کانگریس نے مذہب کی بنیاد پر ملک کو تقسیم کیا تھا:امیت شاہ

0
0

شہریت (ترمیمی) بل میں ہندوستان کے 130 کروڑ شہریوں کی توثیق ہے
یواین آئی

نئی دہلی؍؍وزیر داخلہ امیت شاہ نے اپوزیشن پارٹی پر مذہب کی بنیادپر ملک کی تقسیم کا الزام لگاتے ہوئے پیر کے دن لوک سبھا میں کہا کہ اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو حکومت کو شہریت (ترمیمی)بل آج ایوان میں نہیں لانا پڑتا۔مسٹر شاہ نے بل ایوان میں پیش کرنے سے پہلے اپوزیشن پارٹیوں کے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ’’جب آزادی ملی تب مذہب کی بنیاد پر کانگریس ملک کی تقسیم نہیں کرتی تو اس بل کی ضرورت نہیں پڑتی‘‘ان کے اتنا کہتے ہی کانگریس اور کئی دیگر پارٹیوں کے اراکین اپنی اپنی جگہ پر کھڑے ہوکر زور زور سے ہنگامہ کرنے لگے ۔ اس پر مسٹر شاہ نے اپنا الزام ایک مرتبہ دہراتے ہوئے کہا کہ’’ہاں مذہب کی بنیاد پر ملک کی تقسیم کانگریس پارٹی نے کی ہے ‘‘۔انہوں نے کہا کہ یہ بل منطقی درجہ بندی کی بنیاد پر لایا گیا ہے ۔ اس میں پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے ہندو، بودھ، سکھ، پارسی اور عیسائی برادری کے لوگوں کو ہندوستانی شہریت دینے کا خصوصی التزام اس لئے کیا گیا ہے کہ کیونکہ یہ تینوں ممالک میں آئین کے تحت اسلام کو قومی مذہب اعلان کیا گیا ہے اور وہاں دیگر برادری کے لوگوں کا استحصال کیا جاتا ہے ۔وزیر داخلہ نے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان 1950میں نہرو۔لیاقت معاہدہ ہوا تھا جس میں دونوں ممالک نے اپنے یہاں اقلیتوں کی حفاظت کی یقین دہانی کرائی تھی۔ ہمارے یہاں اس کا پالن کیا گیا لیکن پاکستان اور بعد میں پاکستان سے الگ ہوئے بنگلہ دیش میں ان پر ظلم کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں آج بھی مذہبی اقلیتوں پر ظلم جاری ہے ۔ اس لئے’’مذہب کی بنیاد پر استحصال اقلیتوں کو شہریت دینے کے لئے یہ بل لایا گیا ہے‘‘ ۔مسٹر شاہ نے ایوان کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ان ممالک کے مسلمان بھی قانون کی بنیاد پر شہریت کے لئے درخواست دے سکتے ہیں اور ان کے درخواست پر طریقہ کار کے اعتبار سے غور کیا جائے گا۔
مسٹرشاہ نے آئین کے ان آرٹیکلز کو پڑھ کر سنایا جن کی بنیاد پر اپوزیشن نے اعتراض ظاہرکیا ہے ۔انہوں نے کہاکہ بل میں برابری کے حق کی کہیں خلاف ورزی نہیں ہوئی ہے ۔آرٹیکل 14میں عقلی درجہ بندی کے التزام کے مطابق 1971میں اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے بنگلہ دیش سے آئے لوگوں کو شہریت کا حق دیا تھا،اگر اپوزیشن کی دلیل کو مانا جائے تو سوال اٹھتا ہے کہ انہوں نے پاکستان سے آئے لوگوں کو یہ حق کیوں نہیں دیاتھا۔یوگانڈا سے آئے لوگوں کو بھی عقلی درجہ بندی کی بنیاد پر شہریت دی گئی تو پھر انگلینڈ سے آئے لوگوں کیوں نہیں دی گئی۔اس وقت کے وزیراعظم راجیو گاندھی نے آسام معاہدہ بھی اسی اصول کی بنیاد پر کیاتھا۔برابری کے حق کے ساتھ ہی اقلیتی تعلیمی اداروں کو پہچان بھی اسی عقلی درجہ بندی کی بنیاد پر ملی ہے ۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں آج بھی مذہبی اقلیتوں پر ظلم اور ان قتل عام جاری ہے ۔وہاں چن چن کر اقلیتوں کو نشانہ بنایاجاتا ہے ۔اس لئے زمینی طورپر ہندوستانی سرحد سے متصل ان تینوں ملکوں کے ‘مذہب کی بنیاد پر استحصال کی مار جھیلنے والے اقلیتوں کو شہریت دینے کے لئے یہ بل لایاگیاہے ۔’’افغانستان کی جغرافیائی سرحد کے بارے میں اپوزیشن کے اراکین نے مسٹر شاہ کو آڑے ہاتھوں لینے کی کوشش کی تو انہوں نے پلٹ کر پوچھا کہ کیا اپوزیشن پاکستان کے قبضے والے کشمیر کو ہندوستان کا حصہ نہیں مانتا ہے ۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کے قبضے والے حصے میں ہندوستان کی 109کلومیٹر کی سرحد افغانستان سے لگی ہے ۔مسٹر شاہ نے ایوان کو یقین دلایا کہ ان ملکوں کے مسلمان بھی قانون کی بنیاد پر شہریت کے لئے درخواست کرسکتے ہیں اور ان کی اپیل پر بھی عمل کے مطابق غور کیاجائے گا۔اس پر کوئی روک نہیں لگے گی۔وزیر داخلہ نے کہاکہ وہ اپوزیشن کے اراکین کے بل کے مواد سے جڑے سبھی سوالوں کا جواب بل پر بحث کے دوران تٖفصیل سے دیں گے ۔تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک اپوزیشن اراکین کی مخالفت اور آئین کے بنیادے جذبے کی خلاف ورزی کے الزامات کے بعد مسٹر شاہ کو جواب دینے کا موقع ملا۔جواب کے بعد جب انہوں نے بل کو ایوان میں پیش کرنے کی اجازت مانگی تو اپوزیشن کے کئی اراکین نے ووٹوں کی تقسیم کامطالبہ کیا۔ووٹوں کی تقسیم میں 375اراکین نے حصہ لیا جن میں سے 82 نے مخالفت میں اور 293نے اس کے حق میں ووٹ کیا۔اپوزیشن کے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک مخالفت کرنے کے دوران کئی باربرسر اقتدار اور اپوزیشن کے درمیان الزام تراشی کی وجہ سے ماحول بہت خراب ہوگیا۔لیکن اسپیکر اوم برلا نے سبھی اپوزیشن اراکین کو بولنے کا موقع دیا۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا