شہری آبادی میں اضافہ مگر پینے کا پانی کہاں ؟

0
0

8 برسوں سے پانی ذخیرہ کرنے کا کوئی ریزروائر تعمیر نہیں کیا گیا
کے این ایس
سرینگر؍؍شہری آبادی میں بتدریج اضافے کے بیچ گزشتہ7برسوں کے دوران پینے کے پانی کو ذخیرہ کرنے اور رسائی کیلئے کوئی بھی نئی ٹنکی یا رئزروائر تعمیر نہیں کیا گیا،جس کے نتیجے میں آئے دن شہری آبادی کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ کشمیر نیوز سروس ( کے این ایس ) کے مطابق شہر سرینگر کو ایک طرف جہاں سمارٹ سٹی کے زمرے میں شامل کرنے کیلئے سرکاری سطح پر بڑے پیمانے پر دعوئے کیں جا رہے ہیں ، وہی اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ 2012کے بعد سرینگر میں شہریوں کیلئے پانی کی رسائی پہنچانے کیلئے پانی کی ایک ٹنکی بھی تعمیر نہیں کی گئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شہر ی آبادی میں مسلسل اضافہ ،اور دیگر علاقوں سے شہر میں عارضی طور پر بود بوش کرنے کیلئے جہاں کثیر تعداد میںلوگ آباد ہوئے ہیں،وہی محکمہ آب رسانی کی طرف سے پانی کی قلت کو پوراکرنے کیلئے کوئی بھی بڑا پروجیکٹ ہاتھوں میں نہیں لیا گیا۔ماہرین کا کہنا 2011میں جہاں سرینگر کی آبادی12لاکھ36ہزار829نفوس پر مشتمل تھی۔وہی گزشتہ7برسوں کے دوران آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ دستاویزات سے معلوم پڑتا ہے کہ سرینگر کے مہجور نگر علاقے میں سال2012میں ایک لاکھ گیلن پانی ذخیرہ کرنے کیلئے ریزروائر تعمیر کیا گیا تھا،اور اس کے بعد متعلقہ محکمہ اور انتظامیہ نے طویل مدتی پروگرام کے تحت ابھی تک ایک بھی پانی کی ٹنکی تعمیر نہیں کی۔ معتبر سرکاری ذرائع کے مطابق2012میں بھی10برسوں کے بعد دانہ پورہ میں7ہزار گیلن پر مشتمل ایک ٹنکی کو تعمیر کیا گیا تھا،جبکہ2002میں سرینگر کے مسکین باغ میں50ہزار گیلن پانی ذخیرہ کرنے کیلئے ایک ٹنکی کو تعمیر کی گئی تھی،اور مابعد آئندہ10برسوں کیلئے کسی بھی حکومت نے کوئی بھی پانی کی ٹنکی تعمیر نہیں کی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت مجموعی طور پر سرینگر میں15 ٹنکیاں ایسی ہے،جن میں پینے کا پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ شہر میں معقول انداز میں پانی کو ذخیرہ کرنے کی عدم دستیابی کے نتیجے میں شہری آبادی کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پر رہا ہے۔شرینگر کے سیول لائنز علاقوں میں گزشتہ کئی دنوں سے مسلسل لوگوں کی شکایت ہیں کہ انہیں پانی کا صاف پانی دستیاب نہیں ہے،اور آئے دن پانی کی رسائی کو بلا ناغہ روکا جا رہا ہے۔لوگوں نے بتایا کہ ان ایام میں پانی کی قلت کی وجہ سے وہ ذہنی تذبذب میں مبتلا ہوچکے ہیں۔س حوالے سے چیف انجینئر پی ایچ ای سے مسلسل رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی،تاہم رابطہ قائم نہ ہوسکا۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا