مشرق وسطیٰ کے لیے صدر ٹرمپ کے امن منصوبے میں فلسطینی ریاست کے قیام کی بات کی گئی ہے مگر ساتھ ہی اسرائیلی نوآبادیوں کو تسلیم کرنے کا اشارہ بھی دیا گیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطٰی میں قیام امن کے لیے اپنا منصوبہ پیش کر دیا ہے جس میں یروشلم کو اسرائیل کا غیر منقسم دارالحکومت رکھنے کا عہد شامل ہے۔ ان کے پیش کردہ اس منصوبے کا طویل عرصے سے انتظار کیا جا رہا تھا۔
انھوں نے اپنے منصوبے کو ‘حقیقت پسندانہ دو ریاستی’ حل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلیوں یا فلسطینوں کو اپنے گھروں سے بے دخل نہیں کیا جائے گا۔وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیراعظم نینتن یاہو کے شانہ بشانہ کھڑے صدر ٹرمپ نے کہا کہ ‘ہوسکتا ہے کہ ان کا پیش کر دہ منصوبہ فلسطینیوں کے لیے آخری موقع ہو۔’
فلسطینی اس منصوبے کی پہلے سے افشا ہونے والے تجاویز کو پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں۔
منصوبے کے خد و خال کو صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر نے مسودے کی شکل دی تھی اور اسے انتہائی رازداری میں رکھا گیا تھا۔
بعض مبصرین اسے ‘ڈیل آف دا سینچری’ یعنی اس صدی کا سب سے بڑا منصوبہ قرار دے رہے ہیں جس کا مقصد دنیا کے سب سے طویل تنازع کا حل تلاش کرنا ہے۔
اسرائیل نے ان تجاویز پر امریکہ کا شکریہ ادا کیا ہے، تاہم فلسطین انھیں متعصب قرار دے کر پہلے ہی مسترد کر چکا ہے۔
منگل کے روز غزہ کی پٹی میں ہزاروں فلسطینیوں نے احتجاج کیا، جبکہ مقبوضہ غرب اردن میں اسرائیل نے اضافی فوج تعینات کر رکھی تھی۔
پیر کو واشنگٹن میں صدر ٹرمپ سے مذاکرات کے بعد اسرائیلی وزیراعظم بینیامن نیتن یاہو نے انھیں سراہتے ہوئے انھیں ‘وائٹ ہاؤس میں اسرائیل کا بہترین دوست’ قرار دیا تھا۔
انھوں نے کہا تھا کہ ‘منصوبہ اس صدی کا ایسا موقع ہے جسے ہم ضائع نہیں کریں گے