جسمانی طور ناخیز افراد کا عالمی دن

0
0

معذورین نے ‘یوم سیاہ’ مناکر احتجاجی دھرنا دیا
سری نگر؍؍جسمانی طور ناخیز افراد نے جموں کشمیر ہینڈی کیپڈ ایسوسی ایشن کے بینر تلے جسمانی طور ناخیز افراد کے عالمی دن کو یوم سیاہ کے بطور مناتے ہوئے منگل کے روز یہاں پریس کالونی میں اپنے مطالبات کو لے کر احتجاجی دھرنا دیا۔احتجاجیوں نے اپنے سروں پر کالی پٹیاں باندھ رکھی تھیں اور ہاتھوں میں بینرس اور پلے کارڑس بھی اٹھا رکھے تھے۔بتادیں کہ دنیا بھر میں 3 دسمبر کو جسمانی طور ناخیز افراد کے عالمی دن کے بطور منایا جاتا ہے۔جموں کشمیر ہینڈی کیپڈ ایسوسی ایشن کے صدرعبدالرشید بٹ نے یو این آئی اردو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے 3 دسمبر کو یوم سیاہ کے بطور اس لئے منایا کیونکہ ہمارے مشکلات کی طرف کوئی توجہ مبذول نہیں کی جارہی ہے۔انہوں نے کہا: ‘ہم نے 3 دسمبر کو اس سال بھی یوم سیاہ کے بطور منایا کیونکہ کسی بھی سرکار نے آج تک ہمارے مشکلات کی طرف توجہ نہیں دی اور نہ ہی موجودہ لیفٹیننٹ گورنر ہمارے مسائل کی طرف توجہ مبذول کررہے ہیں’۔ موصوف صدر نے کہا کہ متواتر حکومتوں نے آج تک ہمارے مطالبات کو پورا کرنے کے صرف وعدے کئے لیکن زمینی سطح پر کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔انہوں نے کہا: ‘متواتر حکومتوں نے ہمارے قریب دو درجن جائز مطالبوں، جن میں ہمارے ماہانہ مشاہرے میں اضافہ، ناخیز افراد کو نوکریاں فراہم کرنے کے لئے خصوصی بھرتی عمل، سرکاری ملازمتوں میں مخصوص ریزرویشن، اسمبلی، مونسیپلٹیوں اور پنچایتوں میں 4 فیصد ریزرویشن، تعلیمی اداروں میں ناخیز افراد کے بچوں کے لئے مخصوص ریزرویشن، ناخیز افراد کے لئے ہر ضلع صدر مقام پر بازآباد کاری سینٹروں کا قیام وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں، کو پورا کرنے کا وعدہ کیا لیکن زمینی سطح پر کوئی عملی کارروائی نہیں کی گئی’۔عبدالرشید بٹ نے کہا کہ سال گزشتہ گورنر انتظامیہ نے ڈس ابلٹی ایکٹ 2018 کو منظور تو کیا لیکن اس کو اب تک نافذ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے مطالبوں کو فوری طور پر حل نہیں کیا گیا تو ہم دوبارہ سڑکوں پر آنے پر مجبور ہوں گے۔موصوف صدر نے کہا کہ ہم نے کئی بار سابق گورنر اور موجودہ لیفٹیننٹ گورنر سے ملاقی ہونے کی کوشش کی لیکن اب تک ہمیں ان سے ملاقات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔قابل ذکر ہے کہ جموں کشمیر میں ناخیز افراد کی تعداد 4 لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔ ذرائع کے مطابق کشمیر میں گزشتہ دو دہائیوں سے ناخیز افراد کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا