بھیم آرمی سربراہ چندر شیکھر آزاد کو ملی ضمانت

0
0

لازوال ڈیسک

نئی دہلی؍؍دہلی کی تیس ہزاری کورٹ نے بھیم آرمی کے سربراہ چندر شیکھر راون کو ضمانت دے دی ہے۔ ایڈیشنل سیشس جج کامنی لاء نے دونوں فریقوں کی دلیلیں سننے کے بعد یہ حکم جاری کیا۔ کورٹ نے چندر شیکھر آزاد کو 25 لاکھ روپے کے مچلکے پر ضمانت دینے کا حکم دیا ہے۔ کورٹ نے یہ بھی کہا کہ دہلی کا الیکشن متاثر نہ ہو، لہٰذا چار ہفتے کے لئے دہلی سے باہر سہارنپور میں رہیں۔ فیصلہ سناتے وقت چندر شیکھر کے وکیل محمود پراچہ نے کہا کہ ہمیں جامع مسجد جاکر شکریہ ادا کرنے کی اجازت دی جائے۔ تب کورٹ نے کہا کہ رہائی کے 24 گھنٹے کے اندر آپ کو جہاں چاہیں ،جا کر شکریہ ادا کریں۔ کورٹ نے دہلی پولیس کے ڈپٹی کمشنر کو ہدایت دی کہ چندر شیکھر کو اسکارٹ سیکورٹی فراہم کی جائے۔ سماعت کے دوران دہلی پولیس نے کورٹ کو چندر شیکھر کے خلاف درج تمام ایف آئی آر کی معلومات دی۔ دہلی پولیس نے کہا کہ ملزم کے سابقہ ریکارڈ کو ذہن میں رکھتے ہوئے ضمانت دینے پر فیصلہ ہونا چاہئے۔ دہلی پولیس نے کہا کہ چندر شیکھر نے ای میل کے ذریعے مظاہرہ دینے کی اجازت مانگی تھی لیکن اجازت نہیں دی گئی تھی۔ تب کورٹ نے کہا کہ یہ تو طے تھا کہ اجازت نہیں ملے گی کیونکہ آپ ی بھی قسم کا بوجھ اپنے کندھے پر نہیں لینا چاہتے تھے۔ سماعت کے دوران جب دہلی پولیس کے وکیل نے مظاہرے کے دوران کے شرائط کو پڑھنا شروع کیا تو عدالت نے کہا کہ جب آپ نے اجازت ہی نہیں دی تو شرائط کہاں لاگو ہوتی ہیں۔ آپ کچھ کیس میں لوگوں کو اٹھا لیتے ہیں اور کچھ معاملے میں کچھ نہیں کرتے۔ یہ پورے طریقے سے امتیازی سلوک ہے۔ سماعت کے دوران عدالت نے چندر شیکھر کے وکیل محمود پراچہ سے کہا کہ آپ چندرشیکھر کی ٹویٹس کے بارے میں ہمیں بتائیے۔تب محمود پراچا نے چندر شیکھر کے اس ٹویٹ کے بارے میں بتایا جس میں کہا گیا تھا کہ "Ambedkar said do not think I’ve died after I’m dead، I’ll be alive till the Constitution is alive”. پراچہ نے چندر شیکھر کے دوسرا ٹویٹ بھی پڑھا جس میں لکھا تھا کہ جب مودی ڈرتا ہے ،پھر پولیس کو آگے کرتا ہے۔ اس پر عدالت نے کہا کہ یہ ٹویٹ مسئلہ پیدا کرنے والا ہے۔ ہمیں اداروں کا احترام ہونا چاہئے۔ تب محمود پراچہ نے کہا کہ اس ٹویٹ کا اشارہ دفعہ 144 لگانے کی طرف تھا۔ تب کورٹ نے کہا کہ کئی بار دفعہ 144 لگانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اپنے فرائض کی بات بھی یاد رکھنی چاہئے۔ گزشتہ 14 جنوری کو عدالت نے دہلی پولیس کو چندر شیکھر کے خلاف دائر تمام ایف آئی آر کی اطلاع فراہم کرنے کی ہدایت دی تھی۔ سماعت کے دوران کورٹ نے کہا تھا کہ احتجاج کرنا ہر شہری کا آئینی حق ہے۔ کورٹ نے دہلی پولیس کو پھٹکار لگاتے ہوئے پوچھا تھا کہ تشدد کے ثبوت کہاں ہیں۔ دھرنا دینے میں کیا غلط ہے، کیا آپ نے آئین پڑھا ہے۔ کورٹ نے کہا تھا کہ آپ ایسے بات کر رہے ہیں جیسے جامع مسجد پاکستان میں ہو۔ آپ قانون کا وہ شق دکھائیے جس مذہبی مقام کے باہر احتجاج کی اجازت نہیں ہے۔چندر شیکھر کو شہریت ترمیم قانون کے خلاف مظاہرے کے دوران 20 دسمبر کو گرفتار کیا گیا تھا۔ چندر شیکھر نے اپنی ضمانت کی درخواست میں کہا ہے کہ ان کے خلاف ایف آئی آر میں کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا