یو پی:نتائج کافی حیران کن ہوسکتے ہیں!

0
0

یواین آئی

لکھن¶عام انتخابات کے پیش نظر ساتویں اور آخری مرحلے کی ووٹنگ اتوار کی شام اختتام پذیر ہوجائے گی۔انتخابات کے بعد تمام لوگوں کی آنکھیں اترپردیش میں بی جے پی اور ایس پی۔ بی ایس پی۔ آر ایل ڈی کے درمیان ہونے والے قریبی مقابلے کے نتائج پر ہیں۔ ماہرین 23 مئی کو یو پی میں حیران کن نتائج کی پیشین گوئی کرر ہے ہیں۔وہ سوال جو عوام اور سیاسی ماہرین کے ذہن میں کھٹک رہا ہے وہ یہ کہ بی جے پی کا یوپی میں مظاہرہ کس طرح کا ہوگا۔کیا اتحاد کارگررہاہے اور سماج وادی پارٹی و بہوجن سماج پارٹی ایک دوسرے کے امیدوار کے حق میں ووٹر ٹرانسفر کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔کانپور میں سنٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ پالیٹکس (سی ایس ایس پی) کے ڈائرکٹر ڈاکٹر اے کے ورما کے مطابق “یو پی میں اتحاد اس شرط کے ساتھ وجود میں آیا تھا کہ ایس پی چیف اکھلیش یادو اپنی پارٹی کا ووٹ بی ایس پی اور مایاوتی دلتوں کا ووٹ ایس پی کے کھاتے میں ٹرانسفر کرنے میں کامیاب رہیں گے ”۔ان کے مطابق“ لیکن ماضی کی صورتحال اور موجودہ حقائق اس بات کی گواہ ہیں کہ مایاوتی اورا کھلیش مکمل طور سے اپنے ووٹ کو ایک دوسرے کے حق میں ٹرانسفر کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر یہ بی جے پی کے خلاف ان کے مواقع کو ایک دم معدوم کردے گا”۔ڈاکٹر ورما اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سال 2014 کے عام انتخابات میں سماج وادی پارٹی کو 22.02 فیصدی اور بی ایس پی کو 19.06 فیصدی ووٹ ملے تھے ۔ اگر ہم ان دونوں کو ملا دیں اور باور کر لیں کہ دونوں کا سو فیصدی ووٹ ایک دوسرے کو ٹرانسفر ہوا ہے تو اس وقت اتحاد کو ووٹ شئیر 41.8 فیصدی ہوگا۔ 2014 میں اترپردیش میں بی جے پی کا ووٹ شئیر 42.03 فیصدی تھا اور اس کے اتحادی اپنا دل کا ووٹ شئیر ایک فیصدی تھا۔ اب ان اعدادوشمار کا موازنہ کرنے سے این ڈی اے کا 43.03 فیصد ی ووٹ شئیر ایس پی۔ بی ایس پی ۔ آر ایل ڈی اتحاد سے 1.5 فیصدی زیادہ ہے ۔ان کے مطابق اپنے اتحادی کو ووٹ ٹرانسفر کرنے کی بات کہنا اور کر کے دکھانے میں کافی فرق ہے ۔ ماضی میں اکھلیش اپنی پارٹی کو ووٹ ٹرانسفر کرنے میں ناکام ثابت ہوئے تھے ۔سال 2017 کے اسمبلی انتخابات میں وہ ایس پی کا ووٹ کانگریس کو ٹرانسفر کرنے میں ناکام رہے ۔ اس میں کانگریس کو صرف 6.25 فیصدی ووٹ ملے اور 114 میں سے صرف سات سیٹوں پر کامیابی ملی۔ڈاکٹر ورما کہتے ہیں کہ “ مایاوتی ماضی میں اپنی خواہش کے مطابق دلت ووٹوں کو ٹرانسفر کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ لیکن مایاوتی کا یہ روایتی پس منظر اور دلت ووٹروں پر ان کی پکڑ حالیہ انتخابات میں کمزور ہوئی ہے ۔ وہیں دوسری جانب بی جے پی نے دلت اکثریتی حلقوں میں اچھا مظاہرہ کیا ہے ۔ 2014 کے عام انتخابات میں اس نے یو پی تمام 17 ریزور سیٹوں پر جیت کر پرچم لہرایا تھا اور 2017 کے اسمبلی انتخابات میں 80 ریزرو سیٹوں میں سے بی جے پی کو 70 پر کامیابی حاصل تھی۔وہ کہتے ہیں کہ اگر توقعات کے مطابق ایس پی۔ بی ایس پی اتحاد کا ووٹ ایک دوسرے کو ٹرانسفر نہیں ہو اہے تو سبھی کی نگاہیں ان کے مجموعی ووٹ شیئر کے گراوٹ پر ہوں گی۔ جیسا کہ بی جے پی اور ایس پی۔ بی ایس پی اتحاد کا یو پی میں اہم مقابلہ ہے ۔ ان کے ووٹ شئیر کو 35فیصدی سے 45 فیصد تک رہنے کی توقع ہے ۔ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے کو ایس پی۔ بی ایس پی اتحاد پر سبقت دے سکتا ہے ۔ڈاکٹر ورما کہتے ہیں کہ سال 2014 میں بی جے پی اور ایس پی کے درمیان ووٹنگ فیصد کا تفاوت تقریبا 20 پوائنٹ کا تھا وہیں 2017 کے اسمبلی انتخابات میں این ڈی اے اور ایس پی و کانگریس اتحاد کے درمیان ووٹنگ کا فرق 10 فیصدی ہی رہ گیا تھا۔ کیا بی جے پی یو پی اتحاد پر 10 فیصدی ووٹوں کی سبقت حاصل کر سکے گی۔ اگر ایسا ہوا تو 23 تاریخ کے نتائج ہم سب کے لئے کافی حیران کن ہوں گے ۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا