وقت وقت پرمرکزی قوانین لاگوکرنے والے خصوصی پوزیشن ختم ہونے کیلئے ذمہ دار:مظفربیگ

0
0

کشمیریوں نے اگرکچھ کھویاہے تووہ دفعہ35Aہے
کہاجموں وکشمیر کا ریاستی درجہ ختم کرنا سزادینے کے مترادف،دفعہ371کیلئے متحدہ جدوجہددرکار
کے این ایس

سرینگر؍؍سابق نائب وزیراعلیٰ مظفرحسین بیگ نے جموں وکشمیرمیں دفعہ371لاگوکرانے کیلئے پُرامن جدوجہدکرنے کی وکالت کرتے ہوئے واضح کیاہے کہ خصوصی پوزیشن کے کمزورہونے کیلئے صرف شیخ اورمفتی خاندان ذمہ دارنہیں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ دفعہ370کیساتھ لوگوں کاجذباتی لگائو تھالیکن ہم نے اگرکچھ کھویاہے تووہ دفعہ35Aہے کیونکہ اس آئینی دفعہ کے تحت ہماری زمین ، ملکیت ، اسٹیٹ سبجیکٹ ، شناخت اور ہمارے حقوق کو تحفظ حاصل تھا۔مظفرحسین بیگ کامانناہے کہ جموں وکشمیر کا ریاستی درجہ ختم کرناایک سزادینے کی طرح ہے۔کشمیر نیوزسروس (کے این ایس )کے مطابق پی ڈی پی سرپرست اورسابق نائب وزیراعلیٰ نے سری نگرسے شائع ہونے والے ایک انگریزی رسالے ’کشمیر میگزین‘ کو دئیے ایک انٹرویو کے دوران سوالات کاجواب دیتے ہوئے کہاکہ حکومت ہندکی جانب سے5اگست کو دفعہ370کی منسوخی سے متعلق اچانک اورمتنازعہ فیصلہ لینے سے قبل ہی عوامی اورٹی وی مباحثوں میں میرے سمیت بہت سارے لوگوں نے یہ خدشہ ظاہرکیاتھاکہ جموں وکشمیرکوخصوصی آئینی پوزیشن فراہم کرنے والے آئین ہندکی دفعہ کومنسوخ کیاجاسکتاہے۔لیکن یہ سارے خدشات دفعہ370کے بارے میں ظاہرکئے جارہے تھے ،اورمجھے اسبات کاکوئی اندیشہ نہیں تھاکہ جموں وکشمیرکاریاستی درجہ گھٹاکراسے مرکزی زیرانتظام علاقہ بنایاجائے گا۔میری دانست میں ریاست کادرجہ ختم کرناایک سزادینے کی طرح ہے۔انہوں نے بتایاکہ بی جے پی نے اپنے ایجنڈے میں دفعہ370اور35Aکی تنسیخ کاوعدہ کیاتھالیکن جموں وکشمیرسے ریاست کادرجہ چھین لینابھاجپاکے ایجنڈے میں نہیں تھا۔5،اگست سے پہلے غالباًکچھ ایساہوا،جس نے وزیراعطم اورمرکزی وزیرداخلہ کویہ سخت قدم اُٹھانے کی ترغیب دی ۔مظفرحسین بیگ کاکہناتھاکہ میری دانست میں ریاست کادرجہ ختم کرناتعزیری قسم کافیصلہ ہے۔انہوں نے کہاکہ مجھے اُمیدہے کہ یہ میری غلط فہمی ہے کیونکہ وزیراعظم نے اپنی تقریرکے دوران یہ عہدوپیمان کیاکہ جونہی حالات بہترہوجائیں گے ،جموں وکشمیرکوریاست کادرجہ بحال کیاجائے گا۔سابق نائب وزیراعلیٰ نے کہا’’مجھے یقین ہے کہ اس عہدوپیمان کوجلد یابدیرپوراکیاجائے گا۔اس کیساتھ صرف جموں وکشمیرکے عوام کے جذبات وابستہ نہیں ہیں بلکہ اس عہدوپیمان کیساتھ وزیراعظم اوروزیرداخلہ کی اعتباریت بھی جڑی ہے کیونکہ انہوں نے اس عہدیعنی’ حالات سازگارہوتے ہی جموں وکشمیرکو ریاست کادرجہ بحال کیاجائے گا،کی یقین دہانی عوام کے سامنے کی ہے‘‘۔مظفرحسین بیگ نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہدفعہ 370 کے ساتھ لوگوں کا جذباتی لگائو تھا لیکن ناقابل تردید حقیقت یہ بھی ہے کہ کل 96 مرکزی قوانین میںسے پہلے ہی جموں و کشمیر میں 92 لاگو کئے گئے تھے ۔ سال 1962 میں پنڈت جواہر لعل نہرو نے پارلیمنٹ میں اپنی تقریر کے دوران کہا کہ دفعہ 370 قائم رہے گا لیکن یہ 1962 کی بات تھی جبکہ 1964 میں مرکزی وزیر داخلہ گلزاری لعل نندا نے اپنی تقریر کے دوران کہا کہ دفعہ 370 سکے کا ایک رخ ہے ، ہم مرکزی قوانین کو جموں و کشمیر میں لاگو کرا سکتے ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جموںو کشمیر کی حکومت یا اسمبلی مرکزی قوانین کے اطلاق میں روڑے نہیں اٹکا سکتی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ1977 میں جب نیشنل کانفرنس نے الیکشن میں حصہ لیا تو جنتا پارٹی گورنمنٹ مرکز میں بر سر اقتدار تھی ۔ جنتا پارٹی کشمیر میں مولانا محمد سید مسعودی کی سربراہی میں مضبوط تھی ، نیشنل کانفرنس لیڈر شیخ محمدعبداللہ کی صحت ناسازگار تھی اور مہم کی کمان مرزا افضل بیگ نے سنبھالی جو مختصر مگر معنیٰ خیز تقاریر کیلئے مشہور تھے ۔ انہوں نے ایک نعرہ دیا ’’میری عزت اور آپ کی عزت دفعہ 370 ‘‘ ۔ عوام نے تب نیشنل کانفرنس کے حق میں اپنا ووٹ دیا کیونکہ لوگ یہ یقین کر رہے تھے کہ یہی جماعت دفعہ 370 کا تحفظ کرے گی اور لوگ یہ بھی مان کر چلے تھے کہ دفعہ 70 خود مختاری جیسے حقوق کی ضمانت فراہم کرتا ہے ۔ اس طرح کا تاثر غلط تھا کیونکہ 1975 میں آئین کے آرڈر نمبر 101 کے ذریعے دفعہ 370 کے کفن میں کیل ٹھونکی گئی تھی ۔مظفرحسین بیگ کاکہناتھاکہ 1952 میں ہوئے عبداللہ ، نہرو ایکارڈ کے ذریعے پہلے ہی جموں و کشمیر کو حاصل کئی اختیارات سرنڈر کئے گئے تھے اور بعد ازاں یہ سلسلہ مرکزی قوانین کو لاگو کرکے جاری رکھا گیا ۔ انہوں نے کہاکہ شیخ صاحب کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا اور بخشی غلام محمد کو جموں و کشمیر کا وزیر اعظم نامزد کیا گیا ۔ بخشی دور میں 1954 میں جموں و کشمیر کو حاصل اندرونی خود مختاری کا تین چوتھائی حصہ سرنڈر کیا گیا اور اس حوالے سے 1954 میں ایک آئینی آرڈر بھی جاری کیا گیا ۔ جو کچھ آئینی اختیارات یا پوزیشن بچی تھی ، اس میں بھی 1965 میں تب سیندھ لگائی گئی جب غلام محمد صادق وزیر اعلیٰ بنائے گئے ۔ تب تک ہمارے یہاں صدر ریاست ہوا کرتا تھا لیکن اس کے بعد صدر کی جگہ گورنر نے لے لی ۔ یہ آئینی اختیار ختم کرنے میں غلام محمد صادق کی سربراہی والی سرکار نے مرکز کو پوری مدد دی ۔ پس جو کوئی بھی یہاں اقتدار میں آیا ، اس نے مرکز کو ہی مدد دی ۔ میں جب جموں و کشمیر کا ایڈوکیٹ جنرل بنا تو ایک معاملہ میرے پاس بھی آیا جو مرکزی قوانین کو توسیع دینے سے متعلق تھا ، میں نے اپنا نقطہ نظر کچھ یوں دیا ’’ جو کچھ آج تک ہوا ، اب نہیں ہونا چاہئے ‘‘ ۔ غلام محمد شاہ تب وزیر اعلیٰ تھے ۔ انہوں نے میری بات یا میرے نقطہ نظر سے اتفاق کیا ۔انہوں نے کہاکہ سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس کیا تھا اور ہم نے کیا کھویا ، تومیں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہم نے دفعہ 35-A کو کھویا ہے کیونکہ اس آئینی دفعہ کے تحت ہماری زمین ، ہماری ملکیت ، ہماری اسٹیٹ سبجیکٹ ، ہماری شناخت اور ہمارے حقوق کو تحفظ حاصل تھا اور اس کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر میں پیدا ہونے والے ذرائع اور ملازمتوں پر بھی ہمارے یہاںکے لوگوں کا ہی حق تھا تو دفعہ 35-A کی منسوخی ہمارے لئے واقعی ایک بڑا نقصان ہے ۔ مظفرحسین بیگ کاایک سوال کے جواب میں کہناتھاکہ میری دانست اور میری نظر میں دفعہ 370 اور 35-A نیز جموںو کشمیر کی تقسیم اور ریاست کا درجہ ختم کیا جانا اہم معاملے ہیں اور یہ سبھی معاملات سپریم کورٹ کے سامنے زیر سماعت ہیں ۔ ان سبھی معاملات کے بارے میں عدالت عظمیٰ ممکنہ طور مستقبل قریب میں فیصلہ لے سکتی ہے ۔انہوں نے کہاکہ ہوسکتا ہے کچھ ماہ اس میں لگ جائیں ۔ اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ مرکزی حکومت کے حق میں جاتا ہے تو ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہمارے پاس پھر کیا راستہ ہے ۔ مظفربیگ کے بقول ہمارا راستہ یہ ہے کہ ہم مرکزی سرکار کو بائور کرائیں کہ جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ دینے کے ساتھ ساتھ اس کو ایک پہاڑی ریاست کا درجہ بھی دیا جائے ۔ ہم مرکزی سرکار سے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ پہاڑی ریاستوں کو آئین ہند کے دفعہ 371 کے تحت خصوصی درجہ دیا جاتا ہے اور میری نظر میں دفعہ 371 اور دفعہ 35-A میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے ۔سابق نائب وزیراعلیٰ نے کہاکہ ہم مرکز کو یہ بھی بتاسکتے ہیں کہ اگر ملک کی پہاڑی ریاستوں کو دفعہ 371 کے تحت تحفظ فراہم کیا گیا ہے تو جموں و کشمیر کو دفعہ 35-A کے تحت حاصل آئینی ضمانت کو کیوں ختم کیا گیا ۔ اگر ہم اس بارے میں ایک جامع اور متفقہ رائے قائم کر سکتے ہیں تو ہم مرکزی سرکار کو اپنی بات بھی منوا سکتے ہیں اور اپنا مقصد بھی یقینی طور پر حاصل کر سکتے ہیں ۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا