ناہیدطاہر
ریاض،سعودی عرب
نمازِ فجر کی ادائیگی کے بعد عمارہ کا پھر وہی روز مرہ کیکاموں کا لامتناہی سلسلہ چل پڑنا تھا سو چل پڑا۔۔۔۔اس نے لکڑیاں جوڑ کر چولہا سلگایا اورچائے کی پتیلی رکھ دی۔۔۔دوسری جانب دال بنانے کے لئے ہانڈی بھی چڑھا دی۔ سلگتی لکڑیوں سے تیزچنگاریاں پھیلنے لگیں۔۔عمارہ کی نظریں ٹکٹکی باندھے اُن پر مرکوز تھیں۔۔جب سے ہوش سنبھالا تھا،اس کی اپنی زندگی بھی آزمائش کی چنگاریوں سیگھِری ہوئی تھی۔۔۔۔ آنگن سے چڑیوں کی میٹھی سی چہچہاہٹ ابھرکر اس کے کانوں تک پہنچ رہی تھی۔۔۔لیکن افسوس عمارہ کواس میں کوئی مٹھاس محسوس نہ ہوئی،وجود کیگرد تفکرات کی جکڑ اتنی سخت تھی کہ اس کے آگے دنیا کی ہر چہچہاہٹ معدوم ہونے لگتی۔چائے ابلنے لگی تو اس نے لکڑیوں کو ہٹا کر آگ کو دھیمی کیا۔۔۔ چائے پیالیوں میں لیتی ہوئی برآمدے میں چلی آئی۔جہاں دادی اپنے پوتے اور پوتیوں کے ساتھ بیٹھیں انھیں قرآن پڑھنا سکھا رہی تھیں۔
”دادی چائے!!!”
”آگئی میری بچی!”
دادی خوش ہوئیں۔۔۔کیونکہ عمارہ کے سارے کام کسی گھڑی کی سوئی کے مطابق مکمل ہوتے تھے۔ ان میں کبھی تاخیر ممکن نہ تھی۔۔۔چائے جس میں مفلسی کے علاوہ ہر چیز کی کمی جھلک رہی تھی۔۔۔۔ اس کے باوجود چائے کی پیالیوں سے اٹھتی خوشبوداربھاپ سیبچوں کے چہروں پر خوشی کی لہر چھاگئی، بچوں نے پیالیوں کی جانب ہاتھ بڑھادیئے۔۔۔عمارہ نے چائے کے ساتھ بچوں کو بریڈ کا ایک ایک سلائس بھی تھمادیا۔ ہمیشہ کی طرح گولو صادق نے ایک اور بریڈ کی امید میں جب عمارہ کی جانب دیکھا تو عمارہ کی نگاہوں میں انکار پاکر منہ بسور لیا۔۔۔ وہ دبے لب باجی کو ”ہٹلر” کہہ رہا تھا۔ عمارہ نے کوئی پرواہ نہ کرتے ہوئے دادی کی جانب بریڈ کا ٹکڑا بڑھایا۔
”سنو۔۔۔ناشتہ جلدی سے بنالو۔۔۔۔۔تمھاری امی کو اسپتال بھی لے چلنا ہے۔”
”نیا مہمان!!! ”دادی کے اطراف بیٹھے بچوں نے چلایا اورتالیاں بجاکرخوشی کا اظہار کرنے لگے،دادی کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ پھیل گئی۔
”ارے خوش بختو!!زبان سے بات نکلی نہیں کہ مفہوم جان جاتے ہو۔”
”دادی یہ کونسی نئی بات ہے۔۔۔۔اس گھر میں ہر سال ایک نیا مہمان تو آتا ہے۔۔۔بچے اس بات کے عادی ہوچکے ہیں۔۔۔”
عمارہ نے سرد لہجے میں کہا۔دادی نظریں چراکر بولیں”تم ابا کی چائے نکال دو۔۔۔ابھی وہ مسجد سے آئیں گے۔”
”جی دادی۔”
اس نے کلثوم کو ناشتے کی تیاری میں ہاتھ بٹانے کے لئے آواز دی جو باہر آنگن کی کیاریوں کو پانی سے سیراب کرتی ہوئی اپنی خوبصورت آواز میں قرآنی آیات پڑھ رہی تھی۔
تقریباً سات بجے، ناشتہ تیار ہوچکا تھا۔ناشتے کے نام پر پتلی سی دال بنائی گئی تھی جس میں چھت نظر آجاتی تھی۔جوار کی روٹیاں جو سب کے حصے میں صرف ایک عدد آتی۔۔۔ساتھ میں دادی کے دستِ مبارک سے وجود میں آیا ہوا آم کا اچار۔۔۔۔دستر خوان لگ چکاتو عمارہ نے سب کے حصے کی روٹیاں برتن میں رکھ دی،یہ دیکھ کرصادق نے منہ بنایا۔
”باجی آپ اس طرح گن کر روٹی نہ رکھا کریں!!”
”کیوں نہ رکھوں۔۔۔جب ابا کے ہاتھ قارون کا خزانہ آئیگا تب گن کر نہ رکھوں گی۔”
وہ مسکین شکل بنا کر کہنے لگا
”باجی ایک سے پیٹ نہیں بھرتا۔۔۔۔”
”بسم اللہ کہہ کر کھاؤگے تب پیٹ بھی بھرجائیگا!!”
”باجی کہتا تو ہوں۔۔۔۔۔ایک نہیں کئی بار۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔”
”تم تنہا نہیں ہو۔۔۔۔اور بھی بھائی بہن ہیں۔۔۔۔ تمھارے پیٹ کا خیال کروں گی تو کسی اور کا پیٹ خالی رہ جائیگا؟ کبھی سوچا ہے۔؟”
”مجھے نہیں سوچنا۔۔۔۔۔”
”تو پھرپڑھائی میں دھیان دو”
”لنچ میں بہت بھوک لگتی ہے۔پڑھائی میں خاک دھیان دوں! ”
”لنچ میں آپ گھر بھی آنے نہیں دیتیں۔”
”آکر کروگے بھی کیا؟دوپہر کو باجی تو چولہا ہی نہیں جلاتیں۔”
سمیرہ نے ناک چڑھا کر شکل بناتے ہوئے کہا۔اپنی ذات کے تئیں بچوں کے تاثرات پر وہ سخت نگاہوں سے انھیں دیکھنے لگی۔
صادق امید بھری نظروں سے روٹی کے ڈبے کو دیکھے جارہا تھا۔۔۔بیچارے کو قطعی علم نہ تھا کہ اس ڈبے میں اب صرف دو روٹیاں رہ گئی تھیں۔جبکہ امی ابا کے علاوہ وہ خود بھی بھوکی تھی۔
” نظریں نیچی کرکے کھاؤ!!عمارہ نے کہا تو صادق بھیگی پلکیں خشک کرنے لگا۔
بچوں کو گھر پر چھائی ہوئی اس بے رحم مفلسی کا کوئی اندازہ توتھا نہیں۔۔۔۔انھیں بس عمارہ باجی ڈائن لگتیں جو اپنے اصول وضوابط کے ساتھ ان چھوٹے بھائی بہنوں پر ظلم ڈھاتی نظر آتیں۔ صادق تو دعا کرتا کہ باجی جب گھر سے رخصت ہوں توکبھی واپس نہ لوٹیں!معصوم بچوں کو یہ احساس نہ تھا کہ وہ ان کے پیچھے اپنی جوانی جھونک رہی ہے۔۔۔وہ دن رات محلے کی خواتین کے کپڑے سیتی۔۔۔۔۔ بچوں کو ٹیوشن دیتی۔۔۔ملازمین کی طرح گھر کا ہر چھوٹا بڑا کام انجام دیتی۔۔۔کیونکہ ابا بے روزگار تھے۔۔۔۔دادی کا ایک مکان تھا جس کا کرایہ چھ سو روپے ماہانہ پابندی سے موصول ہوتا۔
پڑوس میں آٹے کی چکی تھی۔دراصل چکی سے جوآٹا گرکر پھیلا ہوتا،وہ بہت کم قیمت میں دستیاب ہوتا تھا۔لیکن اس میں بہت زیادہ کرکری ہوتی۔۔۔۔اس کے باوجود یہی آٹا ان لوگوں کے لئینعمت کی طرح تھا۔جو اس خاندان کی مفلسی کا سہارا بنا ہوا پیٹ کی آگ بجھارہا تھا۔
رات کے کھانے پر کبھی کبھی ابا گوشت لے آتے۔۔۔۔عمارہ گوشت کے ساتھ جوار کا آٹا ملا کر ایک عجیب ڈش بنا لیتی جسے’ کڑی’ کا نام دیا جاتا۔۔ پھر تمام کنبہ اس سے سیراب ہوپاتا۔ چاول بھی پکتا لیکن کنکی والا جو نہایت کم داموں میں دستیاب ہوتا۔، سبھی برتنوں میں باقاعدگی سے دو دو چمچ پروسا جاتا پھر کسی کی مجال نہیں ہوتی کے دوبارہ چاول کی جانب نگاہ بھی اٹھا کر دیکھے۔۔۔۔تب چھوٹیبھائی بہنوں کو عمارہ بہت بری لگتیں۔۔۔گھر کے حالات بہت زیادہ بگڑتے چلے گئے اورچکی کا آٹا بھی خریدنا محال ہونے لگا۔۔۔۔۔امی رات کی تاریکی میں کھلے آسمان کے نیچے کھڑی ہچکیاں لے کر رب سے دعائیں مانگتیں تو عمارہ کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے وہ کانپ اٹھتی۔۔۔مفلسی کا شکنجہ تنگ سے تنگ تر ہوتا چلاگیا اور فاقوں کی نوبت آنے لگی تو اس نے بہت کوششوں کے بعد تین سو روپے تنخواہ پر ٹیچر کی ملازمت حاصل کرلی۔۔۔۔ان دنوں تین سو کافی بڑی رقم کہلائی جاتی تھی۔۔۔۔اس طرح کچھ حالات بہتری کا رخ اختیار کرنے لگے۔۔۔بچے سکول اپنا توشہ بھی لے جانے لگے اور گھر پر دوپہر کو چولہے میں آگ بھی نظر آنے لگی۔
زیست کی اسی کشمکش میں پتا نہیں کتنے سال گزر گئے، عمارہ کے سر میں سفید چاندی نما تار جھلک آئے تھے۔۔۔جب لوگ عمارہ کی عام شکل کا مذاق اڑاتے تو اس کی گہری آنکھیں بیاختیار چھلک پڑتیں،دادی نہایت کرب سے کہتیں۔
ارررے شکل صورت اللہ کی بنائی ہوتی ہے۔۔۔ خوف کرو،یوں اللہ کی تخلیق کا مذاق تو نا اڑاؤ!!
پیسہ اور جہیز کی کمی کی وجہ سے ابا نے حالات کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور اس کا نکاح اپنے محلے کے ایک غریب انسان سے پڑھوا دیا جو تعلیمی اعتبار سے کمتر تو تھا ہی ساتھ ہی کردار و اوصاف کی کمتری نے اس کی جہالت میں نمایاں اضافہ کر رکھا تھا۔۔۔۔عمارہ نے روتے بلکتے ہوئے بابل کے آنگن سے وداع ہوکر جب سسرال کی دہلیز پر قدم رکھا تو یہاں بھی مفلسی اپنی بوجھل پلکیں بچھائے استقبال میں کھڑی تھی۔۔رب نے شاید عمارہ کا انتخاب آزمائش کے لئے کررکھاتھا۔بڑی بہو ہونے کی وجہ سے گھر کی ساری ذمیداریاں اس کے نازک کاندھوں پر لاد دی گئیں۔شادی کے دوسرے تیسرے دن جب وہ میکہ آئی تو امی کے گلے لگ کر بیاختیار روپڑی۔۔۔۔اس کے چہرے کا عکس اس کے غموں کا غماز تھا۔اس ماہ کی تنخواہ اس نے امی کو سونپ دی۔تاکہ شادی پر لیا گیا قرض ادا ہوسکے۔۔۔۔جب وہ واپس لوٹی توشوہر عبدل لطیف، تنخواہ کی رقم مانگنے لگا۔
” میں نے امی کو دے دیا۔”
”امی کو دیا۔۔۔؟ مگر کیوں؟ اصل حقدار تو اب میں ہوں۔۔۔یعنی تمھارا شوہر۔”
”قرض ادا کرنا ضروری تھا۔”
”ذلیل عورت، میرے سر پر جو قرض ہے اس کا کیا؟”
”ضد کی محاذ پر کھڑے ہوکر یوں گولہ بارود نہ کریں۔کہا تو ہے، آئندہ ماہ آپ کو دوں گی!!”
”بدتمیز عورت خاوند سے زبان لڑاتی ہے۔۔”وہ شدید غصے سیغرایا اور ساتھ ہی ایک زوردار تھپڑ عمارہ کے رخسار پر رسید کیا جس سے اس کارخسار سرخ ہوگیا۔عمارہ کو شوہر سے اتنی سنگدلی کی امید نہ تھی۔۔۔وہ سٹپٹاگئی اور رخسار پر ہاتھ پھیلائے سسک اٹھی۔۔۔۔بیاہ کے تیسرے دن ہی محبت کا تاج محل مسمار ہوچکا تھا۔
ایک مرد کا ہاتھ جب پہلی مرتبہ عورت پر اٹھتا ہے اور عورت اس ظلم کے خلاف کوئی احتجاج نہ کرتے ہوئے آواز بلند نہیں کر تی اور درد سہنے پر بیبس ہو جاتی ہے تو گویا تشدد اور ظلم کو شہہ دیتی ہے
عورت کی اس ابتدائی خاموشی پر مرد ظالم سفاک اور ڈھیٹ بن جاتا ہے اور ابتداء تشدد کا سلسلہ تاعمر چلتا چلا جاتا ہے۔پھردنیا کی کوئی طاقت مرد کو اس عادت سے چھٹکارہ دلا نہیں سکتی۔۔
زخم دینے والے ہاتھ کبھی مسیحا نہیں بن سکتے۔۔۔۔اس طرح عورت کی زندگی کا ہر موسم بس حقارت و تذلیل بھرا ہوتا چلا جاتا ہے۔۔۔۔عورت کو چاہئے کہ اٹھنے والے ہاتھ کو ابتداء میں ہی روک دے!!
شوہر کی جانب سے جوسوغات حاصل ہوئی ان سے عمارہ کا دل دہل گیا۔۔۔۔وہ خوف کے سائے میں زندگی گزارنے لگی۔آمدنی کا ذریعہ تو یہاں بھی کچھ نہیں تھا۔شوہر کی چھوٹی سی دکان تھی۔۔۔۔شادی کے بعد عمارہ کی زندگی جیسے کولہو کے بیل کی مانند ہوگئی۔۔۔۔رات ہوتی توشوہر کی خدمت۔۔۔۔صبح صادق سے سکول جانے تک گھر والوں کی خدمت اور سکول سے لوٹ آنے کے بعد گھر کے باقیہ ادھورے کاموں کو انجام دینا!!
بچپن ابا کے گھر آزمائش کے نذر ہوا!!
جوانی حالات کے نذر سسکتی اور آزمائش کے سایہ تلے بھیگتی چلی گئی!!
جب سسرال قدم رکھا تو یہاں بھی وقت اپنی مٹھی میں طوفان لیے منتظر کھڑا تھا!!
آخر ایک عورت کی زندگی میں ہی اتنی تکالیف اور آزمائش کیوں؟وہ گھنٹوں سوچتی رہتی۔۔۔لیکن جواب ندارد !!!
شادی کے چار ماہ بعد جب ماں بننے کی خبر اس کے اندر کچھ نئے احساسات کوجنم دینے لگی تو وہ خوش رہنے لگی۔۔۔ دن کبھی خوشی کبھی غم کی ناؤ میں سوار ڈیلیوری تک پہنچ گئے۔۔۔۔عمارہ پل پل نئے مہمان کے انتظار میں گھڑیاں گن رہی تھی۔۔۔۔شام سے ہلکا درد بھی محسوس ہورہا تھا۔۔۔۔۔ پتا نہیں کیا بات ہوئی کہ عبدل لطیف نہایت غصے میں بڑی ہی بے رحمی سے عمارہ کو پیٹنے لگا۔ بے چاری روتی گڑگڑاتی رہی۔۔۔۔ خدا کا واسطہ دیا۔۔۔ رحم کی بھیگ مانگنے لگی۔۔۔۔لیکن عبدل لطیف کی وحشت میں کمی نہ آئی۔۔۔۔یہاں تک کہ عمارہ لہرا کر زمین پرگرگئی۔اسے ہسپتال لے جایا گیا۔
جب یہ خبر والدین تک پہنچی تو وہ لوگ پریشان حال دوڑے دوڑے چلے آئے عبدل لطیف کا غصہ اورجلال برقرار تھا وہ بڑی جہالت سے چلا رہا تھا۔” آپ کی بیٹی بدکردار واقعی ہوئی ۔”
”یہ الزام ہے!”
والدین لرز اٹھے۔
”مسلسل تین دنوں سے میں اس پر نگاہ رکھے ہوئے ہوں۔۔۔۔اس بدقماش عورت سے پوچھیں کے یہ ہمیشہ چھت پر کھڑی کس عاشق کا انتظار کرتی ہے؟ ”
”رمضان کا موقع ہے۔۔۔افطاری بنانی ہوتی ہے۔۔۔دنیا بھر کے کام ہوتے ہیں۔۔۔لیکن یہ راجکماری کا دل کام میں لگتا ہی نہیں۔۔۔ہر دو سیکنڈ بعدچھت پر چلی جاتی ہے۔۔”
”میرا شک، یقین میں تب بدلا جب یہ خوشی سے جھومتی ہوئی گنگنائے جارہی تھی۔جیسے عاشق کا دیدار ہوگیا ہو۔۔۔”
”پوچھیں اس بدکردار سے؟”
”خدا کے لئیبچی پر الزام نہ دیں۔۔۔۔” امی کربناک انداز میں رونے لگیں۔
”خدا کے لئے امی چپ ہوجائیں۔۔۔۔بالکل چپ۔۔۔”عمارہ کراہ کربولی۔
اس کے وجود سے جیسے قوت سلب ہونے لگی تھی۔ اس نے سختی سے آنکھیں بھینچ لیں، آنکھوں کے گوشے آنسوؤں کی نمی نہیں بلکہ خون کے خطروں سے بھیگنے لگے تھے کیا عورت ازل سے اتنی بے بس اور مجبور ہے؟؟؟ مرد من مانی کرتا چلا جائے اور عورت سہنے پر مجبور!!
اسے ایمرجنسی وارڈ میں شفٹ کیا گیا تھا۔۔۔۔۔سینے میں دم توڑتی سانسوں کے درمیان وہ گزشتہ تین دنوں کے کرب کو محسوس کرنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔
رمضان کے پہلے روزے کی افطاری میں وہ اپنی چھت پر کھڑی میکہ کی چھت کو تاکتی رہتی۔۔۔۔۔وہ ہر لمحہ اس امید سے چھت پر چلی جاتی کہ امی کی چھت کی چمنی سے دھواں اٹھیگا اور گھر پر روٹی پکنے کا پیغام سنائیگا۔۔۔۔لیکن افسوس ہر پل وہ سوگوار واپس چلی آتی۔۔۔آج اس نے چھپ کر صادق کو تھوڑی سی رقم امی کے گھر بھیجوائی تھی۔۔۔۔۔۔تاکہ امی کا چولہا سلگ سکے۔۔۔۔عصر کی نماز کے بعد وہ امید سے چھت پر چلی آئی اور اچانک امی کی چھت پر اٹھتا دھواں دیکھا تو خوشی سے جھوم اٹھی اور گنگنانے لگی۔تب ہی پیچھے سے عبدل لطیف وہاں پہنچا اور اسے گھسٹتا ہوا نیچے لیے آیا۔ اس سنگین الزام کے بعد وہ اپنی صفائی میں ایک لفظ بھی کہنا گوارہ نہیں کررہی تھی۔۔۔دل خون کے آنسو رورہا تھا اور روح طائر بسمل کی طرح تڑپ رہی تھی۔۔۔۔سینے میں سانسیں کم ہونے لگیں۔۔۔اس نے آنکھیں موند لیں۔
۔۔۔۔۔۔
آپریشن تھیٹر کی لال بتی جو مسلسل دو گھنٹوں سے روشن تھی۔اچانک گل ہوئی ڈاکٹر باہر نمودار ہوئے۔نرس کے ہاتھوں میں معصوم کلی مسکرا رہی تھی۔
عمارہ نے غم کی پرچھائیوں سے رہائی حاصل کرلی تھی۔ اب اسے نہ رب کی آزمائش کا خوف تھا اور نہ حالات کی چکی میں پسنیکا غم!
لیکن ایک اور عمارہ زمین پر تشریف لا چکی تھی جو یتیمی کی شکل میں آزمائش کی پہلی سیڑھی پھلانگ کراپنی آنکھیں پھیلائے حیرت سے دنیا اور اس کے رنگ دیکھ رہی تھی۔
ختم شد