افغانستان: طالبان کے حملوں میں 23 افغان سیکیورٹی اہلکار ہلاک

0
0

یو این آئی

افغانستان میں طالبان کے متعدد حملوں میں کم از کم 23 افغان سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوگئے۔خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق موسم سرما میں حملوں کی تعداد کم ہوتی ہے تاہم ماضی کے مقابلے میں حملے بڑھے ہیں۔طالبان نے شمالی صوبے میں قائم افغان اہلکاروں کی 3 چیک پوسٹوں پر حملے کیا۔صوبائی پولیس چیف اجمل کے مطابق بلخ میں عسکریت پسندوں نے ایک چوکی پر حملہ کیا اور کم از کم 7 افغان اہلکاروں کو ہلاک کردیا۔انہوں نے بتایا کہ متاثرہ پوسٹ پر صوبہ جوزجان سے ملانے والی شاہراہ پر چیک پوسٹ سے نئی کمک بھیج دی گئی۔طالبان کے ایک ترجمان نے دعوی کیا کہ حملے میں 11 افغان پولیس اہلکار ہلاک ہوئے لیکن صوبائی کونسل کے ممبر افضل حدید نے ہلاکتوں کی تعداد 9 بتائی جبکہ 4 افراد لاپتہ ہیں۔انہوں نے کہا ‘کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے کہ آیا لاپتہ 4 پولیس اہلکاروں نے حملے میں طالبان کی مدد کی تھی یا انہیں پکڑ لیا گیا’۔عہدیداروں نے بتایا کہ طالبان کے الگ الگ حملوں میں شمال مشرقی قندوز میں افغان سیکیورٹی فورسز کے کم از کم 9 اور پڑوسی صوبے تخار میں 7 ہلاک ہو گئے۔تخار کے صوبائی ترجمان کا کہنا تھا کہ تاجکستان کی سرحد سے متصل درقاد میں سیکیورٹی چوکی پر حملہ میں کم از کم 11 عسکریت پسند مارے گئے۔واضح رہے کہ دو روز قبل طالبان نے امریکا کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کے تناظر میں اعلان کیا تھا کہ وہ ملک بھر میں عارضی جنگ بندی پر رضامند ہیں۔امن معاہدے کے نتیجے میں واشنگٹن افغانستان میں 18 سال سے جاری جنگ کے بعد اپنی افواج کو واپس ملک میں بلاسکتا ہے۔واضح رہے کہ اس وقت امریکا کے 12 ہزار فوجی افغانستان میں موجود ہیں جبکہ یہ توقع ہے کہ طالبان سربراہ معاہدے کو منظور کرلیں گے۔طالبان کی جانب سے جنگ بندی کی مدت کے بارے میں نہیں بتایا گیا تاہم اطلاعات ہیں کہ یہ 10 روز تک جاری رہ سکتی ہے۔امریکا اور طالبان کے مابین معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد 2 ہفتوں میں بین الافغان مذاکرات ہونے کی توقع ہے جو اس بات کا تعین کریں گے کہ جنگ کے بعد افغانستان کا مننظر نامہ کیسا ہوگا اور طالبان اس میں کیا کردار ادا کریں گے۔ان مذاکرات میں متعدد پہلوؤں پر بات کی جائے گی جن میں خواتین کے حقوق، ا?زادی اظہار رائے اور ہزاروں طالبان قیدی کے ساتھ ساتھ افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے دولت اور طاقت کا غلط استعمال کرنے والی مسلح ملیشیا کا مستقبل شامل ہے۔اس عارضی جنگ بندی کی تجویز امریکی سفیر برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے مذاکرات کے گزشتہ دور کے دوران پیش کی تھی۔حالیہ جنگ بندی ایک ہفتے سے 10 روز تک قائم رہے گی اور اس دوران امریکا کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے جائیں گے، تاہم ایک طالبان عہدیدار کے مطابق جنگ کے بعد افغانستان کا منظر نامہ تنازع کے دونوں اطراف موجود افغانوں کے درمیان بات چیت سے طے کیا جائے گا۔افغان امن عمل منسوخ ہونے کے بعد کیا ہوا؟یاد رہے کہ رواں برس 8 ستمبر کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اعلان کر کے سب کو حیران کردیا تھا کہ انہوں نے سینئر طالبان قیادت اور افغان صدر اشرف غنی کو کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات کی دعوت دی تھی، تاہم آخری لمحات میں انہوں نے طالبان کے ایک حملے میں ایک امریکی فوجی کی ہلاکت پر مذاکرات منسوخ کردیے تھے۔اس پر ردِ عمل دیتے ہوئے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات کا سلسلہ معطل کردیا تاہم اب امریکا کو پہلے کے مقابلے میں زیادہ ’غیر معمولی نقصان‘ کا سامنا ہوگا لیکن پھر بھی مستقبل میں مذاکرات کے لیے دروازے کھلے رہیں گے۔امریکا کے ساتھ مذاکرات منسوخ ہونے کے بعد طالبان وفد 14 ستمبر کو روس بھی گیا تھا، جس کے بارے میں طالبان رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ دورے کا مقصد امریکا کے ساتھ مذاکرات بحال کرنے کی کوشش نہیں بلکہ امریکا کو افغانستان سے انخلا پر مجبور کرنے کے لیے علاقائی حمایت کا جائزہ لینا ہے۔بعد ازاں طالبان وفد نے 29 ستمبر کو بیجنگ کا دورہ کیا تھا اور چینی نمائندہ خصوصی ڈینگ ڑی جون سے ملاقات کی تھی۔ان مذاکرات کی معطلی سے قبل قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری مذاکراتی عمل کے حوالے سے امریکی اور طالبان نمائندوں نے بتایا تھا کہ انہوں نے ایک طریقہ کار پر اتفاق کیا جسے جلد حتمی شکل دے دی جائے گی۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا