجھے مسرت ہو رہی ہے۔ یہ کانفرنس اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ بنگلہ زبان کے چاہنے والوں کے ذریعے محبت میں منعقد کی گئی ہے۔ صبیح بخاری نے شعبۂ اردو کے دو ٹاپرس (ایک طالب علم اور ایک طالبہ) کو ہر سال بزم صدف کی طرف سے نقد رقم اور نشان یادگار دیے جانے کا بھی اعلان کیا۔ دوسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر محمودالاسلام، پروفیسر اسلم جمشیدپوری اورڈاکٹر ولا جمال سعد احمدنے کی۔مقالہ نگاروںمیںڈاکٹر صفدرامام قادری نے ’’نئی اردو تنقید کے موضوعات ومسائل‘‘ پر، تسلیم عارف نے ’’اکیسویں صدی میں اردو تنقید کی نئی فصلیں‘‘پر، ڈاکٹر فرزانہ اعظم لطفی ایران نے’’اردو ادب میں زبان حال کا تحقیقی جائزہ‘‘، پرڈاکٹرمحمد گوہر پٹنہ (بھارت) نے ’’اکیسویں صدی میں اردو کی صورت حال‘‘پر اورپروفیسر ڈاکٹر شہیدالاسلام( راج شاہی)نے’’ بنگلہ دیش میں اردو کی اشاعت میں ڈاکٹر عبداللہ کا حصہ‘‘ پر مقالے پیش کیے۔ پروفیسر اسلم جمشید پوری نے اپنی صدارتی تقریر میں پورے اجلاس کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ اکیسویں صدی میں ادب کی دیگر شاخوں کی طرح تحقیق و تنقید بھی صحیح سمت اور رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے۔ ڈاکٹر محمد گوہر نے نئی صدی میں اردو کی تازہ ترین صورت حال کا جامع خاکہ پیش کیا۔ شعبۂ اردو ڈھاکہ یونیورسٹی کے پروفیسر محمودالاسلام نے تفصیل سے مقالوں کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ یہ کانفرنس انتہائی کامیابی کے ساتھ منازل طے کر رہی ہے۔ تیسرے اجلاس (بعنوان’ اردونان فکشن‘) کی صدارت ڈاکٹر رشید احمد، ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی اورسید قمر الہدیٰ نے کی۔مقالے پروفیسر ڈاکٹر جعفر احمد ڈھاکہ(ڈاکٹر کنیز بتول حیات اور کارنامے)، نیلوفر اختر پٹنہ (اکیسویں صدی میں اردو ادب)، غلام مولاڈھاکہ(اردو ترجمہ نگار کی حیثیت سے جاوید حسین کی خدمات)، ڈاکٹر رضا الکریم ڈھاکہ (ڈاکٹر کلثوم ابوالبشر کی اردو خدمات)نے پیش کیے ۔ ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے اپنے صدارتی خطاب میں غیر افسانوی نثر پر تفصیل سے گفتگو کی اورپڑھے گئے مقالوں کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ اس اجلاس میں ترجمہ نگاری، خودنوشت اور مجموعی خدمات پر اچھے پرچے پڑھے گئے۔ ڈاکٹر رشید احمد اور سید قمرالہدیٰ نے بھی اظہار خیال کیا۔ چوتھا اجلاس بعنوان ’اردو شاعری‘ پروفیسر ڈاکٹر اسرافیل، ڈاکٹر صفدرامام قادری، شہاب الدین احمد کی صدارتی مجلس کے تحت منعقد ہوا۔ اس میں جن مقالہ نگاروں نے اپنے مقالے پیش کیے ان میں ڈاکٹر زاہد الحق حیدرآباد( اکیسویں صدی میں اردوغزل کا اسلوبیاتی مطالعہ)، ڈاکٹر رشید احمد ڈھاکہ(شاہ حکیم محمد اختر اور ان کی شاعری)، حسین البناڈھاکہ(اکیسویں صدی میں بنگلہ دیش کی اردوشاعری)، حفصہ اختر ڈھاکہ(بنگلہ دیش میں اردو کے خدمت گزار: جلال عظیم آبادی) ڈاکٹر لطیف احمد راج شاہی(عالم اسلام میں اردو کی بازگشت)،بیرسٹر سعدیہ ارمان ڈھاکہ کے نام خاص ہیں۔محترم صفدر امام قادری اور شہاب الدین (قطر) نے صدارتی کلمات پیش کیے ۔صفدرامام قادری نے کہا کہ شاعری نئی صدی میں نئے رنگ و روپ میں ہمارے سامنے ہے۔ شام چھ بجے مجمدار آڈیٹوریم میں ایک شاندار عالمی مشاعرے کا انعقاد عمل میں آیا جس کی صدارت کسی ایک شخص کے بجائے صدارتی محفل نے کی۔ شاعری میں بنگلہ دیش سمیت تقریباً پچیس شعراء نے اپنا کلام پیش کیا۔ جن شعرا نے اپنا کلام پیش کیا ان میں صبیح بخاری قطر، احمد الیاس بنگلہ دیش، شہاب الدین احمد قطر، سرور غزالی جرمنی، ولا جمال مصر، جلال عظیم آبادی بنگلہ دیش، ارمان شمسی بنگلہ دیش، شمیم زمانوی بنگلہ دیش، اشفاق احمد قطر، شائستہ حسن ناروے کے نام خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔کانفرنس کے دوسرے دن پانچواں اجلاس بعنوان ’ اردو فکشن‘ منعقد ہوا ،جس کی صدارت کے فرائض ڈاکٹر جعفر احمد بھوئیاں ، ڈاکٹر زاہد الحق اور سرور ظہیرنے انجام دیے اورمقالے پروفیسر اسلم جمشید پوری میرٹھ( نیاعالمی اردو افسانہ)، پروفیسر ڈاکٹر محمد غلام ربانی بنگلہ دیش(ارمان شمسی کی اردو افسانہ نگاری)، ڈاکٹر محمد کاظم دہلی(اکیسویں صدی میں داستان اور داستان گوئی)، ڈاکٹر صوفیہ شیرین کلکتہ، (اکیسویں صدی میں بنگال کا اردو افسانہ اور عصری مسائل)، ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی بھارت(اکیسویں صدی کے اردو ناول ایک تنقیدی مطالعہ) ،نے پڑھے۔ اگلے دن پانچویں اجلاس کی صدارت کررہے جرمنی کے معروف افسانہ نگار مسرور غزال نے تمام مقالوں ، بالخصوص بنگلہ دیش کے مقالوں کا جائزہ لیا۔ ڈاکٹر محمد زاہد نے پڑھے گئے مقالوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس اجلاس میں ناول ، افسانے اور داستان پر اچھے مقالے پیش کیے گئے ۔چھٹا اجلاس’ نئی بستیوں میں اردو‘ کے عنوان سے منعقد کیا گیا۔جس میں مقالہ نگار کی حیثیت سے سید سرور ظہیر جرمنی(جرمنی میں اردو)، شائستہ حسن ناروے (ناروے میں اردو زبان کی نصف صدی) ڈاکٹر ولا جمال سعد احمد مصر(جدید اور معاصر اردو ادب میں مصرکے حالیہ تحقیقی رجحانات)، سید قمرالہدی کناڈا( اردو کی نئی بستی کناڈا)نے شرکت کی اورصدارت کی ذمے داری پروفیسر ڈاکٹر نصیرالدین، ڈاکٹر محمد گوہراورفہیم اخترنے نبھائی۔ساتویں اجلاس بعنوان’ تاریخ‘میں جن مقالہ نگاروںنے اپنے مقالے پیش کیے ان کے اس طرح ہیں : مقالہ نگار: پروفیسر ڈاکٹر اسرافیل ڈھاکہ( اکیسویں صدی میں بنگلہ دیش کے اردو ادبا) فہیم اختر برطانیہ(برطانیہ میں اردو بطور بیرونی زبان)، توصیف احمدڈارکشمیر(ریاست جموں وکشمیر میں اردو ادب کی موجودہ صورت حال)، ڈاکٹر محمد سمیع الاسلام راج شاہی(سید پورمیں اردو ادب کی سرگرمیاں اور چند قلم کار)، ارمان شمسی ڈھاکہ( اکیسویں صدی میں اردو ادب اور ہم)، ان م احسان المالکی ڈھاکہ (بنگلہ دیش میں اردو کے فروغ میں خواتین کی خدمات)ڈاکٹر محمود الاسلام ڈھاکہ(ڈھاکہ اردو کا ایک مرکز ہے)۔ اس اجلاس کی صدارت ڈاکٹر پروفیسر غلام ربانی، پروفیسر ڈاکٹر محمد کاظم اور شائستہ حسن نے کی۔انھوںنے اپنے صدارتی خیالات بھی پیش کیے۔اختتامی اجلاس میں بیرونی ممالک کے مندوبین نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ شعبے کی طرف سے کامیاب کانفرنس پر شکریہ ادا کیا گیا اور مقالہ نگاروںکو سر ٹیفکیٹ سے نوازاگیا ۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا