کمزور نظام صحت اور غریب ہوتے لوگ

0
0

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

برسات ختم ہونے والی ہے، اسی کے ساتھ مچھروں کی یلغار شروع ہو گئی ہے۔ دور دراز گاو ¿ں سے لے کر قصبوں، شہروں سے ملیریا، ڈینگو پھیلنے کی خبریں آ رہی ہیں۔ صرف اتراکھنڈ میں ڈینگو کے مریضوں کی تعداد پچھلے ہفتے 4800 تک پہنچ گئی تھی۔ اس بیماری کے سب سے زیادہ معاملے دہرادون میں سامنے آئے ہیں۔ اتراکھنڈ کی راجدھانی میں 3000 لوگوں میں ڈینگو کی تصدیق ہوئی ہے۔ ریاست میں اس بیماری سے چھ موتیں ہو چکی ہیں۔ دہرادون میں 4 اور ہلدوانی میں 2۔ پلیٹ لیٹس کم ہونے، تیز بخار یا جوڑوں کے درد کا ایسا خوف ہے کہ لوگ اپنے چہیتوں کو بچانے کےلئے گھر کے برتن بیچ کر پچاس ہزار روپے تک خرچ کر رہے ہیں۔ جبکہ چند سو روپے خرچ کرکے مچھروں کو کنٹرول کر کے ان بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔ اوسطاً سالانہ بیس لاکھ لوگ ڈینگو، ملیریا کی زد میں آکر علاج پر اپنی محنت کی گاڑھی کمائی لٹانے کو مجبور ہیں۔ ہر سال اس موسم میں ڈینگو، ملیریا کا شوربلند ہوتا ہے۔ سرکار کی جانب سے بڑے بڑے اعلان کئے جاتے ہیں اور سماجی کارکن و تنظیمیں سرگرم ہو جاتی ہیں لیکن اس سے نبٹنے کی تیاری کا پہلے کسی کو خیال نہیں آتا۔ دہلی حکومت نے اس معاملہ میں پہل کی تو دہلی والے کچھ راحت میں ہیں۔

ایک سو تیس کروڑ آبادی والے ملک میں عوامی صحت پر خرچ لگا تار کم ہو رہا ہے۔ اب یہ جی ڈی پی کا تقریباً 1.2 فیصد ہو گیا ہے۔ جو کئی ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ صحت کی مد میں توقع سے کم خرچ کے نتائج سنگین ہوتے ہیں۔ بھارت میں اپنے علاج پر دو تہائی سے زیادہ خرچ خود مریض برداشت کرتا ہے۔ یہ اس وقت ہے جب ملک کے قریب ستائیس کروڑ لوگ سطح افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ان میں ایس ٹی، ایس سی کے بالترتیب 45.3 اور 31.5 فیصد لوگ شامل ہیں۔ یہ معلومات مرکزی حکومت نے کچھ ماہ قبل لوک سبھا میں دی تھی۔ حکومت نے لوگوں کی زندگی سدھارنے اور غریبی ختم کرنے کےلئے کئی قدم اٹھائے ہیں، لیکن نہ غریبی مٹ رہی ہے اور نہ ہی بھوک سے موت کے واقعات میں کمی آ رہی ہے۔ بلکہ دونوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق علاج پر خرچ کی وجہ سے 6.3 کروڑ لوگ ہر سال غریبی کی لائن سے نیچے جانے کو مجبور ہو جاتے ہیں۔

صحت کے معاملہ میں بھارت کی حالت دنیا میں شرمناک ہے۔ سری لنکا، بھوٹان اور بنگلہ دیش سے بھی ہم پیچھے ہیں۔ بین الاقوامی صحت میگزین ’لانسیٹ‘ کی تازہ رپورٹ ’گلوبل برڈن آف ڈیزیز‘ میں بتایا گیا ہے کہ صحت سہولیات کے معاملہ میں بھارت دنیا کے ایک سو پچانوے ممالک کی فہرست میں145 ویں نمبر پر ہے۔ رپورٹ کہتی ہے کہ بھارت نے 1990 کے بعد اسپتالوں کی صحت میں سدھار تو کیا ہے لیکن مریضوں کی صحت نہیں سدھر رہی ہے۔ 1990 میں بھارت کو 24.7 نمبر ملے تھے، جبکہ 2016 میں یہ بڑھ کر 41.7 ہو گئے ۔ ملک کے دور دراز علاقوں کی بات تو دور دہلی کے آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) اور صفدر جنگ جیسے اسپتالوں کی بھیڑ اور عام مریضوں کی درگتی کسی سے چھپی نہیں ہے۔ بڑے اسپتالوں میں بھیڑ کے بڑھنے کی وجہ ڈاکٹروں کی کمی اور صحت سے متعلق ناواقفیت ہے۔ اوپر سے کسی سنگین بیماری کی حالت میں علاج کےلئے عام آدمی کے پاس نہ پیسے ہوتے ہیں اور نہ ہی اسے انشورنس کی سہولت حاصل ہے۔

اس صورت حال کے پیش نظر ملک میں معیاری صحت سہولیات کی درکار ہے۔ نئی ہیلتھ پالیسی میں عدم مساوات صحت سہولیات کی پہنچ پر خاص زور دیا گیا ہے۔ مجموعی صحت پیکیج کے تحت بنیادی ہیلتھ سروسز کا دائرہ بڑھانے کی بات کی گئی ہے۔ اس کےلئے فطری طور پر صحت کے شعبہ میں زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔ مگر جب بھی ہیلتھ سیکٹر میں خرچ بڑھانے کی بات کہی جاتی ہے، تب مختص بجٹ کے کم خرچ ہونے کا آئینہ بھی دکھایا جاتا ہے۔ کیگ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ نیشنل ہیلتھ مشن (این ایچ ایم) کے تحت مختص رقم پوری طرح خرچ نہیں ہو پا رہی ہے۔ 10-2011 میں اس مد کے 7375 کروڑ روپے خرچ نہیں ہو پائے تھے، جو 15-2016 میں بڑھ کر 9509 کروڑ ہو گئے۔ حالیہ مالی سال میں این ایچ ایم کے بجٹ میں قریب 20 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔ دراصل بجٹ کی رقم کو خرچ کرنے کےلئے منظوری اور کاغذی کارروائی کا ایسا چکر ویو ہے جو ہیلتھ کارکنان کو الجھا دیتا ہے جبکہ وہ پہلے سے ہی کام کے بوجھ میں دبے ہوئے ہیں۔ اس نظام کو آسان بنانے کی ضرورت ہے۔

پارلیمنٹ کے پچھلے سیشن میں حکومت نے مانا تھا کہ ملک میں آٹھ لاکھ سے زیادہ ڈاکٹر کام کر رہے ہیں۔ ایک سو تیس کروڑ کی آبادی کے حساب سے تو ایک ہزار لوگوں پر ایک ڈاکٹر کا آنکڑا بہت دور لگتا ہے۔ پھر میڈیکل کی پڑھائی اتنی مہنگی کر دی گئی ہے کہ جو بھی بچہ ڈاکٹر بنے گا اس کی مجبوری ہوگی کہ وہ دونوں ہاتھوں سے مریضوں کو لوٹے۔ دوا کمپنیاں اور مرض کی تخصیص کے نام پر قائم لیباریٹریزنے بھی ڈاکٹروں کو لوٹ کا پورا موقع فراہم کیا ہوا ہے،کیونکہ سرکاری اسپتالوں میں اکثر مشینیں خراب رہتی ہیں اور دوائیاں ندارد۔ اس کی وجہ سے سرکاری ڈاکٹر بھی باہر سے جانچ کراتے اور دوائیاں لکھتے ہیں۔ 2015 کی مستقل پارلیمانی کمیٹی نے بتایا تھا کہ بھارت اگلے پانچ سال تک ہر سال 100 نئے میڈیکل کالج کھولے، تب بھی عالمی ادارہ صحت کے مقررہ معیار’ایک ہزار افراد پر ایک ڈاکٹر‘ کو پورا کرنے میں 2029 تک انتظار کرنا ہوگا۔

بھارت میں لوگوں کی جان جیب پر بھاری پڑ رہی ہے۔ اس میں دل اور دماغ کی بیماریاں سب سے آگے ہیں۔ رجسٹریشن اور مردم شماری کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ 2015 میں درج 53،74،824 موتوں میں سے 32.8 فیصد اموات دل اور دماغی دوروں کی وجہ سے ہوئیں۔ لوگ ٹینشن کی وجہ سے ہائی بلڈ پریشر اور شوگر کے مریض بن رہے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق بھارت میں ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کی تعداد 2025 تک 21 کروڑ کے پار ہو جائے گی، 2002 میں یہ تعداد 11.82 کروڑ تھی۔ ہر سال ملک میں دو لاکھ لوگ ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ 19-20 سال کے نوجوان بھی اس کے شکار ہو رہے ہیں۔ علاج میں سب سے زیادہ خرچ دوا پر ہوتا ہے۔ علاج پر زیادہ خرچ کی فکر انسان کو ذیابیطس(شوگر) ہائی بلڈ پریشر اور تھائرایڈ کی طرف ڈھکیلتی ہے۔ غریبی، نابرابری اور اقتصادی بوجھ سے دبے لوگ ان بیماریوں کی زد میں آکر لٹ پٹ رہے ہیں۔

شوگر کے مریضوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وقت قریب سات کروڑ لوگ اس کے شکار ہیں۔ پچھلے پچیس سال میں شوگر کے مریضوں کی تعداد میں پینسٹھ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ تقریباً دس ہزار روپے فی شخص اس کی جانچ اور دوا پر سالانہ خرچ کر رہا ہے۔ یہ مرض اس وقت زیادہ سنگین ہو جاتا ہے جب شوگر کی وجہ سے کڈنی، دل اور ہائی بلڈ پریشر کی بیماری بھی ہونے لگتی ہے۔ مرکزی حکومت نے غریبوں کے علاج کےلئے آیوشمان یوجنا شروع کی مگر اس میں بیس فیصد لوگ ہی شامل ہو پائے ہیں۔ جبکہ آسٹریلیا میں 57 فیصد لوگ صحت بیمہ کے دائرہ میں ہیں۔ جاپان نے اپنے سبھی شہریوں کو صحت کی پوری گارنٹی دی ہے۔ وہاں کی صحت سہولیات سب سے بہتر مانی جاتی ہیں۔ جارڈن نے بھی اپنے 80 فیصد سے زیادہ شہریوں کو صحت بیمہ کے دائرے میں شامل کر دیا ہے۔ ملک کی ترقی کےلئے صحت کی سہولیات کو بہتر بنانا ہی ہوگا۔ کیونکہ اس سے نہ صرف غریبی دور ہوگی بلک عمدہ کارکردگی بھی سامنے آئے گی جو ترقی کے لئے انتہائی ضروری ہے۔

 

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا