کالم نویس: چودھری طیب رضاؔ جیلانی
tuiabchoudhary5813@gmail.com
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
’’بے شک ہر انسان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے‘‘ جس نے بھی اِس دنیا میں آنکھ کھولی اُسے اس دنیا کو الوداع کہنا ہی ہے بات ساری رزق کی ہے کس کا رزق بچپن میں مکمل ہو، جوانی میں ہی پورا ہو ،اور کس کا رزق لمبے عرصہ تک بڑھاپے کی دہلیز تک کا سفر طے کر کے مکمل ہو اور وہ اس دارِ فانی کوبزرگی میں الودع کہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ نے جس کو جب چاہا جتنا چاہا جیسے چاہا نواز دیا۔ آج میں اپنے چند الفاظ کچھ دن قبل ہم سے الوداع ہوئے بزرگ صوفی شاعر گوجری ادب کی ایک قدآور شخصیت اپنے آپ میں ایک سمندر گوجری کے بنیادی شاعر قبلہ مرحوم خدا بخش زارؔ صاحب کے صاحب زادے اور دورِ حاضر کی نوجوان شاعرہ، ادیبہ، کالم نویسہ اور سماجی کارکن محترمہ رزینہ گُلؔ صاحبہ کے والد محترم مرحوم قبلہ حاجی غلام احمد غلامؔ صاحب کی شخصیت کے بارے میں تحریر کر رہا ہوں۔جو خود ایک اعلیٰ پایہ کے شاعر اور ادیب تھے۔ 24 فروری بعد از نمازِ مغرب قبلہ حاجی غلام احمد غلامؔ صاحب نے آخری سانس لے کر اس دارِ فانی کو الوداع کہہ کر اپنے مالکِ حقیقی سے جا ملے ۔اچانک ہوئی اس موت کی خبر سُن کر یقین ہی نہیں آ رہا تھا ۔لیکن انسان کی موت کی کسی کو کوئی خبر نہیں ہوتی اور خدا دوست شخصیت کی موت کا تو کیا کہنا۔ سبحان اللہ موت ہو تو ایسی حاجی غلام احمد غلامؔ صاحب کی شخصیت گوجری ادب اور سماج میں اپنا ایک الگ مقام رکھتی ہے۔جس کا نقصان پورا کرنا نہایت ہی مشکل ہے لیکن مرحوم قبلہ حاجی غلام احمد غلامؔ صاحب کی بہادر صاحبزادی محترمہ رزینہ گُلؔ صاحبہ اور حاجی صاحب مرحوم کے فرزندان اس کمی کو کبھی محسوس نہیں ہونے دیں گی میں دعا گو ہوں کہ اللہ پاک رزینہ گُلؔ صاحبہ اور ان کے پورے اہل خانہ کو اس مشکل وقت میں ہمت اور صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے میں جانتا ہوں میرے الفاظ اس مشکل وقت میں کسی کے دُکھ کا ازالہ نہیں کر سکتے لیکن امید کرتا ہوں کہ میرے ا لفاظ کواور دعاؤں کو شرفِ قبولیت ضرور ملے گی۔
میری ملاقات قبلہ حاجی غلام احمد غلام ؔصاحب سے ایک ہی بار ہوئی تھی۔ 21 نومبر 2021 کو سُرنکوٹ(سانگلہ)میں ہوئے مشاعرہ میں مرحوم قبلہ حاجی غلام احمد غلامؔ صاحب نے میرا کلام سننے کے بعد مجھے حوصلہ افزائی اور ڈھیر ساری محبت سے نوازاتھا جو تاحیات یاد رہے گا۔ مشاعرہ اختتام پذیر ہونے کے بعد قبلہ حاجی غلام احمد غلامؔ صاحب نے اپنی صاحبزادی کے ہمراہ ہمارے ساتھ سانگلہ سے سُرنکوٹ کا سفر طے کیا تھا اپنے منفرد لہجہ کی وہ میٹھی میٹھی باتیں وہ انداز پھر کچھ نصیحت وہ پیاری یادیں ہمیشہ میرے دل میں سانس کی ماند رہیں گی۔ اس سال ہمارے علاقہ میں آنے کا مجھ سے وعدہ فرمایا تھا لیکن کیا خبر تھی اتنی جلدی سفرِ آخرت کی خبر آن پہنچے گی۔ موت کا ایک دن مقرر ہے اور وہ ہر حال میں آئے گی جہاں پر جس جگہ پر موت کا دن اوروقت مقرر ہے وہ آ کر رہتی ہے۔دعا ہے اللہ پاک ہمارا خاتمہ ایمان پر کرے اور دعا گو ہوں اللہ پاک قبلہ مرحوم حاجی غلام احمد غلامؔصاحب کو جنت میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔
کہہ رہی ہیں درد میں ڈوبی فضائیں الوداع
چارسو چھائی ہیں اشکوں کی گھٹائیں الوداع
یہ درودیوار یہ صحن چمن یہ رونقیں
کس طرح تیری رفاقت بھلائیں الوداع۔
٭٭٭٭