پروفیسرشہاب عنایت ملک
9419181351
اُردودُنیاکے معروف قلمکاراورمعتبراُستادپروفیسرصاحب علی گزشتہ جمعہ کواچانک دِل کادورہ پڑنے سے ہم سب سے جُداہوگئے۔اناّللّہ ِواِناّاِلیہِ راجعون۔تندرست ،صحت منداورہشاش بشاش دِکھنے والے صاحب علی کے بارے میں کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھاکہ وہ اتنی جلدی ہم سب کوروتابلکتاچھوڑکرمعبودِ حقیقی سے جاملیں گے۔اُردودُنیاکے لئے یہ منحوس خبرکسی صدمے سے کم نہیں تھی۔بے وقت موت کایقین کسی کونہیں آرہاتھالیکن حقیقت بہرحال حقیقت ہوتی ہے ۔ایک دِن پہلے راقم سے تفصیلی گفتگوکرنے کے باوجوداِس منحوس خبرکوآخرتسلیم کرناہی پڑا۔صاحب علی ممبئی یونیورسٹی میں اُردوکے پروفیسراورصدرشعبۂ اُردوتھے۔اُن کی وِلادت اگرچہ کہ اُتردیش کے ایک گائوں میں ہوئی لیکن اعلیٰ تعلیم کے مرحلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طے کرنے کے بعدپہلے ممبئی کے ایک کالج اوراس کے بعدممبئی یونیورسٹی میں ملازمت کی شروعات کی۔اپنی قابلیت،محنت اورلگن کی وجہ سے بہت جلدان کاشماراُردوکے اعلیٰ اساتذہ میں ہونے لگا۔کرشن چندرچیئرپرپروفیسربننے والے صاحب علی کااخلاق دُوردُورتک مشہورتھا۔صاحب علی سے میرادوستانہ گزشتہ پانچ برس پرمحیط تھا۔اس دوران وہ کئی دفعہ جموں یونیورسٹی کسی نہ کسی ادبی کام کے سلسلے میںتشریف لاتے رہے۔یہاں اُنہوں نے بہت ساری ادبی تقاریب کی صدارت بھی کی۔اوریوں جموں یونیورسٹی کے طلبا ء اوراساتذہ کے دِل میں بھی وہ گھرکرگئے۔یہی نہیں اِس کم وقفے کی دوستی کے دوران راقم بھی اُن کی دعوت پرمتعدددفعہ ممبئی یونیورسٹی میں وہاں کے طلباء کولیکچردینے کیلئے جاتارہا۔ہردفعہ اُن کے ساتھ ادب کے کسی نہ کسی پہلوپرگفتگوہوتی رہی۔صاحب علی خوش اخلاق، باکرداراوربااصول شخصیت کے حامل تھے۔ممبئی میں رہ کرانہوں نے ممبئی یونیورسٹی کے شعبۂ اُردوکوایک نیاوقاربخشا۔اُن کی صدارت میں ممبئی یونیورسٹی میں متعددنیشنل اورانٹرنیشنل سیمی ناروں کاانعقادہوتارہا۔یہی نہیں صاحب علی نے ان سیمی ناروں میں پڑھے گئے مقالات کوکتابی صورت میں شائع کرکے اُنہیں نئی نسل کیلئے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محفوظ کردیا۔وہ ایک اچھے ناقد،بہترین محقق اورمعتبرترجمہ نگارتھے ۔ان کی کئی کتابیں منظر ِ عام پرآچکی ہیں ۔کئی کتابوں کوانہوں نے مرتب بھی کیااوربہت ساری مراٹھی کی کتابوں کواُردومیں منتقل بھی کیا۔صاحب علی ایک فعال شخصیت کانام تھاجن کے دِل میں ہمیشہ اُردوکے لئے کچھ نہ کچھ کرنے کاجذبہ موجزن رہتاتھا۔ابھی حال ہی میں اُنہوں نے محمدعلوی کے فن اورشخصیت پرایک کامیاب سیمی نارمنعقدکیاجس میں ملُک کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے مندوبین نے محمدعلوی کی شخصیت اورفن پرمقالات پڑھ کران کی زندگی اورفن کے نئے نئے گوشوں کوسامنے لایا۔صاحب علی کامانناتھاکہ محمدعلوی ایک بڑے شاعرہوگزرے ہیں لیکن ادب نے انہیں وہ مقام نہیں دیاجس کے وہ حقدارتھے۔اسی کمی کوپوراکرنے کیلئے اِس سیمی نارکاانعقاد کیاگیا۔اب وہ اس سیمی نارمیں پڑھے گئے مقالات کوکتابی صورت میں سامنے لانے کیلئے دِن رات کام کررہے تھے لیکن افسوس کہ ان کایہ مشن ادھورارہ گیا۔مُلک کی کئی اہم سرکاری اورغیرسرکاری تنظیموں سے وابستہ ہونے کی وجہ سے وہ ہندوستان کے کونے کونے میں مشہورتھے۔وہ ساہتیہ اکادمی کے ممبربھی تھے اوریوجی سی ،یوپی ایس سی سے بھی وابستہ تھے۔وہ مہاراشٹرااُردوساہتیہ اکیڈمی کے ممبربھی تھے اورحال ہی میں وہ اس کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے جس نے ملک اورمہاراشٹراکے بہت سارے ادیبوں کی خدمات کے سلسلے میں اعزازات وانعامات سے نوازاجن میں قاضی افضال اورشمیم حنفی کے نام قابل ذکرہیں۔ملک کے اُردوکے بڑے اساتذہ اُنہیں قدرکی نگاہ سے دیکھتے تھے اورانہیں اپنے بے حدقریب رکھتے تھے ان اساتذہ میں پروفیسرگوپی چندنارنگ، پروفیسرشمیم حنفی، پروفیسرقاضی افضال، پروفیسرقاضی جمال ،پروفیسرشافیع قدوائی ، پروفیسربیگ احساس ، پروفیسرابن ِ کنول، پروفیسرشہاب عنایت ملک وغیرہ کے اسمائے گرامی قابل ذکرہیں۔ملک کی اکثریونیورسٹیوں کے سلیکشن بورڈکے ممبربھی تھے۔اس طرح اُنہوں نے اُردوکے نئے اساتذہ کوتعینات کرنے میں گزشتہ چندسالوں میں اہم کردارادا کیا۔صاحب علی اپنے طالب علموں میں بے حدمعروف تھے۔ان کے طالب علم جن میں قمر صدیقی، ڈاکٹررشید،منیزہ قاضی وغیرہ شامل ہیں ان کی بے پناہ عزت کرتے تھے ۔وہ ایک غیرمتنازعہ شخصیت کے مالک تھے۔ ملک اوربیرون ملک کے اُردوکے تمام حلقے انہیں اپنے حلقے میں شامل ہونے کی دعوت دیتے تھے جسے وہ خندہ پیشانی سے قبول کرتے تھے۔شعبے کوانہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے ادبی سرگرمیوں کاایک گہوارہ بنارکھاتھا جوممبئی جیسے گہماگہمی والے شہرمیں بڑی بات تھی۔کئی برسوں سے وہ ممبئی یونیورسٹی کے شعبہ اُردوکے رسالہ ’’اُردونامہ‘‘کے مدیراعلیٰ تھے۔یہ رسالہ ان کی محنت اورکاوش سے اُردودُنیامیں اپنی ایک الگ پہچان بنانے میں کامیاب ہوا۔اس رسالے کے اُنہوں نے کئی خصوصی شمارے بھی شائع کئے جواُردوادب میں ایک دستاویزکی حیثیت رکھتے ہیں ۔فلمی دُنیاکے اکثروبیشتر بڑی ہستیوں کوبھی و ہ شعبے میں توسیعی خطبات دینے کیلئے دعوت دیتے رہتے تھے۔ان کی سربراہی میں جاویداختر،شبانہ اعظمی جیسے بڑے فلم سٹارشعبے میں تشریف لاکراپنے خیالات سے سامعین کومستفیدکرچکے ہیں۔وہ ایک زندہ دِل انسان تھے ۔ہرایک کے ساتھ شائستگی اورمہذب طریقے سے پیش آتے تھے ۔کسی بھی بڑے کام کوکرنے میں کبھی وہ گھبراتے نہیں تھے بلکہ اگروہ کبھی مایوس بھی ہوتے تومایوسی کوچہرے سے ظاہرنہیں ہونے دیتے۔اکثرجب وہ جموں آتے تومختلف ایسے واقعات کاذکرکرتے جوان کے بقول بڑے مشکل مرحلے تھے لیکن اپنی سنجیدگی سے وہ ان مرحلوں کوبھی پارکرنے میں کامیاب ہوئے۔اپنے آبائی گائوں سے انہیں بے پناہ محبت تھی۔گرمیوں کی چھٹیاں اکثروہ اپنے گائوں میں گُزارتے تھے۔مہمان نوازی ان کی نس نس میں رچی بسی تھی جب بھی راقم کاممبئی جاناہوتاتوضرورگھریاممبئی کے کسی ہوٹل میں دعوت کااہتمام کرتے تھے۔ایسے دِلنوازشخصیت کاہم سے جُداہونامیرے لئے توذاتی نقصان ہے ہی لیکن اُردودُنیاکاجونقصان ہواہے اُسے پرُ کرناناممکن بات ہے۔لواحقین میںوہ اپنی اہلیہ اورتین چھوٹے بچوں کوچھوڑگئے ہیں خداانہیں صبروجمیل عطاکرے اوریہ نقصان برداشت کرنے کی قوت عطاکرے۔
؎ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مُشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ورپیدا
Post Views: 108