کلامِ گلشن بیابانی
9421772841
کیا تھا یار سے وعدہ، نبھا کے لوٹ آیا
زمانے بھر کو میں نیچا دکھا کے لوٹ آیا
رکا ذرا بھی نہیں، مسکرا کے لوٹ آیا
میں بزمِ غیر کو مرچی لگا کے لوٹ آیا
جو میری راہ میں کانٹے بچھانے آیا تھا
میں اسکی راہ میں آنکھیں بچھا کے لوٹ آیا
شکار کرنے کو میں بھی وہاں گیا لیکن
اسیر سارے پرندے اڑا کے لوٹ آیا
اسی لیے کہ شہیدوں میں نام آجائے
وہ اپنی ایک ہی انگلی کٹا کے لوٹ آیا
وہ کہہ رہا تھا، چلو ’’شاہ‘‘ کی قیادت میں
اسے میں دوستو ٹھینگا دکھا کے لوٹ آیا
مہک رہا جو بیابانِ ہائے سخن
میں ریگزار کو گلشن بنا کے لوٹ آیا