وادی چناب کہ سڑکیں موت کا جال

0
0

یہاں ہر کوئی سر پہ کفن باندھ کر رخت سفر باندھتا ہے

محمد اشفاق

کشتواڑ //وادی چناب کی خون آشام سڑکوں پہ آئے روز درجنوں حادثے ہوتے رہتے، جن میں سینکڑوں لوگ یا تو اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا پھر اپنے جسم کا کوئی خاص عضو کھونے کے بعد عمر بھر کے لئے اپاہج بن جاتے ہیں، نہ جانے کتنے گھروں کے چراغ بجھ جاتے ہیں۔نہ جانے کتنے بچے یتیم ہوجاتے ہیں، اور نہ جانے کتنی عورتیں اپنی جوانی کے عین وسط میں اپنے سہاگ کھو بیٹھتی ہیں اور پھر عمر بھر پچھتاوے کی آگ میں سلگ سلگ کر خون کے آنسو بہاتی رہتی ہیں۔نا گہانی اموات کا یہ نہ تھمنے والا لا متناہی سلسلہ برسوں سے جاری ہے اور سیاست دانوں و سرکاری عہدیداروں کے بلند بانگ دعوئوں کے باوجود، بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔سیاست دان بس اپنی جیبیں گرم کرنے میں اور اپنے بچوں کو بہترین زندگی. فراہم کرنے میں اس قدر مگن ہیں کہ کوئی بھی حادثہ پیش آنے کے بعد چند دنوں تک ان کی طرف سے کھوکھلے تعزیتی پیغامات جاری ہوتے رہتے ہیں۔مگر وادی چناب کے ان سادہ لہو عوام کو کون سمجھائے کہ ان لوگوں کے تعزیتی پیغامات میں بھی سیاسی رنگ پنہاں ہوتا ہے۔ جبکہ حادثہ میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کو امداد کے طور پر ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں دیتے۔حال ہی میں کشتواڑ ضلع میں پیش آئے تاریخ کے بھیانک ترین سڑکا حادثے نے ہر ذی روح کے کلیجے چیر کے رکھ دیے تھے، سال 2019 میں جولائی کے مہینے اپنے ساتھ کشتواڑ ضلع کے لیے ایک تباہ کن نحوست لے کر آیا تھا سورج کی پہلی کرنیں جو کائنات میں ایک خوشی اور نئی زندگی کی نوعید لے کر آتی ہیں کشتواڑ ضلع بلکہ پوری ریاست کے لیے ایک کلیجہ چیر دینے والی خبر لے کر آئی تھیں، جولائی 2019 کا پہلا دن کشتواڑ کی سر بہ فلک اور سر سبز وشاداب پہاڑیوں کو اشک بار کر گیا تھا کیوں کہ یہ خاموش و پر امن وادیاں اپنے چھتیس سپو توں کے لہو میں نہا چکی تھیں۔اور پوری وادی چناب ماتم کناں تھی۔حادثے کے کچھ ہی لمحوں کے بعد وادی چناب کے سیاست دانوں نے اپنی شرم کو بالائے طاق رکھ کر مگر مچھ کے آنسوں بہانا شروع کر دیے۔ اور اس الم ناک سڑک حادثے پر سیاست کا بازار گرمانا شروع کر دیا۔اس سڑک حادثے نے جہاں درجنوں گھروں کے چراغوں کو ہمیشہ کے لیے گل کر دیا وہیں ایک ہی خاندان کے سارے افراد دنیا کو خیر آباد کر گئے اور ایک ننھی کلی ادیبہ کو ظالم دنیا کے ہاتھوں تڑپنے کے لیے چھوڑ دیا، ادیبہ تو خیر دنیا میں جی لے گی۔مگرافسوس کی بات یہ ہے کہ الیکشن کے دوران عوام کے مسیحا بننے والے سیاست دانوں اسے امداد کرنے کی بھی زحمت گوارہ نہیں کی۔ہونا تو یہ چائیے تھا کہ بلند بانگ دعوے کرنے والے یہ سیاستدان اس ننھی کلی کو اپنی پرورش میں لے کر اسے ایک اچھی ذندگی دیتے۔ لیکن انہیں صرف اپنے ووٹوں سے واسطہ ہے۔کیشوان سڑک حادثہ کے علاوہ اور بھی درجنوں حادثے وادی چناب کی مٹی کو لال چکے ہیں، جن میں 2008 میں وڈرا کے مقام پر پیش آنے والا حادثہ، قابل ذکر ہے جسمیں 30 افراد نے اپنی جان گنوا دی تھی۔سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ سرکاری ایجنسیاں جن میں گریف، پی ایم جی ایس وائی اور آر اینڈ بی وغیرہ شامل ہیں ان حادثوں کی ذمہ دار ہیں، جو ناقص مواد کا استعمال کر کے سڑکوں کو موت کا ننگا ناچ ناچنے کے لیے کھلا چھوڑ دیتے ہیں۔علاوہ ازین ٹریفک پولیس کا بھی ان حادثوں کے رونما ہونے میں کلیدی رول ہوتا ہے۔ جو ڈرائیوروں کو اور لوڈنگ کرنے کی کھلی چھوٹ دے دیتے ہیں۔اس کے علاوہ غیر تجربہ کار افراد کو لائسنس فراہم کرنے کی غلطی اے آر ٹی او کے کھاتے میں با آسانی ڈالی جا سکتی ہے۔غرضیکہ سیاست دانوں سے لے کر سرکاری عہدیداروں تک سب اس حمام میں ننگے ہیں۔اس حقیقت سے کوئی منکر نہیں ہے کہ ریاست اور ملک کے کچھ نامور سیاست دانوں کا تعلق وادی چناب سے ہے۔ لیکن کامیابی اور شہرت حاصل کرنے کے لیے یہ لوگ اپنی جنم بھومی کو بھی فراموش کر بیٹھتے ہیں، انہیں اس کی یاد تب ستانے لگ جاتی ہے جب الیکشن کا زمانہ نزدیک ہو تا ہے، اور تب تک انہیں یہاں کے لوگوں سے بدبو آتی رہتی ہے ۔لیکن وادی چناب کے عوام اتنے سادہ لہو ہیں کہ با آسانی ان کے مکرو فریب کے جال میں پھنس کر پانچ تک ادھر ادھر منہ مارنا شروع کر دیتے ہیں۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا