متحد ہوکر ایک متفقہ لائحہ عمل ترتیب دینا وقت کی اہم ضرورت:محبوبہ مفتی
یواین آئی
سرینگرنیشنل کانفرنس کے صدر و رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے وادی کشمیر میں سیکورٹی فورسز کی 100 اضافی کمپنیوں کی تعیناتی کے مرکزی حکومت کے فیصلے سے پیدا شدہ صورتحال پر بحث کے لئے ریاست کے گرمائی دارالحکومت سری نگر میں کل جماعتی اجلاس بلانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ متذکرہ اجلاس رواں ہفتے ہی منعقد ہوگا۔قبل ازیں پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے اہلیان کشمیر میں حالیہ پیش رفتوں سے خوف پیدا ہونے کے پیش نظر فاروق عبداللہ سے کل جماعتی اجلاس طلب کرنے کی اپیل کی تھی۔محبوبہ مفتی نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا تھا: ‘حالیہ پیش رفتوں سے جموں کشمیر کے لوگوں میں خوف پیدا ہونے کے پش نظر میں نے ڈاکٹر فاروق عبداللہ سے کل جماعتی اجلاس طلب کرنے کی اپیل کی ہے۔ متحد ہوکر ایک متفقہ لائحہ عمل ترتیب دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہم جموں کشمیر کے لوگوں کو متحد ہوکر کھڑا ہونے کی ضرورت ہے’۔ایک میڈیا رپورٹ میں فاروق عبداللہ کے حوالے سے کہا گیا: ‘میں کل جماعتی اجلاس بلانے کے مطالبے سے اتفاق رکھتا ہوں۔ میں اسی ہفتے کل جماعتی اجلاس بلاﺅں گا’۔دریں اثنا فاروق عبداللہ نے قومی راجدھانی نئی دہلی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دفعہ35 اے کی منسوخی کے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔انہوں نے کہا: ‘اگر وہ دفعہ 35 اے منسوخ کرتے ہیں تو انہیں ہر وہ دفعہ منسوخ کرنا پڑے گا جو بذریعہ صدارتی حکم لاگو ہوا ہے۔ انہیں سنہ 1947 پر واپس جانا پڑے گا۔ آپ انتظار کیجئے اور نتائج دیکھئے۔ دیکھئے کیا ہوتا ہے’۔ان کا مزید کہنا تھا: ‘دیکھئے ہم لوگ شور نہیں مچا رہے ہیں۔ ہم لوگ آرام سے بیٹھے تھے۔ ہم نے کچھ نہیں کیا۔ مگر جب آپ اچانک ایک لاکھ فوجیوں کو بھیجتے ہیں، جہاں ایک طرف سے آپ کہتے ہیں کہ امن آگیا ہے، جہاں آپ ایک طرف سے کہتے ہیں کہ امرناتھ یاترا خوش اسلوبی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ سب کچھ معمول پر ہے۔ سیاح آرہے ہیں۔ مزید فوجیوں کی تعیناتی کی کیا ضرورت تھی؟ ریلوے کے مہربان نے جو آڈر نکالا ہے اس نے تو مصیبت بڑھا دی ہے۔ ہم تو آرام سے بیٹھے تھے’۔فاروق عبداللہ نے ریاستی پولیس کے ایک سرکیولر جس میں سری نگر کی مساجد کی تفصیلات اکٹھا کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں، سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا: ‘میں تو حکومت میں ہوں نہیں۔ جنہوں نے یہ آڈر نکالا ہے ان سے پوچھئے کہ اس کی ضرورت کیا ہے۔ میں بھی مسجد میں جاتا ہوں۔ نماز ادا کرنے کے بعد واپس گھر آجاتا ہوں۔ وہاں کوئی ایسی تقریر تو ہوتی نہیں’۔بتادیں کہ مرکزی حکومت نے مرکزی نیم فوجی دستوں کی 100 اضافی کمپنیاں کشمیر روانہ کرنے کے احکامات جاری کردیے ہیں جس کے ساتھ ہی وادی میں یہ افواہیں گردش کرنے لگی ہیں کہ مرکزی حکومت دفعہ 35 اے کو منسوخ کرسکتی ہے۔وادی میں نیم فوجی دستوں کی اضافی کمپنیوں کی تعیناتی کے اس ہنگامی اقدام نے وادی بھر میں خوف و ہراس کا ماحول برپا کردیا ہے۔ تاہم مرکزی اور ریاستی حکومت مرکزی نیم فوجی دستوں کی 100 اضافی کمپنیاں وادی بھیجنے کی ضرورت درکار پڑنے کی وجہ بیان کرنے پر خاموش ہیں۔ واضح رہے کہ جموں وکشمیر کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 35 اے اس وقت عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے۔