’شہریت ترمیمی قانون دو دھار والی تلوار ‘

0
0

سی اے اے کیخلاف ملکی عوام کا احتجاج جائز اور برحق: حسنین مسعودی
یواین آئی

سرینگر؍؍نیشنل کانفرنس کے سینئر لیڈر و رکن پارلیمان جسٹس (آر) حسنین مسعودی نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جاری ملک گیر احتجاج کو جائز اور برحق قرار دیتے ہوئے کہا کہ سی اے اے کو این آر سی کے ساتھ جوڑ کر دیکھیں گے تو یہ دو دھار والی تلوار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی عوام جاگ اٹھی ہے اور اپنے احتجاج کے ذریعے یہ بتانا چاہتی ہے کہ بس اب بہت ہوگیا۔حسنین مسعودی نے مرکزی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس حکومت کی پالیسی ہے کہ پہلے کسی چیز کو مسئلے کے طور پر پروجیکٹ کرو، اس کو مارکیٹ کرو اور پھر یہ کہو کہ صرف ہم میں ہی اس مسئلے کو حل کرنے کی طاقت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمان کے گزشتہ دو اجلاسوں کے دوران حکومت کی طرف سے جتنے بھی قوانین منظوری کے لئے لائے گئے ان میں سے بیشتر آئین ہند کے خلاف تھے۔ جسٹس (آر) مسعودی نے یہاں یو این آئی اردو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا: ‘سی اے اے کے خلاف ملک کی عوام کا احتجاج جائز اور برحق ہے۔ حکومت کے پاس اس قانون کو واپس لینے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ یہ قانون غریب مخالف ہے۔ اس میں ہندو مسلم کی بات نہیں ہے’۔ انہوں نے سی اے اے کو دو دھار والی تلوار قرار دیتے ہوئے کہا: ‘آپ سی اے اے کو این آر سی کے ساتھ جوڑ کر دیکھیں گے تو یہ دو دھار والی تلوار ہے۔ این آر سی کے ذریعے جو لوگ باہر نکلیں گے ان میں سے کچھ کو شہریت ترمیمی قانون کا فائدہ دیں گے۔ جنہیں اس قانون کا فائدہ نہیں ملے گا انہیں کیمپوں میں بھیج دیں گے۔ ہمیں سی اے اے اور این آر سی کو جوڑ کر دیکھنا چاہیے نہ کہ الگ الگ’۔ ان کا مزید کہنا تھا: ‘سی اے اے اور مجوزہ این آر سی سے ملک کے غریب لوگ متاثر ہوں گے۔ آسام میں جو لوگ رہائش پزیر ہیں وہ گجرات، بہار اور باقی جگہوں سے وہاں مزدوری کرنے گئے ہیں۔ وہ اپنی شہریت ظاہر کرنے کا ثبوت کہاں سے لائیں گے؟ دو تین کروڑ لوگ ایسے ہی ہیں جو کچھی بستوں میں رہتے ہیں’۔ حسنین مسعودی نے کہا کہ ملک کی عوام جاگ اٹھی ہے اور اپنے احتجاج کے ذریعے یہ بتانا چاہتی ہے کہ بس اب بہت ہوگیا۔ ان کا کہنا تھا: ‘آپ دیکھیں کہ سی اے اے پر احتجاج کس نوعیت کا ہے۔ پانچ ریاستیں یہ کہتی ہے کہ ہم اس کو نافذ ہی نہیں کریں گے۔ لوگ جاگ اٹھے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں بس اب بہت ہوگیا۔ یہ ملک ایک باغیچہ کی مانند ہے۔ یہاں ہر طرح کا پھول کھلنا چاہیے۔ سب کو روزگار ملنا چاہیے اور غریبوں کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کئے جانے چاہیے لیکن بدقسمتی سے موجودہ حکومت یہ کرنے کے بجائے لوگوں کو مختلف مسائل میں الجھا رہی ہے’۔ جسٹس (آر) مسعودی نے مجوزہ این آر سی پر بات کرتے ہوئے کہا: ‘حکومت کہتی ہے کہ ہم این آر سی کے ذریعے یہ دیکھیں گے کہ کون یہاں کا اصل شہری ہے اور کون نہیں ہے۔ جو لوگ این آر سی کے ذریعے باہر نکلیں گے ان کے دو حصے کئے جائیں گے۔ ایک حصے کو سی اے اے کا فائدہ دیں گے اور جس حصے کو سی اے اے کا فائدہ نہیں ملے گا ان کو کیمپوں میں رکھیں گے اور ان کو شہریت، جائیداد اور دیگر فوائد سے محروم کردیں گے۔ صرف پانچ مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو سی اے اے کا اہل قرار دیا گیا ہے’۔ حسنین مسعودی نے مرکزی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا: ‘یہ حکومت کا ایک سیاسی کھیل ہے۔ وہ لوگوں کو ایک اور جذباتی چیز فروخت کرنا چاہتے تھے۔ جب لوگ طلاق ثلاثہ قانون سے خوش نہیں ہوئے تو انہوں نے شہریت ترمیمی قانون بنایا’۔ انہوں نے کہا: ‘پارلیمان کے گزشتہ دو اجلاسوں کے دوران جتنے بھی قوانین منظوری کے لئے لائے گئے ان میں سے بیشتر آئین کے خلاف تھے۔ سی اے اے کے خلاف پارلیمان میں احتجاج ہوا۔ اس کی انٹری بلاک کرنے کی کوششیں ہوئیں۔ اراکین پارلیمان چلا رہے تھے کہ یہ آئین ہند کے خلاف ہے۔ لیکن انہوں نے پارلیمان میں اپنی اکثریت کا استعمال کرکے اس قانون کو منظور کیا۔ طلاق ثلاثہ قانون بھی آئین کے خلاف تھا۔ وہ اس کے ذریعے کیا حاصل کرنا چاہتے تھے؟’۔ان کا مزید کہنا تھا: ‘اس حکومت کی پالیسی ہے کہ پہلے چیز کو مسئلے کے طور پر پروجکٹ کرو، اس کو مارکیٹ کرو اور پھر یہ کہو کہ صرف ہم میں ہی اس مسئلے کو حل کرنے کی طاقت ہے۔ اس حکومت نے دفعہ 370 کے معاملے پر بھی یہی کہا’۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا