یہ عمل کشمیر کے ساتھ دغا بازی کے مترادف: سی پی آئی (ایم)
یواین آئی
سرینگر؍؍سی پی آئی (ایم) نے مرکزی حکومت کی طرف سے پانچ اگست کے جموں کشمیر کو دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کی تنسیخ اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنے کے فیصلوں کو آئین ہند سے کھلواڑ اور کشمیر کے ساتھ دغا بازی سے تعبیر کرتے ہوئے جموں کشمیر میں جمہوریت، ریاستی درجے اور خود مختاری کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔پارٹی کا ماننا ہے کہ مودی سرکار کی طرف سے لئے گئے متذکرہ فیصلے آئین، جمہوریت، وفاقیت اور سیکولرزم کے بنیادی اصولوں پر حملہ ہے اور یہ غیرقانونی اور من مانے والے قوانین ہیں، یہ کثرت میں وحدت کے اصول پر حملے کے مترادف ہیں، یہ دفعہ 370 کے تحت حاصل خصوصی اختیارات پر ہی حملہ نہیں بلکہ جمہوریت کو ہی کالعدم کرنے کے برابر ہے۔سی پی آئی (ایم ) نے ان باتوں کا اظہار ایک کتابچے بعنوان ‘آئین سے کھلواڑ، کشمیر سے دغابازی’ میں کیا ہے جس کو دلی سے چھاپ کر شائع کیا گیا ہے۔ کتابچے کی ایک کاپی یو این ا?ئی اردو کے سری نگر دفتر کو بھی بھیجی گئی ہے۔ کتابچے میں مرقوم ہے: ‘اب تک کسی ریاست کی سرحدیں یا حقوق مشخص کرنے سے پہلے اس پر طویل بحث ہوا کرتی تھی جیسے کہ آندھرا پردیش، بہار، اترپردیش اور مدھیہ پردیش میں یہ بحث برسوں تک چلی اور متعلقہ قانون ساز اداروں کی آرا کو ملحوظ خاطر رکھنے کے بعد ہی یہ ریاستیں تقسیم کی گئیں، ایسا کرنا آئین ہند کی دفعہ 3 کے تحت لازمی ہے۔ مگر بی جے پی سرکار نے جموں کشمیر میں اس اصول کو بالکل ہی بالائے طاق رکھ دیا’۔مرکزی حکومت کی طرف سے دفعہ 370 کو جموں کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق میں سد راہ ہونے کی دلیل کو رد کرکے کتابچے میں کہا گیا ہے کہ کشمیری عوام در حقیقت اپنی مرضی سے ہند یونین کے ساتھ اْن شرائط پر شامل ہوئے جن کی وضاحت دفعہ 370 کے تحت کی گئی۔سی پی آئی (ایم) نے کتابچے میں کہا ہے کہ یہی آئینی ضمانت تھی جس کی وجہ سے انہیں اپنا مستقبل ہندوستان میں محفوظ دکھائی دیا مگر دفعہ 370 پر ابتدا سے ہی مرکزی حکومتوں کی طرف سے برابر حملہ ہوتا رہا۔دفعہ 370 کو ملی ٹنسی کے پنپنے اور کشمیری پنڈتوں کے مصائب کا ذمہ دار قرار دیے جانے کے متعلق کتابچے میں کہا گیا ہے کہ دفعہ 370 کی تنسیخ نے وادی میں علاحدگی پسندی اور شدت پسندی کو جنم دیا ہے۔کتابچے میں مرقوم ہے: ‘دراصل دفعہ 370 کے تحت حاصل خود مختاری پر سیند لگانے اور جابرانہ انداز میں جمہوریت کو دبانے کی وجہ سے عوام میں بے چینی اور بیگانگی کا احساس جاگا جس نے علاحدگی پسندی اور شدت پسندی کو جنم دیا جس کی پشت پناہی پاکستان اور پاکستانی اشاروں پر چلنے والی انتہا پسند قوتیں کررہی ہیں’۔سی پی آئی (ایم) نے کہا ہے کہ اس وقت کی مرکزی حکومت اور گورنر جگ موہن کشمیری پنڈتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوئے کشمیری پنڈتوں کی وادی واپسی ضمانت تب ہی دی جاسکتی ہے جب باہمی بھائی چارے کی طرفدار سیکولر قوتوں کو مستحکم کیا جائے گا۔مرکزی حکومت کی طرف سے دفعہ 370 کو کشمیر کی ترقی میں روکاوٹ قرار دینے کی دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کتابچے میں لکھا گیا ہے کہ پارلیمنٹ میں وزیر داخلہ کے دعوؤں کے برعکس جموں کشمیر کی سماجی و اقتصادی صورتحال ملک کی اوسط سے بہتر ہے اور اس کا مقابلہ ملک کی ان ریاستوں سے کیا جاسکتا ہے جنہیں ترقی یافتہ گردانا جاتا ہے۔کتابچے میں جموں کشمیر کے ایک سابق وزیر خزانہ کے ایک حالیہ مضمون میں جموں کشمیر کے سماجی واقتصادی شمارے کو اس طرح پیش کیا گیا ہے: ‘جموں کشمیر میں صرف 10 فیصد گھرانے خط افلاس سے نیچے گزر بسر کررہے ہیں جبکہ پورے ملک میں ان کی اوسط شرح 22 فیصد ہے، ملک بھر میں جموں کشمیر ریاست سب سے کم مقروض ریاستوں میں دوسرے نمبر پر ہے، جموں کشمیر میں صرف 2 فیصد لوگ کھیت مزدور ہیں جبکہ پورے ملک میں ان کی اوسط 23 فیصد ہے، جموں کشمیر میں طول حیات 73 سال ہے جبکہ قومی سطح پر یہ محض 68 سال ہے، جموں کشمیر میں بچہ اموات کی شرح 32 فی ہزار ہے جبکہ قومی سطح پر یہ شرح اوسطاً 40 فی ہزار ہے’۔سی پی آئی(ایم) نے کتابچے میں کہا ہے کہ مرکزی حکومت کی یہ دلیل کہ جموں کشمیر میں دفعہ 370 کے ہوتے ہوئے کوئی صنعتی ترقی ممکن نہیں ہوسکتی، بالکل بے جا ہے۔کتابچے میں کہا گیا ہے کہ جموں کشمیر حکومت کسی بھی خواہش مند صنعت کار کو کارخانہ لگانے کے لئے 90 سال کے لئے سستے کرایہ (لیز) پر زمین الاٹ کرنے کی پیشکش کرتی ہے۔