نصیحت ایک یہود کی

0
0

آزاد عباس چوگلے

عبداللہ العمران ایک ستر سالہ عرب اپنی پوتی کے علاج کے لیے المانیہ کے ایک اچھے ہوٹل میں تقریباً ایک ماہ سے قیام پذیر تھے اُن ہی کے بغل والے کمرہ میں ایک یہودی اپنی فیملی کے ساتھ تقریباً تین ہفتوں سے مقیم تھا۔ یہودی تو سیر و تفریح کے لیے آیا تھا ۔ اکثر دونوں کی آنکھیں چار ہوا کرتی تھیں۔ دھیرے دھیرے ملاقاتیں بھی ہونے لگی اور وہ دونوں دوست بھی بن گئے۔ چونکہ یہودی کو عربی زبان سے واقفیت بھی تھی تو ایک دوسرے کے خیالات کو تبدیل کرنے میں روکاوٹ بھی نہ آئی۔ اب عالم یہ تھا کہ دونوں فیملیز ایک دوسرے سے قریب تر بھی ہوگئی ۔ یہودی عبداللہ کی پوتی کی عیادت کے لیے جایا کرتا تھا حتیٰ کے کھانا پینا اور باہر ایک ساتھ جانا ایک معمول بن گیا ۔عبداللہ صاحب کی فیملی میں اُس کی دو بیٹیاں اور چار بیٹے تھے۔ بیٹیاں شادی کرکے اپنے گھر جاچکی تھی اور عبداللہ صاحب اپنے چار بیٹوں کے ساتھ یکجا رہتے تھے ۔ یہ چاروں بھی شادی شدہ تھے اور دو دو بچوں کے والد بھی تھے۔ مشترکہ طور پر ان بھائیوں میں ہمیشہ ہی سمجھداری کا اٹوٹ رشتہ قائم و دائم تھا۔عبداللہ صاحب کی پوتی اب مکمل طور پر صحت یاب ہوچکی تھی اب وہ اپنے وطن واپسی کا منصوبہ بنارہے تھے ۔ ٹکٹ وغیرہ خریدنے کے بعد اُنھوں نے اپنے یہودی دوست کو بتایا کہ ہم پرسوں واپس جارہے ہیں۔ تب یہودی نے نہایت ہی نفاست سے کہا ہمیں تمہاری بہت یاد آئے گی ۔ نم آنکھوں سے کہا کل رات میں سبھی افراد کا ضیافت کا بندوبست کر رہا ہوں لہٰذا ہم ایک ساتھ کھانا کھائیں گے اور پرسوں آپ کو الوداع کہنے ہم سب بھی مطار پر آئیں گے ۔ عبداللہ صاحب نے اُن کی دعوت قبول کی اور وقت مقررہ پر کھانا کھانے پہنچ گئے ۔ وہاں پر کافی لوگوں سے عبداللہ صاحب کا تعارف کروایا بعد ازاں دعوت طعام میں مشغول ہوگئے۔ کافی گفتگو کے بعد عورتیں واپس چلی گئیں۔ پھر عبداللہ صاحب کو ایک مخصوص جگہ لے گئے جہاں ایک مذہبی ہال تھا جہاں کئی مذاہب کے لوگ عبادت میں مشغول تھے ۔ یہ سب دکھانے کے بعد یہودی نے یہ بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں صرف جنت حاصل کرنے کی فکر ہے انھیں دنیا سے کچھ لینا دینا نہیں ہے ۔ یہ کل چھ ہزار ہیں جس میں سے دو ہزار مسلمان ہیں میں چونکہ تمہارا بھلا چاہتا ہوں تو آپ بھی مع اہل و عیال یہاں یا اپنے دیش میں کسی اچھی مگر گھر سے قریبی مسجد میں قید ہوجاو¿ اور اپنے آپ کو صرف اور صرف عبادت میں ڈھال دو۔ دنیا اور دنیا والوں سے کوئی سروکار نہ رکھو۔ تمہارے لیے مسجد اور عبادت کے سوا سب کچھ بے کار اور بے بنیاد ہے ۔ دنیاوی تعلیم اور رسومات کی ادائیگی سے کچھ نہیں ملے گا یہ سب کرنے میں تم اپنا دھن صَرف کرتے رہوگے اور ملے گا کچھ نہیں ۔ چوبیسوں گھنٹے مسجد میں عبادت کرکے دیکھو تمہیں سکون ہی سکون ملے گا اور تمہارے حصّے میں صرف نیکیاں ہی نیکیاں آئے گی اور تم جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام پاو¿ گے۔ اپنے اہل خانہ کو ایسا کرنے کی سخت ہدایت دو تا کہ وہ بھی جنت کے سچے حقدار بن جائیں گے اور تمہیں ثواب دوگنا ملے گا۔ غالباً صبح کے دو بج چکے تھے رات کے دس بجے سے عبداللہ صاحب اُس یہودی دوست کی نصیحتیں بغور سماعت فرمارہے تھے اور اُس کی باتوں پر یقین بھی کرلیا تھا کہ وہ جو جو باتیں بنارہا ہے وہ صد فیصد حق بات ہے ۔ کافی سوچنے کے بعد اُنھوں نے لب کشائی کی کہ اگر ہم سبھی مرد حضرات ملازمت نہ کریں تو گھر کے اخراجات کیسے چلیں گے؟ جواباً اُس کے دوست نے کہا آپ کے اور آپ کے اہل خانہ کے اخراجات تقریباً تقریباً ختم ہوگئے۔ پھر بھی آپ کے کھانے پینے کے کچھ اخراجات ہیں تو آپ پانچ حضرات میں سے کسی ایک کو ملازمت پر رہنے دو وہ پوری معاش آپ کے پاس دے دیگا آپ سب اخراجات سنبھال لینا۔ آپ جانتے ہیں کہ دور حاضر میں سب سے زیادہ خرچہ صحت اور تعلیم پر ہوتا ہے اور یہ دونوں آپ کے لیے حکومت کی طرف سے مفت ہیں ویسے بھی بچوں کو ابتدائی تعلیم دینی ہے وہ بھی گھر کی عورتیں اُنھیں دے دیں گی آپ میں سے کسی کو بھی گھر سے اور مسجد سے باہر جانا نہیں ہے تو باہری اخراجات کا سوال ہی نہیں آتا۔ بس مسجد میں اور گھر میں صرف اللہ کی عبادت کرنا ہے ۔عبداللہ صاحب پوری طرح سے اُس کی طلسماتی باتوں کے شکار ہوگئے ۔ اُس کی ہر بات کو پتھر کی لکیر سمجھا اور کہا آپ کے کہے ہوئے ہر لفظ پر میں اور میرے اہل خانہ پوری طرح عمل کریں گے۔ پڑوسیوں ، رشتہ داروں اور سماجی سرگرمیوں میں کچھ نہیں رکھا ہے یہ وقت گنوانے والی بات ہے ۔ آخرش اپنے دوست کو وچن دیا کہ میری پوری فیملی میری فرمانبردار ہے میں ویسا اُن سے کرواو¿ں گا جیسا آپ نے کہا ہے ۔اپنے دیش آتے ہی عبداللہ صاحب کے گھر پر دوستوں اور رشتہ داروں کا تانتا لگ گیا ۔ پوتی کی مزاج پرسی کے لیے اور سفر کے حالات کو سمجھنے کے لیے ۔ لہٰذا تین چار دنوں کے بعد آنے والے مہمانوں کی آمد ختم ہونے کے بعد سبھی اہل خانہ کو وہ سبھی باتیں بتائی جو اُس کے دوست نے اُسے سمجھائی تھی اور سخت فرمان جاری کیا کہ کل سے کوئی بچہ اسکول نہیں جائے گا اُنھیں قرآن پاک گھر کی عوریں پڑھائیں گی اور مرد سب مسجد میں عبادت کرتے رہیں گے۔ یہ سب ہدایات سب نے سنی مگر کسی نے بھی اعتراض نہ کیا نہ ہی لب کشائی کی۔ مگر ان کا ضمیر ان کی باتوں سے اتفاق بھی نہیں کررہا تھا ۔ سبھوں سے وعدہ لیا کہ گھر کے سبھی افراد ان کی باتوں پر عمل کریں گے۔دوسرے دن کوئی بھی بچہ اسکول نہ گیا نہ ہی کوئی فرد اپنی ملازمت پر، بلکہ والد کی تاکید کے مطابق سب مرد حضرات مسجد میں جاکر عبادت میں مصروف ہوگئے ۔ سبھی ابا کے فیصلے کے خلاف تھے مگر کسی میں یہ جرا¿ت نہ تھی کہ والد صاحب کو یقین دلائے کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ پوری طرح سچ نہیں ہے ۔ اُن کا ایک بیٹا جو کافی سمجھدار تھا یہ کہہ کر اپنے بھائیوں کو دلاسہ دیا کہ شاید ہم اپنے وال محترم کا موقف نہیں کر پائیں گے مگر اُن کے ایک دوست چاچا خلیل کو یہ سب ماجرہ بتائیں گے وہ ابا جان کو اچھی طرح سے سمجھائیں گے اور ابا سمجھ بھی جائیں گے۔دوسرے دن وہ لڑکا گھر کھانا کھانے جانے کے بجائے سیدھا چاچا خلیل کے گھر پہنچا اور سب احوال مفصل بتایا اور کہا کہ والد صاحب یا ہم گھر پر بالکل نہیں ملیں گے بلکہ ہم سبھی چوبیسوں گھنٹے مسجد میں عبادت کرتے ملیں گے اُنھیں ملنے کے لیے آپ کو مسجد میں ہی آنا ہوگا۔ بس اُسی دن خلیل صاحب شاءکی نماز کے لیے مسجد آئے اور بعد نماز عشاءاُنھیں ایک گوشہ میں لیا اور یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ صرف مسجد میں بیٹھ کر تلاوت کرنا یا نماز پڑھنا اسلام نہیں ہے ۔ بیشک یہ فرائض اول ہیں اس کے سوا بھی بہت سارے حقوق العباد ہم پر فرض ہیں جن کے بغیر اسلام مکمل نہیں ہوتا۔ ایمانداری سے ملازمت کرنا بھی عبادت ہے ، بچوں کو تعلیم دلانا بھی عبادت ہے تا کہ وہ معاشرے کے لیے مشعل راہ بنیں۔ تمہیں عطا کردہ وقت صرف تمہارے لیے نہیں ہے بلکہ قوم و ملت کی خدمت کے لیے بھی ہے ۔ پڑوسی کی مدد اور غریبوں کی دامے ، درمے اور قدمے مدد کرنے کا نام عبادت ہے ۔ اگر ہم اپنے بچوں کو تعلیم نہ دیں تو ہم دنیا کے ساتھ قدم ملا کر کیسے ل سکتے ہیں؟ جواباً عبداللہ صاحب نے کہا یہ اس دنیا سے کیا لینا ہے یہ دنیا فانی ہے ہمیں عبادت کرکے اُس دنیا کو حاصل کرنا چاہئے جو لافانی ہے ۔ دونوں کے درمیان چند لمحوں کے لیے خاموشی حائل رہی۔ خلیل صاحب نے خاموشی کو چیرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف مسجد میں اور صرف گھر میں بیٹھنا یہ خیال تمہارے دماغ میں کیسے آیا؟ عبداللہ صاحب نے پوری پوری بات دلیل کے ساتھ بیان کی کہ جرمنی جیسے غیر اسلامی ملک میں لوگ چوبیسوں گھنٹے عبادت گاہوں میں اس لیے عبادت کرتے ہیں کہ وہ جنت میں اپنا خاص مقام بنائے ہوئے ہیں اور صد افسوس کہ ہم اسلامک ممالک میں رہ کر اپنے آپ کو عبادت کے لیے مسجد میں قید نہیں کرتے۔ خلیل صاحب مسکرائے اور کہنے لگے کہ یہ اُن کی ایک سوچی سمجھی چال بازی ہے تا کہ مسلم اپنے اسلامی نکات سے ہٹ جائیں ۔ تمہیں شاید نہیں معلوم کہ وہ عربی اتنی اچھی طرح سے جانتے ہیں جتنی ہم عرب نہیں جانتے۔ یہ سب وہ اس لیے کرتے ہیں کہ ہم لاعلم اور بداعمال رہیں ۔ ہم میں سے کوئی طبیب نہ ہو نہ ہی مہندس ہو تا کہ ہم کسی کے غلام بن کر جئیں۔ اگر ہمیں اپنی اور اپنے دیش کی ترقی کرنی ہے تو خوب تعلیم حاصل کرنی ہوگی ، اپنے مذہبی فرائض انجام دینے کے بعد قوم کے لیے خدمت خلق کرنا ہوگا۔ محنت ہی سے انفرادی اور اجتماعی ترقی ممکن ہے جس کے لیے صحیح وقت پر صحیح کام کرنے ہوں گے۔ اگر ہر کسی کو بھول کر ہم اگر صرف عبادتوں پر دھیان دیں تو ہم کامل مسلمان نہیں بن سکتے۔ خلیل صاحب کی سب باتیں سن کر عبداللہ صاحب کو یقین ہوگیا کہ جنت ملنے کے لیے حقوق العباد اور خدمت خلق بھی ضروری ہے ۔

 

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا