نئی سیاسی پارٹی معرض وجود میں آرہی ہے: ڈاکٹر مصطفی کمال
یواین آئی
سرینگر؍؍نیشنل کانفرنس کے معاون جنرل سکریٹری ڈاکٹر شیخ مصطفیٰ کمال نے سابق وزیر سید محمد الطاف بخاری کی قیادت میں آٹھ سیاسی لیڈران کی گزشتہ روز لیفٹیننٹ گورنر گریش چندرا مرمو کے ساتھ ملاقات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ متذکرہ ملاقات سے وادی میں نئی سیاسی جماعت معرض وجود میں آنے کا کوئی واضح اشارہ نہیں مل رہا ہے۔ تاہم ان کا ساتھ ہی کہنا ہے کہ جموں وکشمیر میں سیاستدانوں کی طرف سے وفاداریاں بدلنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یاد رہے کہ سابق وزیر الطاف بخاری کی قیادت میں گزشتہ روز سابق وزرا و ممبران اسمبلی کی آٹھ رکنی وفد جموں کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر گریش چندرا مرمو کے ساتھ ملاقی ہوئی اور 15 نکات پر مشتمل میمورنڈم پیش کیا جس کو بدھ کے روز وادی کے کئی اخباروں میں شائع بھی کیا گیا۔ڈاکٹر مصطفی کمال جو نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے برادر اصغر ہیں، نے متذکرہ آٹھ رکنی وفد کی لیفٹیننٹ گونر کے ساتھ ملاقات کے متعلق یو این آئی اردو کے ساتھ اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ‘جموں کشمیر میں یہ پرانی روایت ہے، خرید وفروخت، وفاداریاں یہاں بدلتی رہتی ہیں، یہ آج کی دلیل نہیں بلکہ پرانی کہانی ہے، لیفٹیننٹ گورنر سے کوئی ملے اس سے یہ اشارہ نہیں ملتا ہے کہ نئی سیاسی پارٹی معرض وجود میں آرہی ہے اور لیفٹیننٹ گورنر کو بھی اس کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ نئے چہرے لانا جمہوریت سے کھلواڑ کے مترادف ہے’۔متذکرہ آٹھ رکنی وفد کی طرف سے وادی کے اخبارات میں مشتہر کئے گئے 15 نکاتی میمورنڈم کے متعلق مصطفی کمال نے کہا: ‘یہ انہوں نے اپنا لائحہ عمل ترتیب دیا ہے، یہ رات کی بات نہیں ہے، اس میں اور بھی عناصر شامل ہوں گے، ہمارے صدر محترم نے اس سلسلے میں پہلے ہی پیش قدمی کی ہے، ہم نے گپکار اعلامیہ جاری کیا ہے جس پر سب نے دستخط کئے، جو ایک مشترکہ پلیٹ فارم بنانے کے لئے ایک شروعات ہوسکتی ہے اور جو یہاں سیاست کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے اس کا توڑ کیا جاسکتا ہے’۔انہوں نے کہا کہ یہ لوگ جو سامنے آئے ہیں نئے نہیں بلکہ پرانے ہی چہرے ہیں اور لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ لوگ کہاں سے آئے ہیں اور گورنر صاحب سے ملنا اور چوبیس گھنٹوں میں اخبار میں لائحہ عمل شائع کرنا ، یہ سب عوام کے سامنے ہے اور عوام اس کا فیصلہ کرے گا۔کشمیر کے برعکس خطہ جموں میں نئی سیاسی پارٹیاں معرض وجود میں آنے کے سلسلے میں کوئی سرگرمیاں نہ ہونے کے بارے میں موصوف نے کہا کہ جموں میں کوئی سیاسی خلا نہیں ہے۔انہوں نے کہا: ‘جموں میں تقریباً تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں بشمول نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی، بی جے پی، پنتھرس پارٹی وغیرہ کے لیڈران سرگرم ہیں، وہاں نئی پارٹی کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی وہاں کوئی سیاسی خلا ہے’۔مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ماضی میں بھی نیشنل کانفرنس کے دبدبے کو ختم کرنے کے لئے پارٹیاں بنائی گئی۔انہوں نے کہا کہ وادی میں ووٹ کو تقسیم در تقسیم کرنے کا ہی نتیجہ ہے کہ آج یہاں سیاسی غیر یقینی اور اضطرابی صورتحال چھائی ہوئی ہے۔ڈاکٹر کمال نے کہا کہ نیشنل کانفرنس کو کوئی نئی بات نہیں کہنی ہے ہم اپنے نصب العین پر ڈٹ کر کاربند ہیں، اقتدار اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہے، جموں کشمیر کا عوام سیاسی طور با شعور ہے اور وہ سب کی باتیں سنیں گے اور جب فیصلے کا موقع آئے گا تو وہ وہی فیصلہ لیں گے جو ان کے لحاظ سے صحیح ہوگا۔