عورتوں کومسجد میں جانے کی اجازت کیوں نہیں!

0
0

پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو مسجد جانے سے روکنے کا کبھی حکم نہیں دیا:مصنف ضیاء السلام
یواین آئی

نئی دہلی؍؍ایسے وقت میں جب کہ سپریم کورٹ نے ملک کی تمام مساجد میں مسلم خواتین کو جانے کی اجازت کے متعلق دائر کردہ مفاد عامہ کی عرضی پر مرکزی حکومت سے جواب طلب کیا ہے ،مصنف اور صحافی ضیاء السلام کا کہنا ہے کہ اسلام عورتوں سے امتیاز ی سلوک کی اجازت نہیں دیتا اور قرآن نے 59مقامات پر مرد اور خواتین دونوں کو خطاب کر کے کہا ہے کہ وہ نماز قائم کریں۔چیف جسٹس رنجن گوگوئی اور جسٹس ایس اے بوبڈے اور ایس عبدالنظیر پر مشتمل بنچ نے گذشتہ جمعہ کو وزارت قانون اور اقلیتی امور کی وزارت کو نوٹس جاری کرکے تمام مساجد میں عورتوں کے داخلے کے متعلق دائر کردہ عرضی پر اپنا موقف واضح کرنے کے لئے کہا ہے ۔عرضی میں سپریم کورٹ سے یہ درخواست کی گئی ہے کہ وہ سرکاری حکام، متعلقہ سرکاری محکموں،وقف بورڈ جیسے مسلم اداروں وغیرہ کویہ ہدایت جاری کرے کہ خواتین کو مساجد میں جانے کی اجازت د ی جائے کیوں کہ انہیں ایسا کرنے سے روکنا متعدد بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے ۔ عرضی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جن مساجد میں خواتین کو جانے کی اجازت ہے ان میں بھی عورتوں کے داخل ہونے کے دروازے الگ ہیں۔عرضی میں کہا گیا ہے کہ عورتوں کے ساتھ کسی طرح کا امتیاز ی سلوک نہیں کیا جانا چاہئے اور تمام مسلم خواتین کو کسی تفریق کے بغیر تمام مساجد میں عبادت کی اجازت ہونی چاہئے ۔ادیب اور سماجی مبصرضیاء السلام نے اپنی نئی کتاب’’وومن ان مسجد:اے کوئسٹ فار جسٹس میں کہا ہے کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو مسجد جانے سے روکنے کا کبھی حکم نہیں دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن تنہائی میں بھی عبادت کرنے کی اجازت دیتا ہے لیکن بہتر عبادت وہی ہے جو اجتماعی طور پر ادا کی جائے ۔ضیاء السلام نے قرآن و حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ عورتوں کو بس لازمی طور پر مساجد جانے سے مستشنی رکھا گیا ہے ، انہیں مسد جانے سے منع نہیں کیا گیا ہے ۔ البتہ پیغمبر اسلام نے خود بھی عورتوں کو نماز جمعہ اور عیدین کی نماز اجتماعی طور پر ادا کرنے کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔کتاب میں کہا گیا ہے کہ عہد وسطی میں مسلم خواتین کی صورت حال کہیں زیادہ بہتر تھی۔ سیاسی لحا ظ سے ہر معاملہ میں بادشاہ ان سے صلاح و مشورہ کرتے تھے ۔ اس سلسلے میں مغل بادشاہ جہانگیر کی ملکہ نور جہاں کے واقعات تاریخ میں نمایاں طور پر موجود ہیں۔اگر سلطنت اور مغل دور کی تعمیرات کا باریکی سے مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ خواتین مساجد میں نماز ادا کرنے کے لئے جاتی تھیں۔ضیاالسلام کا کہنا ہے صرف مساجد ہی نہیں بلکہ عورتیں خانقاہوں اور درگاہوں پر بھی جاتی تھیں اور کہا جاتا ہے کہ انہوں نے صوفیانہ کلام میں بہت اعلی مقام حاصل کیا لیکن مغل حکومت کے زوال اور برطانوی حکومت کی آمد کے ساتھ ہی تبدیلیاں آنی شروع ہوگئیں۔قدامت پسندی بڑھنے کے ساتھ ساتھ خواتین کو مساجد اور قبرستانوں سے دور رکھنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔مصنف کا کہنا ہے کہ عورتوں کو حج پر جانے کے حق سے نہ پہلے کبھی محروم کیا گیا تھا اور نہ آج وہ اس سے محروم ہیں۔ جب وہ حج پر جاتی ہیں تو اپنے محرم کے ساتھ مکہ اور مدینہ دونوں جگہ پر قبروں کی زیارت کے لئے بھی جاتی ہیں لیکن وطن واپس لوٹتے ہی انہیں ایک مختلف قسم کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔اسے مقامی کلچر کا اثر کہیں یا اسلام کی ہندستانی شکل کہ خواتین مساجد کی تعمیر میں حصہ تو لے سکتی ہیں لیکن وہ ان میں پنچ وقتہ نماز ادا نہیں کرسکتی ہیں۔آج خواتین ان مسجدوں میں بھی نماز ادا نہیں کرسکتی ہیں جنہیں سینکڑوں برس قبل کسی خاتون نے تعمیر کرائی تھی۔ اس کی سب سے واضح مثال پرانی دہلی میں واقع مشہور فتح پوری مسجد ہے ۔ جہاں خواتین نماز ادا نہیں کرتیں۔ بھوپال کی تاج المساجد بھی اسی تفریق کی ایک او رمثال ہے ۔عورتوں کو مسجد کمیٹیوں میں شامل نہیں کیا جاتا۔ کسی مسجد کمیٹی میں شاذ و نادر ہی کوئی خاتون رکن ہو۔مرد ہی مرد اور خواتین دونوں کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں۔کتاب کے مصنف نے مشور ہ دیا ہے کہ خواتین کے لئے مساجد میں عبادت کی جگہ ہونی چاہئے اور اس سلسلے میں پیغمبر اسلام کی ہدایت کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا تھا کہ خواتین مردوں کے بعد آخری صف میں کھڑی ہوں جہاں سے وہ امام کو دیکھ سکیں۔ انہیں ایسے کسی کونے میں جگہ نہ دی جائے جہاں سے نہ تو وہ امام کو دیکھ سکیں اور نہ ہی قرات واضح طور پر سن سکیں۔کتا ب میں یہ مشورہ بھی دیا گیا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ خواتین کو ان کا یہ جائز حق دیا جائے

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا