الفاظ اور شاعرانہ اصطلاحات کے سلطان تھے مجروح سلطان پوری

0
0

یو این آئی

ممبئی؍؍اک دن بک جائے گا ماٹی کے مول، کتنا نازک ہے دل یہ نہ جانا ، ہائے ہائے یہ ظالم زمانہ، جب دل ہی ٹوٹ گیا ، ہم جی کے کیا کریں گے ، ہمیں تم سے پیار کتنا، جیسے معروف نغموں کے خالق مجروح سلطان پوری یکم اکتوبر1919 کو اتر پردیش کے ضلع سلطان پور میں پیدا ہوئے ۔اصل نام اسرارالحسن خان تھا۔ والد پیشہ سے سب انسپکٹر تھے ۔ انھیں اعلیٰ تعلیم دینا چاہتے تھے لیکن مجروح نے جب ساتویں جماعت پاس کی تو ان کا عربی و فارسی کی تعلیم کے لیے سات سالہ کورس میں داخلہ کرا دیا۔ اردو ، فارسی اور عربی میں مجروح نے ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔ درس نظامی کا کورس مکمل کرنے کے بعد عالم بنے ، جس کے بعد لکھنؤ کے تکمیل الطب کالج سے یونانی طریقہ علاج میں تعلیم حاصل کی اورحکیم بن گئے ۔اپنا دواخانہ چلا یا ،جہاں وہ مریضوں کو حکیمانہ نسخوں سے صحتیاب کرتے تھے ۔حکیمی دواخانہ کے ساتھ ساتھ سلطان پور میں مشاعروں میں بھی حصہ لیتے تھے ۔شعر و شاعری کا شوق تھا۔ پھر ایک وقت آیا کہ حکمت کو چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے شعر و شاعری سے رشتہ جوڑ لیا ۔ ایک مرتبہ انہوں نے سلطان پور میں مشاعرے میں غزل پڑھی جسے سامعین نے بے حد سراہا۔ اِس طرح، مجروح نے حکمت چھوڑ کر شاعری کے ذریعے معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھنے کا سوچا ۔پھر لفظوں سے لوگوں کا علاج کرنے لگے ۔ایسے وقت میں ان کی ملاقات جگر مراد آبادی سے ہوئی اور ان کی صحبت نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا۔ کم عمری سے ہی مشاعروں میں شرکت کرنے کے عادی مجروح اب بیرون ریاست مشاعروں میں بھی شرکت کرنے لگے تھے ۔ شعر و شاعری اور فلموں میں نغمہ نگاری کے دوران انھوں نے اپنا تخلص مجروح رکھا اور پھر مجروح سلطان پوری کے نام سے ہی معروف ہو گئے ۔ مجروح اردو غزل کے منفرد شاعر تھے ، لیکن اُن کی غزلیات کی تعداد ستر سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اُن کا شمار ترقی پسند شعرمیں ہوتا ہے ۔مجروح اردو غزل کے منفرد شاعر تھے ۔ اُن کا شمار ترقی پسند شعرا[؟] میں کیا جاتا ہے ۔ جگر مرادآبادی کو مجروح اپنا استاد مانتے تھے ۔ مجروح نے اپنا پہلا فلمی گیت’غم دئے مستقل‘ 1945ء میں فلم شاہجہاں کے لیے تحریر کیا تھا۔ اسی نغمے نے مجروح کو فلمی نغمہ نگاروں کی پہلی صف میں لا کھڑا کیا۔ جن کی ہر طرف دھوم مچ گئی ان کا یہ گیت آج بھی کانوں میں رس گھولتا ہے ۔ پھر مجروح کا یہ فلمی سفر پانچ دہائیوں تک چلتا رہا۔ البتہ مجروح کو یہ پسند نہیں تھا کہ ان کی شاعری کو فلم یا فلمی دنیا کے حوالے سے جانا جائے ۔ ان کا فلمی گیت لکھنے کا اپنا ایک خاص انداز تھا ۔ فلمی گیتوں میں بھی مجروح نے ادبی تقاضوں کو برقرار رکھا۔ جب دل ہی ٹوٹ گیا ، ہم جی کے کیا کریں گے ۔، انتہائی مقبول ہوا۔ اس نغمے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ گیت کے ۔ ایل۔ سہگل کے جنازے کے ساتھ بھی بجایا گیا۔ سہگل کی آواز میں مجروح کے گیت اس قدرمقبول ہوئے کہ ان کی گونچ گلی کوچوں میں سنائی دینے لگی اور مجروح کی شہرت کو گویا پر لگ گئے ۔ انہیں پے درپے فلمیں ملنے لگیں۔ انہیں فلمی دنیا کے سب سے بڑے اعزاز دادا صاحب پھالکے سے نوازا گیا۔ان کے فلمی گیتوں میں خیالات کی نازکی سے بخوبی اندازا لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ایسے تخلیق کار کے قلم سے وجود میں آئے ہیں جوغزلیہ شاعری کا گہرا ادراک رکھتا ہے اور جس نے تمام رموز سامنے رکھ کر اپنے تجربات اشعار کے قالب میں ڈھالے ہیں۔مجروح نے پچاس سال فلمی دنیا کو دیئے ۔ انھوں نے 300 سے بھی زائد فلموں میں ہزاروں گیت لکھے ۔ ان کے سینکڑوں نغمے آج بھی ان کے شیدائیوں کے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔1945ء کی بات ہے جب مجروح نے ممبئی کے ایک مشاعرے میں شرکت کی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب ان کی شاعری ادبی حلقوں میں اپنا پرچم لہرا رہی تھی۔ ممبئی کا اس مشاعرے نے مجروح کی زندگی کا رخ ہی موڑ دیا۔ مذکورہ مشاعرے میں فلم انڈسٹری کے مشہور پروڈیوسر اے آر کاردار بھی شریک تھے جنھیں ان کی شاعری نے اپنا دلدادہ بنا لیا۔ کاردار نے فوراً مجروح کے پاس نغمہ نگاری کی پیش کش کی۔ حالانکہ اس وقت انھوں نے منع کر دیا لیکن جب جگر مراد آبادی نے مجروح کو سمجھایا تو وہ راضی ہو گئے ۔ پھر کاردار نے موسیقار نوشاد سے مجروح کی ملاقات کرائی۔ یہ وہ موقع تھا جب دو بڑی شخصیتوں کا ’ملن‘ ہو رہا تھا۔ نوشاد نے فوراً ایک ساز (دھن) پیش کیا اور نغمہ لکھنے کی فرمائش کی۔ گویا مجروح کا پہلا فلمی نغمہ منظر وجود پر آیا۔ وہ نغمہ تھا۔جب اس نے گیسو بکھرائے بادل آیا جھوم کے ، مست امنگیں لہرائی ہے رنگیں مکھڑا چوم کے نوشاد کو یہ نغمہ بہت پسند آیا اور انھوں نے فلم ’تاج محل‘ میں نغمہ نگاری کی ذمہ داری مجروح کے سپرد کر دی۔ اس فلم کے نغموں کی پسندیدگی کا یہ عالم تھا کہ سبھی کی زبان پر صرف مجروح کا ہی نام تھا۔ اس کے بعد ان کے پاس نغمہ نگاری کے لیے کئی پیش کش آئیں اور یہی موقع تھا جب وہ بالی ووڈ کے ہو کر رہ گئے ۔ حالانکہ ایسا کہنا درست نہیں ہوگا کہ انھوں نے فلموں میں نغمہ نگاری کی اور ادب سے کنارہ کش ہو گئے ، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں کم و بیش 70 غزلیں لکھی ہیں جب کہ فلمی نغموں کی تعداد تقریباً 4000 ہے ۔ ماہرین ادب کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ مجروح ادبی شاعری پر توجہ دینے کے بجائے فلمی دنیا کی نذر ہو گئے ۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا