ویٹنگ روم‘‘ افسانہ

0
0

  1. احمد رشید علی گڑھ،یوپی’’

 

اپنا وطن کو  چھوڑے  ہوئے صدیاں بیت گئیں ۔ اب تو ما ہ و سال بھی یاد نہیںکہ آ باوأجداد کب جلا وطن ہوئے … غریب الوطن ہونا ،جلاوطن ہونا ،ہجرت ہونا ایک دیر ینہ روایت ہے یا انسا نی تہذیب کے مقدّرات کی کتاب میں مرقوم فیصلے۔یہ بات سینہ بہ سینہ چلی آر ہی ہے کہ اپنا وطن بہت خوبصورت تھا۔جب اپنا تھا تو خوبصورت تو ہونا ہی تھا۔وہاں شور تھا ناکوی ٔ شر ۔ ہرسوٗ سکون وقرار تھا۔ فرحت ومسرت و شادمانی تھی۔چاروں طرف لہلہاتا سبزہ پھولوں کی خو شبو ؤں سے معطر فضا شب وروز کی رنگینی اور موسموں کی مستی تھی۔ اب یہ عالم ہے کہ میری نسل کے زیادہ تر لوگ اپنا وطن بھول گیٔ ہیں ۔ کبھی کسی کو یاد آتا ہے کبھی کبھی کسی کو بہت یاد آتا ہے۔ جدا مجدنے اپنا وطن خیربادکیا۔ محل نما رہائش گاہ کو چھو ڑ نے میں بڑا ہی دکھ ہوا کافی عرصہ تک زبان درزبان اس کا چر چہ ہوا… پھر ذکر کم سے کم تر ہوتا گیا۔ اب تو کبھی یاد آئی تو آپس میں ذکر ہو گیا ۔نسل کے بوڑھے اپنا وطن یاد کر تے، یاد کر کے آہیں بھرتے ان کی آواز میں بڑا درد اور لہجہ رقت آمیز ہوتا۔ نوجوان اور بچیّ کبھی اس ذکر میں شا مل ہوتے تو بے دلی ان کے رویّے سے ظاہر ہوتی نہ تو کبھی توجہ دیتے اور سنجید گی کا ہمیشہ فقدان ہوتا۔ جب وہی بچیّ سنِ پیرا نِ سالی کو پہنچتے تو ذکر ان کی دلچسپی کا سبب بن جا تا اور وہ بھی اپنی غریب الوطنی کا شدت سے احساس کر نے لگتے اس کا ذکر کر تے وقت ان کی آنکھیں نم ہو جاتیں یہ سلسہ دیرینہ وقتوں سے اسی طرح جاری ہے ۔ اپنا وطن واپسی کے لیٔ دلی یابے دلی سے تیار یوں میں مصروف دکھائی دینے لگتے۔ یہاں اس امر کی جانب یہ اشارہ کرنا ناگزیر ہے جب جب اپنا وطن واپسی کی فکر ہوتی تو اپنے احباب واقربا کے چھوٹنے سے رنجیدہ بھی ہوتے۔ اکثر بزرگ بھی سامانِ سفر باندھتے وقت دُکھی ہوتے اس وقت اپنے وطن واپسی کی خوشی کم اپنوں کو چھوڑنے کا غم بڑا ہوتا۔ حالانکہ واپسی ایک حقیقت تھی۔ اب مسئلہ یہ تھا سفر سے پہلے سا مانِ سفر کا باندھنا ضروری اور غیر ضروری چیزوں کا انتخاب کرنا تاکہ بو جھ ہلکا رہے اور سفر میں دقتوں کا سامنا نہ ہو۔ قصدِسفر بھلے ہی اپنے بس میں نہ ہو لیکن متا عِ سفر اپنے اختیار میں ہوتا ہے اور اگر ضروری سامانِ سفر کی قِلّت کا احساس شدت اختیار کرلے تو وطن واپسی کا خوف ایک ڈراؤ نا خواب بن جا تا ہے ۔ وہ بھی اس پل مکھّی کی طرح مکڑی کے جا ل میں پھنسا تھا۔کوئی غیبی طاقت یا اندرونی جذبہ سفر کے لیٔ مجبور کرتا ہے۔ اس نے سامانِ سفر باندھا اور جیسے ہی چلنے کا ارادہ کیا اسے خیال آیا سفر میں کام آنے والا سامان ایک نظر دیکھ لیا جائے لیکن میں تو اپنے وطن جارہا ہوں سامانِ سفر باندھنے کی کیا ضرورت ؟ سفرکرتے وقت ذہن سامان کی حفا ظت اور دیکھ بھال میں لگا رہے گا اور لطفِ سفر فوت ہوجائے گا ۔ سفر طویل ہو یا مختصر لطف سے خالی ہو تو بوجھ بن جاتا ہے بوجھ تلے انسان دبا سہما رہتا ہے۔ اپنے آرام کے لئے  متا عِ سفر کا بو جھ کتنا ہی بڑھا لے مگر سفر تو پھر سفر ہے۔ تھکا دینے والا۔ اسی لیٔ سامان کم سے کم باند ھے تاکہ سفر آسان ہو جائے حساب کتاب گننے اور شمار کرنے کی الجھن سے نجات مل جا ئے ۔ یہی نجات کا میاب زندگی اور آ سان سفر کی علامت ہے اس نے سا مان کو ٹٹولا اس میں فا لتو چیزیں زیادہ ہیں اور ضروریاتِ سفر کا سامان کم ہے۔ وہ سو چتا ہے اس میں میرا اپنا کیا ہے؟ میں سفر کا تنہا مسافر اور اتنا بو جھ کوئی بوجھ بانٹنے والا بھی نہیں ۔میں اکیلا مسافر بوجھ تلے دبا ہوا۔ ایک کنگال مسا فر جا نب سفر رواں … جیسے تیسے اسٹیشن پہنچا …اسٹیشن پر مسافروں کا ہجوم۔ سب ہی مسافر انجان منزل کی طرف  بھاگے جارہے ہیں حواس با ختہ ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں۔ ٹرین کی آمدورفت کی گہما گہمی کا نوں کو بہرہ کرنے والا ایک شور۔ اس بھیڑ میں آنکھو ں کی بینائی آشنا ئی سے محروم،کسی کو کسی کی خبر نہیں نفسیٰ نفسی کا عالم۔ ٹرین لیٹ ہو گئی۔مقررہ وقت سے کا فی لیٹ نہیں …نہیں …ٹرین ہمیشہ متعین وقت پر آتی ہے۔ شاید مجھے ہی سفر کی جلدی ہے۔شاید یا د وطن اور احساس جدائی نے وقت کی گنتی کرنا بھلا دیا ہے۔ آخر!میںبوڑھا بھی تو ہو گیا ہوں۔ اس نے اِدھر اُدھر دیکھا کوئی اپنا مل جائے بو جھ اٹھانے میں مدد ہوجائے گی سب ہی مسافر اپنے اپنے بو جھ میں دبے ہو ے ٔ ہیں کو ئی کسی کا مد د گار نہیں اس نے اپنا بو جھ اٹھا یا جیسے تیسے ویٹنگ روم میں دا خل ہوا اسے ویٹنگ روم، عارضی وطن محسوس ہوا اور عارضی وطن ویٹنگ روم جیسا وہ عارضی وطن اور ویٹنگ کے فرق کو جاننے کے لئے دماغ کھپانے لگا؟نتیجہ صفر نکلا۔ وٹینگ روم سفید پتھروں سے بنا ہوا محل جیسا حسین و جمیل مگر گردوغبار سے اٹا ہوا…دیواریں رنگ و روغن سے آ راستہ خا ک آ لود چھت پر نقش ونگار بنے ہو ئے مگر صفا ئی نہ ہو نے سے دھند لے پڑ گے ٔ تھے …اس نے ویٹنگ روم میں راحت کی سا نس لی …با ہر کے نا خو ش گوار مو سم کے مقابلے میں اندر کا موسم خو ش گوار اور مناسب تھا اپنا سا مان احتیا ط سے کمر ے کے ایک کونے میں رکھا وٹینگ روم کی بے ترتیب چیزوں کو قرینہ سے رکھنے لگا۔ آیٔنہ کو کھونٹی پر سیدھا کیا فر نیچر کی سمت بدلی …اور وٹینگ روم کی صفائی ستھرائی میں لگ گیا تھوڑی دیر کے لیٔ وہ یہ بھول گیا کہ وہ ایک مسافر ہے۔ نہ تکان کا دھیان، نہ بوجھ کی الجھن۔ ویٹنگ روم کی چہاردیواری رنگین اور خو بصورت تصاویر سے سجی ہوئی تھیں ان مختلف تصویروں کے درمیان دیوار کا مختصر حصّہ خالی پڑا تھا جو سپا ٹ اور بدنما دکھا ئی دے رہا تھا اس نے سو چا اگر اس پر کوئی تصویر آ ویزاں کر دی جاے  ٔ تو اس کی خو بصورتی میں چار چاند لگ جائیں گے۔ویٹنگ روم کی زیب وزینت اور آ رائش میں اس قدر مصروف ہو گیا کہ مسافر ہونے کا گمان اس کے ذہن سے محو ہو گیا وہ بھول گیا کہ ویٹنگ روم میں اس کا قیا م صرف اتنا ہے کہ جب ریل گا ڑی آ جا ے ٔ  تو اس پر اس کو سوار ہو جا نا ہے اور اسے اپنے وطن جا نا ہے۔ اس کے آ باؤاجداد کو اپنی مرضی سے، کسی سازش کے تحت یا کو ئی اور وجہ سے خدا جانے اپنا وطن خیر باد کہنا پڑا ۔وہ بوڑھا ہوگیا ہے یاد داشت کمزور ہو گیٔ ہے۔ نا توانی اور کمزوری ہونے کے سبب مختلف بیماریوں کا غلبہ رہتا ہے جسم سے قوتِ مدافعت زائل ہوگئی ہے معمولی بیما ری بھی بڑی ہو جا تی ہے۔ خیر یہاں تو معاملہ پیرانِ سالی کا ہے اگر عہد طفلی سے جوانی تک کسی بھی عمر میں کمزوری ہو تو معمولی سے معمولی بیماری بھی حاوی ہوجاتی ہے اور اس وقت اپنے وطن کی یاد شدت سے جا گنے لگتی ہے اور اس وقت کمزوری یا کوئی اور وجہ سے دل کا نپنے لگتا ہے، گھبراہٹ اور خو ف طاری ہو جاتا ہے چونکہ اپنوں کو چھوڑنے کا غم بڑا وطن کی یاد کا الم چھوٹا ہو تا ہے ۔؟ ویٹنگ روم کے با ئیں جانب دبیز خوش رنگ قالین بچھی تھی۔ دائیں طرف صوفہ پر اس کے قدم خود بخود بڑھنے لگے وہ تھکا ماندہ اس میں دھنس گیا سا منے دیوار پر تصویروں کے درمیان خالی جگہ پر نظر جم گئی …وہ اسی لمحہ اٹھا اسٹیشن کے گیٹ سے با ہر نکلا… گر می کی وجہ سے دھو پ کی تمازت شدید تھی ۔ آسمان صاف تھا ہلکے نیلے رنگ پر سفید بادل کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے۔ سورج سر کے اوپر آگ بر سا ر ہا تھا ۔ اچا نک لو کے گرم تھپیروںنے اس کے منہ پر طمانچے لگا نے شروع کر دیے وہ گھبرا گیا اسے پیاس محسوس ہو ئی ویٹنگ روم کی طرف اس کے قدم واپس ہو نے لگے دروازے میں داخل ہوتے ہی پیا س نے شدّت اختیار کرلی۔ اس کی آنکھیں نا معلوم شے کے لیٔ بے چین ہو گئیں اسے یاد آیا اسے پانی کی تلاش ہے۔ فریجر کے قریب گیا۔ پانی کا گلا س بھرا۔ غٹ غٹ ایک سا نس میں پی گیا۔ ٹھنڈا ٹھنڈا پانی پھر گلاس میں بھرا۔ غٹ غٹ۔ پیا س ہے کہ بجھنے کا نا م ہی نہیں لے رہی۔ جوںجوں وہ پانی پیتا تو نس بڑ ھتی جا رہی تھی ۔اسے پانی گرم کھولتا ہو الگ رہا تھا۔ وہ گھبرا یا ہوا۔ بار بار پانی پیتارہا پیا سی نظریں ادھر ادھر گھوم رہی ہیں ۔ویٹنگ روم چند لمحہ پہلے جنتِ نشاں دکھائی دے رہا تھا اچانک دوزخ میں تبدیل ہو گیا۔ بے چینی کے عا لم میں وہ ادھر ادھر دیکھنے لگا جیسے اس کی نگا ہیں جا ے ٔ  پنا ہ تلا ش کر رہی ہو ں دیو ار پر آویزاں تصویروں پر جا کر نگا ہ ٹھہر گئی اس نے حواس درست کئے آنکھو ں کو تصا ویر کی جا نب سمینٹا۔ اور صوفہ پر نڈھا ل ہو کر بیٹھ گیا۔ تصویر نمبر ایک۔ دو جمع تین ضرب دو بو لنے لگی۔ خوبصورت سبز قالین کے درمیان پہاڑ کی ہلکی سی سیا ہی برف کی چا در سے ڈھکی ہے ۔ روئی دھننے پر اُڑنے والا دھواں جیسا برف چا روں طرف گر رہا ہے ۔ پہا ڑکی پشت پر ڈوبتے سورج کی شفق آسمان کے چھو ٹے سے کو نے پر پھیل رہی ہے۔ سبز زمین پر قد آوردرخت صف بنا ے ٔ صلوٰۃ میں مصروف ہیں۔ خو شگوار سبک خرام ہوا کی تا ل پر مختلف رنگوں کے پھو ل قطار لگائے نا زک شا خو ں پر نا زنینوں کی طرح مٹک رہے میں ۔ہلکا ہلکا سرمئی اندھیرا مشر ق میں پھیلا ہے اور اس کے درمیان سے ما ہتاب جھا نکتا کبھی بادلوں کی اوٹ میں چھُپتا جیسے کوئی پردہ نشین چلمن کے پیچھے بیٹھی مسکرا ہٹ کے پھو ل بکھیر رہی ہو رنگین اور خو شبو سے معطرفضا میں ایک جوان جوڑا اٹھکیلیاں کر رہا ہے فرشتو ں جیسے معصوم ہو نٹوں پر کھیلتی ہو ئی دلنواز مسکرا ہٹیں اس جوڑے کا استقبا ل کر رہی ہیں اور برف کے گولے بنا بنا کر ان کی طرف اچھال رہے ہیں ذرا فا صلے پر کچھ جا نور اپنے چھوٹے  چھوٹے بچوں کے سا تھ گھاس چر رہے ہیں ایک عجیب اور دلفریب منظر کو دیکھ کر اس کا دل خو ش ہورہا تھا  ـــ’’لو ازلائف ‘‘ بیساختہ اس کے منہہ سے نکلا  شبنم کو جب میں نے پہلی بار دیکھا تو وہ میر ے دل کی کلی پرا یسے گری کہ پھو ل کی طرح کھل گیا ۔ وہ اپنے آپ میں سمٹی سر خ جوڑے میں ملبوس، میرے گھر میں گلاب کی پنکھڑیوں کی طر ح بر سی۔ میرا گھر ہرا بھرا ہو گیا۔ زندگی کا ہر دردانگیز لمحہ اس کی ایک مسکراہٹ سے نشا ط انگیز ہو جا تا ۔پھر وہ اپنے پھول سے بچوں میں ایسی مست ہوئی کہ میں فاضل اور فضول شے بن گیا۔ محبت کا سفر جب ممتا پر رکتا ہے تو وہی شریک حیات کی منزل ہو تا ہے۔ ’’شبنم بھی ہے بچے بھی ہیں اور میں سفر کا اکیلا مسا فر۔ بالکل تنہا‘‘ اس کے منہ سے نکلا  اچانک تصویر نمبر دو۔ تین جمع چار ضر ب دو بو لنے لگی ۔ ایک با ر عب شخص سونے کا تا ج اور چا ندی کے نعلین پہنے بڑے کر و فر کے سا تھ تخت نشین تھا سا منے ایک باریش انسان زنجیروں میں جکڑا ہوا کھڑا تھا ۔ایک بد نما شکل کا آ دمی ہا تھ میں تلوار لیٔ اس کے سا منے کھڑا تھا۔ چھلے دار مو نچھوں کے نیچے سیا ہ ہونٹ ہل رہے تھے اور آنکھیں حکم کی منتظر تھیں۔ درباری نگا ہیں بسجود ہا تھ باند ھے اپنے ناخدا کے سا منے ادب واحترام کے سا تھ قطار میں کھڑے تھے۔ ’’سچ بو لنے کا انجام سزائے موت‘‘ بیساختہ اس کے منہہ سے نکلا  تصویر نمبر تین۔ چا ر جمع پا نچ ضر ب دو پر اس کی نگا ہ گئی ایک مثلث کے اندر روشنی کو بکھیرتی ہو ئی آنکھ، یہ آنکھ علم کی علا مت، مثلث کے اضلا ع کے چاروں طرف پھوٹتی ہوئی کر نیں جو جہالت کے سیاہ با دلوں کو ہٹا دیں گی۔ کئی چھڑ یوں کا ایک بنڈل:- اتحا د میں قوت ہے۔ ٹو تی ہو ئی زنجیر: -غلا می سے نجا ت آزادی کی علا مت۔ زمین پر گرا ہوا عصا ے ٔ شا ہی! پیروں کے نیچے دبا ہوا سو نے کا تا ج۔ سانپ اپنی دم کو کاٹتے ہو ے ٔ ایک حلقے کی صورت میں :- ہمیشگی کی علا مت کیونکہ کسی حلقے کی نہ تو ابتدا اور نہ انتہا۔ پنکھ دار عورت :- قا نو ں کی تمثیل۔ قا نو ن کی تختی :- قا نو ن سب کے لئے ایک ہی جیسا، اس کے سامنے سب برابر ہیں۔ ایک کھدرد ھاری نیتا کی مٹھی میں انصاف کی دیوی ۔ تصویر نمبر چار۔ پانچ جمع چھ ضرب دو بو لنے لگی۔ بڑی بڑی عما رتو ں کے درمیان چھوٹے چھوٹے مو تیوں جیسے دانتوں کے بیچ پائیریا کے کا لے کا لے کیڑے ان کے اوپر اڑتے ہو ئے ہوائی جہا ز اور ہیلی کوپٹر۔ سڑک پر دوڑتی ہوئی مو ٹر گاڑیاں فٹ پاتھ پر دوڑتی ہوئی سا ئیکلیں اور پیدل دوڑ تے ہو ئے لو گ ۔ شراب اورر قص و سرود میں ڈوبی ہوئی محفلیں۔ دیواروں کے سا یہ میں زمین پر سوئے ہوئے انسا ن ، جھوٹن پر کتّے کی طرح دوڑتے میلے کچیلے مد قوق بچے ۔ وہ سوچنے لگا وٹینگ روم کی دیواروں پر لگی ہوئی یہ تصویر یں زندگی کی تما م بدصورتیوں کے سا تھ کتنی حسین وجمیل اور خوبصورت ہیں۔ پو ری کا ئنات ویٹنگ روم میں سمٹ گئی ہے۔ کائنات ویٹنگ روم ہے اور ویٹنگ روم کائنات بن گیا ہے ۔ لیکن تصاویر کے درمیان دیوار پر چھوٹی سی خا لی جگہ اس سجے ہوئے ویٹنگ روم میں کتنی بد زیب نظر آرہی ہے اور ویٹنگ روم اس کی وجہ سے بد نما دکھائی دے رہا ہے۔ وہ اس کی آرائش اور سجا وٹ کے لئے پریشان ہو گیا …ارے… مجھے کیا… کرنا ہے؟  میںتو ایک مسافر ہوں ۔مجھے ویٹنگ روم کی زیب وزینت سے کیا لینا دینا؟۔ میں ایک تنہا مسا فر۔جس کی اہل ہے مگر نہیں ہے۔ جس کے عیال ہیں لیکن نہیں ہیں۔ جس کے عزیز واقارب ، دوست و احبا ب ہیں مگر نہیں ہیں۔ کوئی نہیں ہے میراوہ سوچنے لگا اس خا لی جگہ کو مختلف مما لک میں چلنے والے سکوّں کی تصو یر لگاکر بھردی جائے ۔خا لی جگہ بھر جائے گی اور ویٹنگ روم کی زیبائش میں اضا فہ ہو جا ئے گا ۔ پھر وہ سو چتا ہے میں تو ایک مسا فر ہوں مجھے مال و دولت سیم وزر سے کیا لینا دینا۔ اچا نک ویٹنگ روم کے دروازے پر اس کی نظر گئی ایک ہا کر تصویریں فروخت کر رہا ہے۔ وہ جلد ی سے با ہر نکلا مختلف تصا ویر کو ہر زاویہ سے بغور دیکھنے لگا۔ اس کی نظر ایک تصویر پر جم گیٔ سمندر خشک ہو گیا ہے۔ ریت پر سیم وزر بکھرا ہے، مو تیوں، ہیروں اور قیمتی پتھروں کے درمیان مری ہوئی مچھلیا ں بکھری پڑی ہیں۔ حواس با ختہ انسانو ں کا گر وہ، جن کے مد قو ق چہرے گال پچکے ہو ئے، پیٹ جن کے کمروں سے لگے ہوئے ان مری ہوئی مچھلیوں پر جھپٹ پڑے ہیں اور ان کو بٹورنے کے لئے ایک دوسرے سے بر سرِ پیکار ہیں یہ ٹھیک رہے گی اس تصویر کو خر ید لو ں اور اس خا لی جگہ کو بھر دوں ویٹنگ روم کی خوبصورتی میں چار چاند لگ جا ئیں گے۔پھر اسے خیال آیا کہ میرے متا عِ سفر میں میرا کچھ ہو یا نہ ہو لیکن بر سہا بر س سے ایک تصویر رکھی ہو ئی ہے جسے بڑی حفا ظت سے لپیٹ کر میں نے رکھ رکھی ہے شا ید آ ج کام آجائے اس کے استعمال کا یہی منا سب وقت ہے اسے نکالا جا ے ٔ اور اس خالی جگہ میں لگادیاجائے۔ اسے یاد آ یا وسیع و عریض میدانِ عر فات  میں فر یضۂ حج ادا کر تا ہوا انسانوں کا جمِ غفیر ہے ۔ ایک جسما نی اور روحانی منظر ہے…لبیک…الٰلھُّم لبیک کی دلسوز صداؤ ں سے میدان گو نج رہا ہے سینوں میں سوزو گدار کی کیفیت طاری ہے۔ آنکھو ں سے زارو قطا ر آنسوبہہ رہے ہیں اس کی آنکھیں آنسو ؤ ں میں ڈوب گئیں۔ چا روں طرف نگاہیں دوڑائیں سا مان ندارت۔ وہ پاگلو ں کی طرح ادھر ادھر دوڑنے لگا۔ ہذیا نی سی کیفیت اس کے اوپر طاری ہو گئی ہانپتا کا نپتا وہ صو فہ پر گر گیا۔ سو چنے لگا میرے سا ما ن سفر میں کارآمد چیزوں کی قلت تھی جو وطن پہنچ کر کا م آ تیں۔ اب تو ویٹنگ روم کی مصروفیت میں بچی کچی متا ع بھی ضا لٔع ہو گئی۔ نقا ہت اور ما یو سی کے سبب اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ اچانک ٹرین آگئی اس کے پا س اتنی سکت اور طا قت بھی نہیں تھی کہ وہ صحیح طور سے ٹرین میں سوار ہو سکے۔ اٹھنے کی کوشش میں وہ و ہیں گر گیا چا ر آد میوں نے شا ید وہ بھی مسا فر تھے جیسے تیسے اسے اٹھا یااورٹرین میں اسی حالت میں احتیا ط سے لٹا د یا ٹرین اسٹیشن چھوڑچکی تھی۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا