میری نانی اماں..وزیرہ بیگم …جہدِ مسلسل کی ایک تاریخی مثال

0
0

۰۰۰۰
یاسرعمران بٹھینڈی جموں
9858000099
۰۰۰۰
آج ٹھیک ایک سال ہونے کو ہے کہ میں اورمیرے بہن بھائی اپنی نہایت شفیق اصیل ہمدرد اورانتہائی محبّت کرنے والی نانی اماں وزیرہ بیگم صاحبہ کے بغیر جینے کی کوشش کر رہے ہیں..
اگرچہ گھرمیں ہم سب،اَمی ابو،بھائی بہن،بچّے تمام اہل خانہ آج بھی ہروقت نانی اماں کی بھرپورموجودگی کو اپنےارد گرد محسوس کرتے ہیں لیکن گھر میں بظاھران کے وجود کی نا موجودگی ایک بہت بڑا خلا ہے جسے ہم کبھی بھی پر نہیں کر سکتے..
ویسے تو ہم سب بچے بچپن سے نانی اماں کی شفقتوں، محبّتوں اور دعاؤں کے سائےمیں پروان چڑھے ہیں لیکن نانی اَماں کی زندگی کے آخری کچھ سال بوجہ نا سازیِ صحت، جو ہمارے ساتھ ہمارے جموں کے گھر میں گزرے وہ ہم سب اہل خانہ کے لئے تمام زندگی کا اثاثہ اوربیش قیمت یادگار ہیں.. انشا الله ہم اور ہمارے بچےنانی اماں کی بھرپور صحبت میں گزارے ان لمحوں اور دنوں کو تمام عمرچیریش کریں گے۔
کیا شخص تھا جو راہ وفا سے گزر گیا
جی چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں
ہماری نانی اماں وزیرہ بیگم کے بارے میں ریاست کا ہر وہ شخص تھوڑی بہت جانکاری ضرور رکھتا ہے جس نے گزری نصف صدی کی ریاستی سیاست کے منظر نامے پرذرا سی بھی نظر رکھی ہے یا جس نے ریاست کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی نیشنل کانفرنس کی تاریخ کا ذرا سا بھی قریب سے مطالعہ کیا ہے ۔
ہماری ریاست میں انیس سو اسی کے دہائی کا سیاسی دورانیہ بہت سے حوالوں سے تاریخی حیثیت کا حامل ہے.. یہ وہی دور تھا جب ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ کے سب سے بڑے لیڈر شیر کشمیر شیخ محمّد عبداللہ کے شاہانہ دورکے سمٹنےکے فورا بعد، پارٹی کی قیادت کی ذمہ داری قائد ثانی ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو منتقل ہو رہی تھی اور پارٹی قیادت کی منتقلی کے اسی دور میں شیخ صاحب کی وفات کے بعد یکے بعد دیگرے ڈاکٹرفاروق عبد الله، غلام محمد شاہ، گورنر جگموہن وغیرہ کی سربراہی میں حکومتیں بن اور بگڑ رہی تھیں.. یہ ریاستی سیاست کا بہت اتھل پتھل والا دور تھا۔
ریاست میں ڈاکٹر فاروق عبد الله کی قیادت کے دورکے آغاز کے ساتھ ہی وادی میں جنگجومسلح تحریک کا ایسا آغاز ہونے والا تھا جس کی وجہ سے آئندہ نصف صدی تک ریاست لگاتار سیاسی بحران کا شکار ہونے والی تھی..
میری نانی اماں مرحومہ وزیرہ بیگم نیشنل کانفرنس کے ان سینئر لیڈروں میں شامل ہیں جنہوں نے ریاست کی سیاسی تاریخ کے اسی انتہائی اہم اور نازک موڑ پرحکومت سازی کے عمل میں متواتردو بار حصّہ لیا۔
نانی اماں 1981 سے 1993تک نیشنل کانفرنس کی قیادت میں بنی دو اہم سرکاروں میں لگاتار بارہ سال تک اودھمپور کی تحصیل رام نگر سے رکن ایوانِ بالا کی حیثیت سے حکومتی ایوان کا حصّہ بنی رہیں.. یہ سیاست کا وہ عہد زریں تھا جب پارٹی کارکن برسوں تک زمینی سطح پراپنے علاقے کی عوام اور پارٹی کیڈر کا کام کرنے کے بعد اپنے لیڈراور سینئرزکی نظروں میں آتے تھے اورخاطر خواہ عہدے کا انعام پاتے تھے..
ریاست جموں کشمیر میں یہ "کیریکٹر پالیٹکس” کےآخری ایام تھے.. پارٹی کے بنیادی کاز کے ساتھ وفاداری، نظریہ ساز بے لوث زمینی سیاست اورغریب پروری لیڈر کا ایمان ہوا کرتی تھی..
ہماری نانی اماں کی اسی کردار،عوامی شہرت اور فولادی عزم کی وجہ سے 1996 میں بھی ڈاکٹر فاروق عبد الله صاحب نے انھیں ایوان بالاکا حصّہ بننے کی گزارش کی تھی، انھیں وزارت تک کا تحفہ پیش کیا تھا لیکن نانی اماں اس وقت تک سیاست کی دنیا کو خیرباد کہنے کا فیصلہ لے چکیں تھیں، وہ اپنے حصّے کی بھرپور سیاسی پاری کھیلنے کے بعد واپس اپنے امورخانہ داری کو رجوع کر چکی تھیں ۔سرگرم سیاسی منظر سے تقریباً ہٹ چکیں تھیں۔
ریاست جموں کشمیر کی سیاسی تاریخ میں اپنی انتہائی تمیزدار، شریف، تہذیب یافتہ اور زمینی محنت و مشقّت اور لیڈرشپ کی وجہ سے ہماری نانی آج بھی اپنے طبقے اپنے علاقے اور تمام ضلع کی پارٹی ورکروں اور خواتین کے لئے ایک رول ماڈل ہیں..
بقول افتخار عارفؔ

بات کردار کی ہوتی ہے وگرنہ عارف
قد میں تو سایا بھی انساں سے بڑا ہوتا ہے

آپ رام نگر، لاٹی دھونہ، ڈوڈو بسنت گڑھ، چنینی، مونگری،پنچاری، مجالتا اور تمام اودھم پورضلع کی ہرسڑک، اسپتال، اسکول، ڈسپنسری، ہیلتھ سینٹر، کمپوٹر سینٹر، کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں.. آپ کو کہیں نا کہیں علاقہ کی سب سے محنت کش غریب پرورسیاست دان وزیرہ بیگم کے دستخط ضرور ملیں گے۔
قارئین آپ کو کبھی ان پہاڑی علاقوں کے سفر کرنے کا موقعہ ملے تو آپ ضرورعام عوام سے گفت و شنید کیجئے گا..آپ کو مرحومہ کے حلقے اورعلاقے میں آج بھی سینکڑوں چھوٹے بڑے سرکاری ملازم ایسے ضرور ملیں گے جن کے روزگاراورنوالوں کا سبب وزیرہ بیگم کی ذات بنی ہے..ایسے میں جب جب تمام قصبہ ،علاقہ، معاشرہ ہماری نانی جی کی خدمات اور احسانات کا ذکر کرتا ہے، ہمارا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے.. بیشک نانی جی کے اہل خانہ ہم سب ایک خوبصورت، شانداراور معنی خیز وراثت کے امانت دار ہیں.. ہماری نہایت سادہ اور شفیق نانی اماں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے.. نسل در نسل ہمارے بچوں کے لئے تحریک کا ایک روشن چراغ ہیں.. ویسے تو ہمارا سارا قبیلہ افسروں ڈاکٹروں انجینئروں سے بھرا پڑا ہے لیکن نانی اماں نے جن مشکل ترین حالات میں رہ کر اپنے لئے یہ مرتبے اور شہرتیں حاصل کیں ہیں اس کی مثال پورے خاندان کی تاریخ میں نہیں ملتی..
ہم بچے بہت ہی زیادہ خوش نصیب ہیں کہ ہم نے بہت قریب سے اس فولادی عزم اور آہنی ہمّت کی خاتون کو دیکھا، سمجھا، جانا اوراسے محسوس کیا،اس کے سائےمیں دن گزارے، اس سے تحریک حاصل کی .. الله ہماری نانی اماں کو کروٹ کروٹ جنّت نصیب کرے کہ وہ ہم سب کے لئے ایک بہت بڑا اور دائمی تعارف ہیں..
زمانہ کر نا سکا اس کے قد کا اندازہ
وہ آسماں تھا مگر سر جھکا کے چلتا تھا
نانی اماں کے جہد مسلسل کی یہ کہانی بہت پرانی ہے.. قریب ایک صدی پہلے1931میں جب جموں کے محلہ فتوچوگان، پکہ ڈنگا کےایک متوسط گھرانے میں غلام محمد اور بیگم جان کے گھراس بچی کا جنم ہوا تو ہندوستان انگریزوں کے ساتھ آزادی کی جنگ لڑنے میں مصروف تھا .. ماں باپ نے بچی کا نام "وزیر” رکھا تو الله نے آگے چل کر ہمیشہ اس بچی کو وزارتوں عہدوں اور مرتبوں سے ہی نوازا..
لیکن نانی اماں کی زندگی ہمیشہ اتنی خوبصورت اور شاہانہ نہیں تھی..تصویر کا ایک دردناک پہلو ایسا بھی ہے کہ ہماری نانی وزیرہ بیگم کا ان حالات میں زندہ رہ جانا بھی کسی معجزے سے کم نہیں ہے.. بات 1947کی شورش کے ان ایام کی ہے جب ہندوستان کے نقشے پر تقسیم کی خونی لکیر کھینچی جا رہی تھی.. اس وقت جب کہ ہر طرف مذہب، مسلک ،ملک ،ذات پات،علاقے کے نام پر مارکاٹ ہو رہی تھی تو صرف پندرہ سال کی اس بچی کی آنکھوں کے سامنے اس کے گھر کے سب سے اہم تین افراد کو بے دردی سےقتل کرکے رکھ دیا گیا
ایک ریکارڈ کے مطابق اس ہندو مسلم شورش میں صرف جموں شہر میں ڈھائی لاکھ کے قریب مسلمانوں نے جام شہادت نوش فرمایا .. ملک کی تقسیم کےاس ہنگام میں نواحی بستیوں کے بیشتر لوگ مارے گئے، باقی پاکستان چلے گئے اور جو تھوڑے بہت یہاں بچے رہ گئے وہ باقی تمام عمرآج تک اپنے تشخص کی لڑائی لڑنے اور اپنے جنازوں کی کہانیاں سنانے کے لئے زندہ رہ گئے ہیں..
ایسے حالات میں جب کہ کسی انسان کا زندہ رہ جانا ہی کمال تھا، وزیرہ بیگم بری طرح زخمی ہونے کے باوجود نا صرف یہ کہ زندہ رہیں بلکہ ایک نئےعزم حوصلے اور ہمّت کے ساتھ دوبارہ کھڑے ہونے میں بھی کامیاب ہوئیں.. بے شک الله حوصلے دینے والا ہے..
نانی اماں کی شادی 1945میں صرف چودہ سال کی عمر میں جموں کے مشہور ملک خانوادے کے سرپرست اورتحصیل رام نگر ضلع اودھم پور کے مشہور فاریسٹ لیسی جناب محمّد عبد الله ملک کے بیٹے سعد الله ملک سے ہوئی..
سماجی خدمت کے جذبے کی رضاکارانہ سوچ اورغریب پروری کی نیّت کے چلتے بہت جلد جموں کےعام عوامی حلقوں میں یہ بات گردش کرنے لگی کہ مسلم سماج سے تعلق رکھنے والی ایک نوجوان خاتون وزیرہ بیگم دن رات غریب پریشان اور پسماندہ طبقے کے حقوق کے لئے کام کر رہی ہے.. یہ وہ زمانہ تھا جب مسلم لڑکی کا اسکول جا کرپڑھنا لکھنا تو دورسڑک پراکیلے چلنا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا..
آہستہ آہستہ نانی جی کی ان فلاحی سرگرمیوں کا ذکراس وقت کے سب سے بڑے سیاست دان اور نیشنل کانفرنس کے سرپرست شیخ محمّد عبد الله تک پہنچا.. شیخ صاحب نے کچھ عرصہ مزید وزیرہ بیگم کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے بعد، بی آلاخر 1975میں انھیں پارٹی کیڈر کا حصّہ بننے کی دعوت دی.. 1977 میں پارٹی کے ہی مینڈیٹ پر نانی اماں نے اودھم پور کی رام نگر تحصیل کے علاقہ لاٹی سے سرپنچ کا پہلا انتخاب جیتا اور کچھ ہی سال بعد 1981میں نیشنل کانفرنس سرکار نے انھیں اپنےعلاقے سے بحیثیت ممبر لیجسلیٹو کونسل منتخب کر کے ریاستی سرکار کا ایک اہم حصّہ بنا لیا .. نانی اماں نے دو متواتر دورانیوں میں ایوان بالا میں اپنے علاقے کی نمائندگی کی..
اس دوران نانی اماں نے اپنے پسماندہ اور دور افتادہ پہاڑی حلقے کی سڑکوں،چوک چوراہوں ،پلوں، اسکولوں، کمیونٹی سینٹروں، کھیل کے میدانوں سے لے کربجلی، پانی، صحت، کاشت، ٹریننگ، سوشل ویلفیئر کے کتنے پروجیکٹ اپنےعلاقے میں متعارف کئے؟ تعداد گننا مشکل ہے..
اِس دوران نانی اماں نے ایک ایسا تاریخی فیصلہ حکومت سے کروایا کہ آج تک علاقہ اس فیصلے کے فواید حاصل کر رہا ہے.. اس پچھڑے علاقے کو آر بی اے کیٹاگری میں لے آنا نانی اماں جی کا اب تک کا سب سے بڑا کام ہے کیونکہ اس فیصلے سے اب تک سینکڑوں اعلی افسر ملازم ڈاکر ٹیچر انجنیئر اپنے روزگار سے جڑے ہیں..نانی اماں نے نسل در نسل آنے والی کئی پیڑھیوں کے مستقبل محفوظ کر لئے ہیں..
مرکز اور ریاست کی درجنوں نئی پرانی اسکیموں کےتحت سپیشل پیکیج بنوا بنوا کر ترجیحاتی بنیاد پر اپنے حلقے کے دوردراز کے علاقوں تک پہنچائے ..
نانی اماں سال بھر پارٹی ورکروں کی کھیپ لے کرسرینگراورجموں کےسیکریٹریٹ کی سیڑھیاں چڑھتی اترتی رہیں، ریاست کا کوئی بھی آفس، ڈائریکٹوریٹ، ادارہ، یونٹ اور محکمہ ایسا نہیں تھا جس تک نانی نے رسائی حاصل نہیں کی.. ایک عزت دار مسلم خانوادے کی خاتون ہونے کے باوجود شرم و حیا کے پردے کا بھرپوراحترام کرتے ہوئے اپنی حدود میں رہ کر ان سے جو بن پایا انہوں نے اپنے علاقے کی فلاح اور ترقی کے لئے کیا..
شرافت، سادگی، ایمانداری اورخود داری کا وہ عالم تھا کہ ایک بار جب پارٹی قائد فاروق عبد الله صاحب نے نانی اماں کو اپنی کابینہ میں وزیربننے کی پیشکش کی تو فوراً اپنے لیڈرکی تجویز ٹھکراتے ہوئےانہوں کہہ دیا کہ پارٹی میں مجھ سے زیادہ بہتراورزیادہ حقدارلوگ ابھی باقی ہیں، وزارت پہ پہلا حق ان کا ہے اور ویسے بھی میں مٹی سے اٹھی ورکر ہوں، کرسی مل گئی تو اپنی اصل بنیاد سے کٹ کےرہ جاؤں گی.. آپ کی تمام کابینہ کے منسٹروں کے دل میں میرا بھرپوراحترام ہے جب میرے ایک فون کال پرعوام کے تمام کام ہو جاتے ہیں تو مجھے خود کابینہ کا قلم دان سنبھالنے کی کیا ضرورت ہے میں آپ کی عنایت کے طفیل یوں بھی اپنی عوام کے لئے منسٹر ہی ہوں..
1990کے دھے کے وسط میں اپنی دیگر نہایت اہم اور ضروری خانگی مصروفیات کے چلتے جب نانی اماں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایکٹیوسیاست کو خیرباد کہا تو پھر کبھی پیچھے مڑ کر اس دنیا کو نہیں دیکھا..
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
کچھ سال بعد اِدھر 2010کے بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ نانی اماں کو ایک کے بعد ایک مختلف بیماریوں نے آ گھیرا.. بہترعلاج اورموافق موسم کے لئے انھیں لاٹی اودھم پور سے جموں منتقل ہونا پڑا تو حسب سابق نانی اماں اپنی چھوٹی بیٹی یعنی میری امی ابو کے گھرآ گئیں..اور پھراپنی وفات تک ہم بچّوں کے ساتھ ہی رہیں.. لگاتارگرتی صحت کی وجہ سے لاٹی رام نگرکے ٹھنڈے پہاڑی موسم میں ان کی واپسی نا ممکن تھی..
نانی اماں کے ان آخری سالوں میں مجھے لگاتاران کے پہلو میں بیٹھنے کا اور ان کی خدمت کا موقعہ ملا..ان برسوں میں ان سے بیشمار باتیں ہوئیں، سینکڑوں دلچسپ اور ہوش ربا کہانیاں سننے کو ملیں، بہت کچھ سیکھا سمجھا،.. انشا الله، الله نے توفیق دی تو ان کی ان یادوں کو ضرور کسی کتاب کا حصّہ بناؤں گا ۔
میرے والد محترم خالد حسین صاحب سابقہ بیروکریٹ اورریاست کےایک ناموراردو/ پنجابی ادیب ہیں، الله نے چاہا توان کی دیکھ ریکھ میں پھرکبھی نانی اماں کی زندگی کے ان قصّوں کو ضرور قلم بند کرنے کی کوشش کروں گا کیوں کہ نانی اماں کی یہ باتیں ریاست کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم باب ہیں..انہوں نے بہت قریب سے ریاست کی سیاست اور مسلم معاشرے کی اس اتھل پتھل کو دیکھا ہے..
گزرے برس 24 اکتوبر کو جب نانی اماں نے ایک طویل علالت کے بعد ہمارے جموں کے گھر میں آخری سانس لی تو انہیں ان کی وصیت کے مطابق ان کے بزرگوں کے پہلو میں گجرنگرجموں کے آبائی قبرستان میں سپردِخاک کیا گیا.. ریاست کے ہرخطے سے جموں پہنچےجنازے میں شامل ان کے چاہنے والوں کی ہزاروں کی بھیڑ میں سینکڑوں ملول مرد عورت بچوں بزرگوں کے چہروں کو پڑھتے ہوئے میں لگاتار یہی سوچ رہا تھا کہ واقعی الله تعالی اپنے بندوں کو بہترین عزتیں دینے والا ہے..بس انسان کو خلوص نیت سے فی سبیل الله، انسانیت کی خدمت کرتے رہنا چاہئے..انسان کو جنّت جہنّم سبھی اسی زندگی میں مل جاتا ہے..
بقول علامہ اقبال
فرشتے مبتلائے آزمائش ہوں تو چیخ اٹھیں
یہ انساں ہے،جو دیتا جا رہا ہے امتحاں اپنا
۰۰۰۰

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا