چودھری شہناز سیف

0
76

قبیلے کیلئے مشعلِ راہ

تحریر : شازیہ چودھری
کلر راجوری جموں و کشمیر
9622080799

اس میں کوئی شک نہیں کہ بیٹی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا ہوا تحفہ اور رحمت ہے۔ زمانہ جاہلیت میں بیٹی جیسی نعمت کو زندہ درگور کرنے کا رواج عام تھا۔ اور پھر انسانیت کے پیکر سرور کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد نے بیٹیوں کو اس مسند پر بٹھایا کہ آج عورت نہ صرف سر اٹھا کے جی رہی ہے بلکہ اپنے باپ، بھائی ،خاونداور خاندان کا نام بھی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر روشن کر رہی ہے۔
باپ اور بیٹی کا رشتہ اللہ رب العزت نے بہت مقدس بنایا ہے اور اس رشتے کو بہت خوب صورت احساس سے نوازا ہے۔ بیٹیاں والدین کے آنگن کی رونق ہوتی ہیں۔ عام طور پر کہا یہ جاتا ہے کہ باپ بیٹیوں سے زیادہ لاڈ پیار کرتے ہیں،جبکہ مائیں بیٹوں سے زیادہ لاڈ پیار کرتی ہیں۔ باپ اپنی اولاد کے لیے گھنے درخت کی مانند ہوتا ہے۔وہیں ماں مہکتے نرم پھولوں کی سیج۔ جو اپنی اولاد کو زمانے کے سردوگرم سے بچا کر رکھتے ہیں۔ جس کے سائے میں اولاد پروان چڑھتی ہے اور لاڈ پیار میں رہتی ہے ۔ماں کی نسبت باپ کا بیٹیوں کے ساتھ حوصلہ افزا رویہ ان کی صلاحتیوں کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایک باپ کا بیٹی کے ساتھ مشفقانہ رویہ اس میں خود اعتمادی پیدا کرتا ہے جس کی بنیاد پر بیٹیاں مضبوط بنتی ہیں اور کامیاب زندگی گزارنے کے قابل بنتی ہیں۔ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیاں ہوش سنبھالنے سے لے کر اپنے گھربار کی ہونے تک اس پورے درمیانی عرصے میں اپنے باپ کی توجہ کی زیادہ طالب ہوتی ہیں اور جوں جوں ان کی عمر بڑھتی ہے، ان کے دل میں باپ کو چاہنے اور ان کی جانب سے چاہے جانے کی خواہش میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لڑکیاں اپنے باپ کے متعلق اپنی اس خواہش کا برملا اظہار کرتی رہتی ہیں۔اور اس رویے میں کمی نقصان کا باعث بنتی ہے۔ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ ’’ایک شوہر کے اپنی بیوی سے انس اور دلی لگاؤ کے اثرات بڑی حد تک ان کے بچوں خصوصاً لڑکیوں پر پڑتے ہیں۔ ایسے خاندانوں میں جہاں میاں بیوی کے تعلقات ناخوشگوار رہتے ہوں، ان کے بچوں میں بعض ایسے مختلف اقسام کے جسمانی اور ذہنی عوارض جنم لیتے ہیں جو بعد ازاں پوری زندگی ان بچوں کا ساتھ نہیں چھوڑتے۔ اس سے نہ صرف ان کی شخصیت متاثر ہوتی ہے، بلکہ ان کی خود اعتمادی کا بھی خاتمہ ہوتا ہے، اس لئے میاں بیوی کے تعلقات کا خوشگوار ہونا بہت ضروری ہے۔ایک باپ اپنی بچیوں کو بے شک ہر سہولت دے دے، لیکن اگر وہ خود ان کو وقت نہ دے تو سہولتیں بھی اس کا نعم البدل نہیں ہو سکتیں۔ بچیاں باپ کی توجہ اور موجودگی چاہتی ہیں اور ان کے ساتھ وقت گزارنا چاہتی ہیں۔ ہمارے ہاں یہ بات بہت عام ہے کہ لڑکیاں پرایا دھن سمجھی جاتی ہیں، اس لئے ان کے ساتھ زیادہ لاڈ پیار نہیںکیا جاتا، اور پھرسسرال میں بھی انہیں وہ مقام نہیں مل پاتا جس کی وہ مستحق ہوتی ہیں۔ باپ بیٹیوں کو نظر انداز کرتے ہیں جو کہ ایک غلط سوچ ہے۔ باپ کا فرض ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو بیٹوں سے بھی زیادہ شفقت اور پیار دے۔اورآج میں آپ سب قارئین کو ایک ایسی ہی بیٹی کے بارے میں بتانے جا رہی ہوں۔ جسے وہ سب کچھ میسر ہے جس کی حقدار ہمارے معاشرے کی ہر بچی ہے۔اور اس سب کے لئے والدین کا تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ ہونا لازمی ہے تب ہی بچیوں کو ایسا ماحول مل پاتا ہے۔گجربکروال قوم کی ایک ایسی ہی بچی جس نے آنکھیں کھولتے ہی اپنے ارد گرد ادب ماحول دیکھا اور پھر اِسی مہذب ماحول میں پروان چڑھی یہ بیٹی ہے ریاست جموں و کشمیرضلع پونچھ تحصیل سرنکوٹ گاؤں مڑہوٹ کی جس کے پردادا مرحوم کی شاعری نے گوجری اور پنجابی ادب میں اپنا لوہا منوایا اور جس کے والد اور چچا محترم اپنے دادا مرحوم کی وراثت کو آگے بڑھاتے ہوے گوجری ادب میں شاعری کی بہت ساری اصناف میں طبع آزمائی کرتے ہوئے چار چاند لگا رہے ہیں۔ چودھری شہناز سیف گوجری اور پنجابی کے مشہور شاعر مرحوم خدا بخش زارؔ کی پڑپوتی اور گوجری کے شاعر چودھری ایاز احمد سیفؔ کی لخت جگر اور چودھری ریاض صابرؔ کی بھتیجی ہیں۔ آٹھ اپریل 1995 میں سرنکوٹ مڑہوٹ میں پیدا ہوئیں اور پھرتعلیم و تربیت کے ساتھ جوانی کی دہلیز پر پہنچتے ہی نئی امنگوں اور کامرانیوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ۔پانچ سال کی عمر میں ہی ان کے گھرانے میں حالات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ جس گاؤں میں شہناز نے پہلی بار سانس لی اسی گاؤں کی گلیوں میں اسے اپنوں کا خون بہتے دیکھنا پڑا ۔ان کے داد حاجی ممتاز احمد ضلع پونچھ کی ہی نہیں بلکہ ریاست جموں و کشمیر کی جانی مانی ہستی تھے۔ جو کہ سماجی بہبود کے کاموں میں ہی پیش پیش نہیں رہتے تھے بلکہ سیاسی داؤ پیچ سے بھی خوب نبردآزما رہتے تھے۔ اور ان کا جوان سالہ بیٹا چودھری نیاز احمد عرف نیازی ان کا مضبوط بازو تھا بد قسمتی اور سازشوں کی ایسی آندھی چلی کہ اپنے ساتھ سب کچھ اڑا لے گئی۔ 26 اور 27اپریل2000ء کی درمیانی شب کو دہشتگردوں نے گھر میں گھس کر حاجی ممتاز احمد اور ان کے لخت جگر کو شہید کر دیا۔ اور مڑہوٹ کی سر زمین کو ان کے لہو سے سرخ کر دیا۔ شہناز کے والد محترم چودھری ایاز احمد سیفؔ اپنے والد اور جوان سالہ بھائی کی لاشیں دیکھ کر بالکل بکھر گئے اور اپنے کرچی کرچی وجود کو سمیٹ کر بڑی مشکل سے اپنی والدہ محترمہ اور دو بھائیوں کے ساتھ اپنے گاؤں کی گلیوں جو کہ ان کے اپنوں کے خون سے لت پت تھیں چھوڑ چھاڑ کر سرنکوٹ میں آ بسے اور یہیں پہ شہناز سمیت باقی بچوں کی پرورش کی۔ شہناز سیف بچپن سے ہی پڑھنے کی شوقین تھیں۔ ہر جماعت امتیازی نمبرات سے پاس کی اور آج ماشاء اللہ گریجویشن کرنے کے بعد مقابلہ جاتی امتحان کی تیاری میں جٹی ہیں۔قابل فخر بات یہ ہے کہ سر زمین پونچھ کی یہ بیٹی بالی انڈونیشیا میں 13سے16 نومبر 2019 کو ہونے والی AWMUN کانفرنس کیلئے منتخب ہوئی ہیں۔
(AWMUN)Asia World Model United Nationکا مقصد ہے نوجوان رہنماؤں کو دنیا کے مختلف حصوں میں پلیٹ فارم مہیا کرنا تا کہ پائیدار ترقی کے مقاصد (SDGs) یعنی Goals Development Sustainableکو کانفرنس میں زیر بحث لا سکیں ۔ہمارے لیے فخر کی بات ہے کہ ریاست جموں کشمیر سے پونچھ کی بیٹی چودھری شہناز سیف کو اس کانفرنس میں اپنے ملک ، ریاست اور اپنے خطے کی نمائندگی کا شرف حاصل ہونے جا رہا ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ چودھری شہناز سیف کامیابی کے افق کو چھوتے ہوئے آگے آگے بڑھتی جائیں ۔اور اِن کی طرح قوم کی ہر بیٹی خوشحال ہو اور ایسا گھریلو ماحول اور تربیت میسر ہو تاکہ باقی بیٹیاں بھی شہناز سیف کی طرح قوم کا نام روشن کریں۔ آمین۔(نوٹ: مضمون نگار ہفتہ وار گوجری اخبار رودادِقوم کی معاون مدیرہ ہیں۔)

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا