جموں کشمیر اور لداخ میں جامع مرکزی مالی امداد کی فراہمی زیر غور

0
0

مالیاتی کمیشن کا دورہ عنقریب ، 30 نومبر تک رپورٹ پیش کرنے کی توقع

سرینگر؍:کے این ایس / مرکز کی طرف سے وفاقی زیر انتظام والے علاقوں جموں کشمیر اور لدخ میں جامع مالیاتی امداد زیر غور ہے،جبکہ وزیر اعظم ہند بھی ممکنہ طور پر دونوں مرکزی زیر انتظام والی اکائیوں میںمالیاتی کمیشن کی امداد کے شرائط میں نرمی کریں گے۔اس دوران کمیشن جموں کشمیر اور لداخ کا عنقریب ہی دورہ کرکے30نومبر کو رپورٹ پیش کریں گے۔کشمیر نیوز سروس کے مطابق مرکز کی طرف سے حال میں قیام عمل میں لائی گئی دو نئی مرکزی زیر انتظام والی اکائیوں میں ترقیاتی عمل میں سرعت لانے کیلئے وفاقی حکومت15ویں مالیاتی کمیشن کے دونوں مرکزی زیر انتظام والے علاقوں میں دورے کی سہولیات کار بنے گی۔جبکہ یکم اپریل2020 سے آئندہ5برسوں کیلئے اچھا خاصا امداد کی فراہمی بھی زیر غور ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مالیاتی کمیشن کے دونوں مرکزی زیر انتظام والے علاقوں میں دورہ غیر معمولی ہے،کیونکہ عام طور پر وفاقی زیر انتظام والے علاقے مالیاتی کمیشن کے دائرہ حدود میں نہیں آتے ہیں۔تاہم ذرائع کا ماننا ہے کہ خصوصی خیر سگالی کے تحت مرکزی حکومت نے یہ فیصلہ لیا ہے کہ مالیاتی کمیشن کے جموں کشمیر اور لداخ دوروں میں چند شرائط میں نرمی لائے جائے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے’’ این کے سنگھ کی سربراہی والے مالیاتی کمیشن کی مدت30نومبر کو اختتام ہوگی،اس لئے ممکنہ طور پر کمیشن کی ٹیم آخری ہفتے میں دونوں مرکزی زیر انتظام والے علاقوں کا دورہ کریں گی،جس کے دوران وہ انتظامی افسران،سرکاری نمائندوں اور تمام فریقین سے جموں کشمیر اور لدخ کیلئے خصوصی امداد کی فراہمی پر تبادلہ خیال کریں گی‘‘۔ان ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ماداد کا اطلاق یکم اپریل2020سے آئندہ5برسوں کیلئے ہوگا۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ جموں کشمیر اور لداخ میں مالیاتی کمیشن کے دورے کیلئے صدارتی حکم نامہ ضروری ہے،کیونکہ کمیشن کا دائرہ اختیار مرکزی زیر انتظام والے علاقوں پر نہیں ہوتا،بلکہ یہ اکائیوں براہ راست مرکز کے زیر کنٹرول ہوتی ہیں۔14ویں مالیاتی کمیشن کا ایوارڈ31مارچ2020کو مکمل ہوگا،جبکہ15ویں مالیاتی کمیشن کا ایوارڈ آئندہ5برسوں سے یکم اپریل سے2020سے31مارچ2025تک لاگو ہوگا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ جموں کشمیر حال تک ریاست ہی تھی،جبکہ مرکزی حکومت کا نقطہ نظر یہ ہے کہ،اس وقت مالیاتی کمیشن کا دائرہ اختیار کی توسیع مرکزی زیر انتظام والے علاقوں جموں کشمیر اور لداخ تک بڑانی ضروری ہے،تاکہ ترقیاتی عمل میں پیش رفت کیلئے کمیشن جموں کشمیر اور لداخ کو اچھا خاصا امداد فراہم کریں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مرکزی زیر انتظام والے علاقے  میں دھانچوں کی تعمیر کیلئے جامع رقومات دستیاب ہے،کیونکہ مرکزی زیر انتظام والے علاقے میں تبدیل کرنے کیلئے بعد کرگل اور لیہہ میں کافی سرکاری دفاتروں کا قیام عمل میں لایا جانا ہے،کیونکہ فی الوقت یہ دفاتر عارضی اور متبادل جگہوں پر کام کر رہے ہیں،جبکہ لیہہ میں لیفٹنٹ گونر ،انکے مشیروں اور چیف سیکریٹری کیلئے مکمل دفاتر بھی ابھی تک قائم نہیں کئے گئے ہیں۔ ذرائع کا ہنا ہے’’15ویں مالیاتی کمیشن کے جموں کشمیر اور لداخ کے دوروں پر تبادلہ خیال مرکزی حکومت میں اعلیٰ سطح پر ہو رہا ہے،جبکہ اکثریت کا یہ نقطہ نظر یہ ہے کہ رہنما خطوط میں ترمیم کی جانی چاہے،جبکہ صدر ہند کی جانب سے  مالیاتی کمیشن کی طرف سے دونوں مرکزی زیر انتظام والے علاقوں میں ضروریات کا احاطہ کرنے اور امداد کی سفارش کیلئے نوٹیفکیشن جاری کرنے کیلئے صدر ہند ریفرنس جاری کریں‘‘۔غیر منقسم جموں کشمیر میں مالی سال2019-20 میں88ہزار819کروڑ روپے تھا،جبکہ مالیاتی کمیشن کو جموں کشمیر اور لداخ میں تعمیراتی ڈھانچے میں پیش رفت اور موجودہ ترقیاتی پروجیکٹوں کی عمل آواری کے اچھے امداد کیلئے سفارش کرنی ہے،کیونکہ وفاقی زیر انتظام والے علاقوں میں ٹیکس سے حصول آمدنی بہت کم ہیں۔ ذرائع کا کہان ہے کہ مالیاتی کمیشن کی طرف سے جموں کشمیر اور لدخ میں امدد زمینی سطح پر جائز ہے،جبکہ جموں کشمیر پہلی مرتبہ دو مرکزی زیر انتظام والے علاقوں میں تبدیل ہوگیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ خصوصی مالی امداد کی فراہمی کا دائرہ اختیار اگر چہ مالیاتی کمیشن کی طرف سے پروجیکٹوں کی صورتحال کا احاطہ، کی بناید پر کیا جاتا ہے،تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ جموں کشمیر اور لداخ میں ممکنہ طور پور اچھا خاصا امدادفراہم کیا جائے گا۔جموں کشمیر میں12سو کروڑ روپے کے بجلی پروجیکٹ التواء میںمرکزی بجلی اتھارٹی کا ترسیلی ڈھانچے کو مستحکم بنانے کے کام میں تیزی لانے کی تاکیدسرینگر؍ 23 ،اکتوبر :کے این ایس / جموں کشمیر میںقریب1200کروڑ روپے کے بجلی پروجیکٹ لٹک کر رہ گئے ہیں،جبکہ مرکزی بجلی اٹھارٹی نے عمل آوار ایجنسیوں کو جموں کشمیر میں ترسیلی ڈھانچے کو مستحکم کرنے کیلئے کام میں سرعت لانے کی تاکید کی ہے۔کشمیر نیوز سروس (کے این ایس) کے مطابق  وادی میں حالیہ برف باری کے نتیجے میں شمال و جنوب میں بجلی کی ترسیل کی پول کھل گئی،جبکہ معمولی برباری سے بجلی ڈھانچہ تہس نہس  ہوگیا۔اس دوران معلوم ہوا ہے کہ جموں کشمیر میں سینٹرل الیکٹرسٹی اتھارٹی نے1189کروڑ روپے کے بجلی پروجیکٹوں کے منصوبے میں عمل آوار ایجنسیوں کو کام میں شد و مد سے سرعت لانے کی ہدایت کی ہے،کیونکہ بیشتر بجلی پروجیکٹ مقرہ شیڈول سے کافی پیچھے چل رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق سینٹرل الیکٹرسٹی اتھارٹی کی میٹنگ چیف انجینئر(بجلی نظام  پروجیکٹ نگرانی) کی صدرت میں9اگست کو منعقد ہوئی،جس کے دوران جموں کشمیر میں وزیر اعظم ترقیاتی پروجیکٹ پیکیج2015 کے تحت جموں کشمیر میں بین الریاستی ترسیلی پروجیکٹوں سے منسلک کام کا جائازہ لیا گیا،جبکہ مرکزی حکام نے ان پروھیکٹوں کی عمل آواری اور رفتار پر تشویش کا اظہار کیا۔ میٹنگ کے دوران’’چیف انجینئر نے جموں کشمیر پائو ڈیولپمنٹ ڈپمارٹمنٹ اور دیہی الیکٹرفکیشن پائور ٹرانسمیشن کاروپریشن(آر ای سی پی ٹی سی ایل) پر زور دیا کہ وہ باقی ماندہ بچے کام کیلئے ٹھیکوں کو تفویض کرنے میں سرعت لائے،جبکہ محکمہ بجلی بھی عمل آوار ایجنسیوں کو اراضی کی تفویض کے کام میں تیزی لائے،جبکہ اراضی کی حصولیابی کا معاملہ متعلقہ حکام کے ساتھ اٹھائے،تاکہ ان پروجیکٹوں کو مکمل کرنے میں مزید تاخیر سے بچا جا  سکیں‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ ان پروجیکٹوں کے التوا میں رہنے اور تاخیر سے وقت کا زیاں جہاں ہو رہا ہے،وہی پروجیکٹوں کی لاگت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ میٹنگ  میں ابھارے گئے نقاط کے مطابق انہوں نے مزید جموں کشمیر پائو ڈیولپمنٹ ڈیمپارٹمنٹ کے علاوہیہی الیکٹرفکیشن پائور ٹرانسمیشن کاروپریشن(آر ای سی پی ٹی سی ایل) اور پائو گریڈ کاروپریشن آف انڈیا لمیٹیڈ سے درخواست کی کہ وہ تعمیراتی سرگرمیوں میں  سرعت لائیں،کیونکہ بیشتر پروجیکٹ مقرہ وقت کے شیڈول سے پیچھے چل رہے ہیں۔جموں کشمیر میں بجلی کے ترسیلی نیٹ ورک کو مستحکم کرنے کیلئے  جنوری2017میں1189کروڑ روپے کا منصوبہ مرتب کیا گیا تھا،جبکہ اس منصوبے کو اہم اوقات میں منصوبہ کے آخر یعنی2017-22تک بجلی کی ضرورت3095میگاواٹ کو  پورا کرنے کیلئے مرتب کیا گیا تھا۔اس منصوبے کی مدت میں مجوزہ بجلی پروجیکٹوں سے بجلی کی پیداوار سے یہ کھپت پورا کرنے پر  اتفاق کیا گیا تھا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ جموں کشمیر  موجودہترسیلی لائنوں کے نیٹ ورک کو مستحکم کرنے کے منصوبے کا مقصد،اس میں220کلو واٹ اور132سطح کی بجلی منتقلی  کے حجم کو مظبوط بنانا ہے،جبکہ اضافی ہائی وولٹیج ترسیلی لائنوں اور سب اسٹیشنوں کی تعمیر ہے۔ ان پروجیکٹوں کو منظور شدہ تاریخوں کے بعد30ماہ کے اندر مکمل کرنا تھا،جبکہ  ان پروجیکٹوں کی عمل آوارہ پی جی سی آئی ایل،یہی الیکٹرفکیشن پائور ٹرانسمیشن کاروپریشن(آر ای سی پی ٹی سی ایل) اور جموں کشمیر پائور ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ کے ذریعے کرنی ہے،جبکہ مرکزی حکومت نے ان پروجیکٹوں کی2014سیلاب متاثرین کی بازآبادکاری کیلئے80ہزارروپے کی واگزاری کے تحت منظوری دی ہے۔یہ منصوبہ وزیر اعظم ہند نریندر مودی نے7نومبر2015 میں سرینگر کے کرکٹ اسٹڈئم میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کی موجودگی میں منظر عام پر لایا تھا۔اس دوران ریاستی سرکار کو کئی حلقوں سے پروجیکٹوں کی عمل آوار کی رفتار پر تنقید کا نشانہ بنانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔کشمیری کاشتکاروں کی وزیر اعظم اور وزیر زراعت سے ملاقات متوقعحالیہ برفباری کو قدرتی آفات قرار دینے اور معقول معاوضہ کا مطالبہ کیا جائے گاسرینگر؍ 23 ،اکتوبر :کے این ایس / جموں کشمیر میں دیگر ریاستوں کے برعکس زراعت اور باغبانی میں مختلف قوانین کی عمل آواری کو زمینداروں اور باغ مالکان سے نا انصافی قرار دیتے ہوئے معروف کسان لیڈر اور راشٹریہ کسان مزدور مہاسنگ کے سربراہ شیو کمار کاکہ جی نے اس بات پر حیرانگی کا اظہار کیا کہ یہاں کاشتکاروں کو قرضے کیلئے2سرکاری ملازمین کو ضامن رکھنا پڑتا ہے ۔ کشمیر نیوز سروس ( کے این ایس ) کے مطابق سرینگر کے پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شیوکمار کاکہ جی نے کہا کہ وادی میں قابل از وقت برفباری کے نتیجے میں باغبانوں کو کافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔انہوں نے کہا کہ راشٹریہ کسان مزدور مہاسنگ کے وفد نے از خود متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور متاثرہ کسانوں و باغ مالکان سے بھی بات کی،جس کئے دوران بھانک تصویر سامنی آئی۔انہوں نے کہا کہ بیشتر پھلوں کے پیڑ حالیہ برفباری کے نتیجے میں ختم ہو چکے ہیں،تاہم سرکاری ایجنسیوں کی طرف سے متضاد رپورٹیں نقصانات کے سلسلے میں سامنے آرہی ہے۔شیو کمار کاکہ جی نے مطالبہ کیا کہ فی پیڑ کے حساب سے باغبانوں کو نقصانات  کا معاوضہ دیا جانا چاہے۔انہوں نے کسانوں کو قرضوں سے مبرا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری کسانوں کے ایک وفد نے ہمراہ راشٹریہ کسان مزدور مہاسنگ مرکزی وزیر زراعت سے ملاقی ہوگا،جس کے دوران یہ تمام مسائل اٹھائے جائیں گے،جبکہ وزیر اعظم ہند سے بھی ملنے کی کوشش کی جائے گی۔کاکہ جی نے بتایا کہ وہ اس بات پر حیران ہوتے رہے ہیں کہ کشمیر کے کسان کھبی آواز کیوں بلند نہیں کرتے،اور اکثر انکی سوچ ہوتی تھی کہ شاید انہیں کسی مسئلے کا سامنا نہیں ہے،تاہم یہاں آکر انہوں نے دیکھا کہ بھارت بھر میں کشمیر کے کسان اور امیندار ہی سب سے زیادہ متاثر ہے۔ مرکز کی طرف سے باغبانوں سے سیب خریدنے کو چشم پوشی قرار دیتے ہوئے کاکہ جی نے کہا کہ جموں کشمیر میں قریب13سے14کروڑ پیٹاں سیب برآمد ہوتے ہیں،تاہم نافیڈ نے صرف309ٹرک سیب کو کشمیر سے حاصل کیا،جبکہ اس بات کا پرپگنڈہ کیا کہ وہ گھر گھر جاکر سیب خریدتے ہیں ۔ پریس کلب میں موجود کے این ایس نمائندے کے مطابق راشٹریہ کسان مزدور مہاسنگ کے سربراہ نے بتایا کہ متعلقہ محکمہ اصل میں اعلیٰ معیار کے سیبوں کے تعاقب میں ہیں،تاہم انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا کہ جس باغبان کے90 فیصد سیبوں کو مسترد کیا جاتا ہے،وہ ان سیبوں کو لیکر کہا جائے گا۔کاکہ جی نے محکمہ ہارٹی کلچر اور زراعت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کمپنیوں کے ملی بھگت کر نقلی ادویات کو بھی منظوری دی جاتی ہے۔پریس کانفرنس میں راشٹریہ کسان مزدور مہاسنگ کے ریاستی صدر تنویر احمد ڈار بھی موجود تھے،جنہوں نے حالیہ برفباری کو قدرتی آفات قرار دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کسانوں کو فوری طور پر امداد فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔تنویر احمد ڈار نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری ملازمین زمینی سطح پر نقصانات کا احاطہ نہیں کر رہے ہیں۔پریس کانفرنس میں امرجیت سنگھ،ابھمنیو کھور اور دیگر لوگ بھی موجود تھے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا