امجد جاوید کی بے رنگی

0
0

 

فقیرمحمدزبیرمظہرپنوار

کہنے کو تو امجد جاوید کا ناول ( بے رنگ پیا) صوفی ازم پہ مبنی ایک رومینٹک فکشن ہے۔ میں نے اس ناول پہ پہلے بھی تبصرے کیے ہیں اور کئی طرح کے مکالمات و مباحث کا حصہ بھی بنا ہوں۔ لیکن آج میں ناول اور ناول نگار مطلب تخلیق اور تخلیق کار دونوں کا شعوری اور فطرتی جائزہ پیش کر رہا ہوں۔
ایسا ہے کہ امجد جاوید یا تو فقیر ہے اگر فقیر نہیں تو درویش ضرور ہے۔ اگر میں چاہوں تو موصوف کو بابا بھی کہہ سکتا ہوں لیکن کہوں گا نہیں کیونکہ اردو ادب نے پہلے ہی بہت سے بابے پیدا کیے ہیں۔ لہذا اردو ادب مزید بابوں کا متحمل نہیں ہو سکتا یا پھر یوں کہہ لیں کہ بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہا وجہ بالکل سادہ سی ہے کہ بات بابوں تک تو ٹھیک تھی مگر ریت رواج ایسا پڑا کہ کئی بابیاں نمل پر بیٹھ کر کامل پیر بنانے کی راہ میں نکلی ہوئی ہیں۔ خیر یہ جو امجد جاوید بابا جی ہیں۔ مجھے جینو¿ئن والے بابا لگتے ہیںاور یقین کیجئے امجد جاوید بالخصوص ان میں سے تو ہرگز نہیں جو خوامخواہ کے بابے ہوئے ہیں۔ جی جی آپ ٹھیک سمجھنے کی کوشش کر رہے۔ اجی وہی تو بالکل وہی جن کی کہانی مندراں والا سے شروع ہو کر کسی کتابی کوٹھے پر کاجل لگا کر بیٹھ جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں بے ڈھنگے زاویئے یا اوٹ پٹانگ کی منطق اپنا کر کسی ڈکٹیٹر کے استحکام کی خاطر عوام الناس کو گدھے بنا کر کھوتے کھلا دیئے جاتے ہیں اور پھر کہا جاتا ہے کہ حلال لنگر ہے سو کھاو¿ پیو اور مست ملنگ بنے طرح طرح کی موشگافیاں چھوڑتے دھمال ڈالتے پھرو۔ ہاں ہاں انہی میں سے ایک وہ بھی بالکل وہی اچھے خاصے مفتی کو آسمان پر موجود نامعلوم شہاب ثاقب سچ میں مفتاح بنا کر عوام کو مفت میں ہی مفتوح بنا لے۔ اور لوگوں کی رارڑیاں سے رڑیاں نکل جانے کے بعد بنے قصاب نامہ۔ خیر گزرے زمانے کی باتیں ہیں۔ بابے آتے رہے ہیں اور ویسے ہی جاتے رہے ہیں۔ اب جبکہ وہ دور نہیں رہا یقینا وقت قریب ہے کہ کہ نقلی بابے سچ میں مٹنے والے ہیں۔ حرم سے بت خانے نکال جائے تو بت پرستوں کو داخلے کی گنجائش تک نہیں دیتا پاسبان حرم۔
خیر، میں دیکھتا ہوں یہ جو بابا امجد جاوید دیر سے سہی مگر ایک دن ضرور بابا ہی جانا جائے گا۔ یاد رہے مگر اصلی والا اور زندہ رہنے والا۔ اب اس بات کی بھی ظاہری سی بات ہے دوستوں کو تمہید و وجہ تسمیہ جاننے کا تجسس تو ضرور ہو گا کہ بھئی یہ پنوار آج ایسا کیوں اور کس وجہ سے کہہ رہا ہے۔ تو حیران ہونے کی ضرورت ہرگز نہیں دوستو۔۔ وجہ کوئی خاص نہیں انکا ناول ہی ہے اور ناول کی وجہ سے ہی موصوف ایک بار پھر سے آج نوک قلم پہ ہیں۔
بے رنگ پیاءایک ایسا ناول ہے جو یقینا عام قاری کے لیے ہرگز نہیں لکھا گیا۔ اس میں بہت ساری تھیوریز دی گئی ہیں۔ صوفی ازم دراصل ہمارے ہاں سچ بتاو¿ں تو ہندو¿ متھ سے انسپیریشن کا حصہ ہے اور اس کی پیشکش بھی تقریبا اسی انداز میں کی گئی ہے۔ میں نے صوفی ازم پہ کافی کچھ پڑھا ہے۔ اس کی فلاسفی اس کی سماجی سوشلی نفسیاتی ڈسکورس انٹرپٹیشن یا امپلیمنٹ وغیرہ کہ کس طرح سے باقاعدہ منظم ذہن سازی کے ذریعے آنے والی نسلوں کو گمراہ کر کے خاص مقاصد کے تحت چاہتے ناچاہتے غلامی کے طوقوں میں جکڑ دیا گیا تھا اور جکڑا جا رہا۔ جکڑا گیا حیرت نہیں ہاں مگر حیرت اس بات کی کہ نوجوان بخوشی اس ذلت بھرے طوق کو گلے میں سجائے پھرتے ہیں۔ کیا کہیں اور کیا کریں۔ یہی کہ کچھ بھی نہیں۔ جو جہاں ہے وہیں خوش رہے۔ ویسے بھی ہمارے کہنے سے کون سا انقلاب برپا ہونے والا یا پھر ہم حجت تو ہرگز نہیں کہ ہماری ہی بات حرف آخر ہو۔ خیر بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ ہاں تو بات ہو رہی امجد جاوید اور بے رنگ پیاءکی۔
مجھے یہ بتاتے ہوئے انتہائی خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ امجد جاوید نے واقعی میں ہی صوفی ازم کا وہ رنگ دکھایا ہے جسے جدید سائنس بھی مانتی ہے مگر اسکے پاس فی الحال جواز نہیں کہ کیوں کب کیسے اور کس طرح۔ بہرحال میرا ماننا یہی ہے کہ اگر سچ میں صوفی ازم ہے کہیں تو وہ بذات خود ایک تھیوری ہے جو نہ تو ماورائے عقل و شعور ہے اور نہ ہی ایسی انوکھی بات جو انسان کی فہم و فراست سے پرے ہو۔ بات صرف غور کرنے کی ہے۔ قرآن مجید میں خداوند کریم کا فرمان ہے۔ مفہوم ہے کہ زمین و آسمان تمہارے لیے مسخر کر دیئے گئے۔ پھر ایک ایک جگہ اور ہے کہ تم غور و فکر کرو سوچو پرکھو دریافت کرو۔ بے رنگ پیاءبشمول مصنف امجد جاوید کو میں ایک نئے انداز اور نئے نظریئے سے دیکھتا ہوں ،وجہ کہ ناول میں جو تھیوریز ہیں وہ سوچنے پہ مجبور کر دیتی ہے۔ ایک تو اس میں اکائی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ مطلب اکائی کی سرے سے نفی ہی کی گئی ہے۔۔ یعنی اکائی صفت کے اعتبار سے ہے۔ جسے ہم میتھ میٹککلی استعمال کرتے ہیں تاکہ سمجھنے میں آسانی ہو۔ وگرنہ ضرورت درپیش ہرگز نہ ہوتی۔ مطلب نظریہ ضرورت و ایجاد۔ اگر میں اسے صاف الفاظ میں لکھوں تو مختصر اتنا کہ جو کچھ ہے ” لا “ ہی ہے۔ اور” لا“ ہی دراصل بے رنگی ہے۔ اب بے رنگی کیوں ”لا “ہے اس لیے کہ ہر شے کی نفی بھی ہے اور اقرار بھی۔ یعنی اگر کچھ نہیں تو لا ضرور ہے جو قوت و توانائی یا کسی بھی راستے دائرے کا مرکز ہے۔ مرکزیت ہی وجودیت کا اعلی ترین مظہر ہے۔ اور جہاں تک بات ہے لا اور بے رنگی کی تو یوں کہہ لیں پانی کی طرح ہے۔ الگ بات پانی اکائی ہے اور زمین کا حصہ ہے مگر پانی کی صفت اور اوصاف کا میرا نہیں خیال کہ شاید ہی کوئی ہو جو واقف نہ ہو۔ یا جسے پانی کے اجزائے ترکیبی اور اشکال وغیرہ معلوم نہ ہوں۔۔ اب اسی پانی میں یا پانی ہے کوئی شئے جس میں یہ سما نہیں سکتا۔
دوسری تھیوری ناول کا موضوع جدید عصری تقاضوں کے تحت اور شاید مستقبل کے موضوع آکلٹ سائنس پہ مبنی ہے۔ جسے ہم روحانیت نفسیات وغیرہ بھی کہہ سکتے ہیں۔سادہ الفاظ میں لطافت کی ایسی قسم جو فطرت کے عین مطابق ہو۔ یا پھر ایسا ویژن نظریہ جو ناممکن کو ممکنات میں بدل دے۔ اس شکل میں امجد جاوید نے صوفی ازم کو کیسے پینٹ کیا ہے پڑھنے کے لائق ہے۔ مجھے کہیں پہ نہیں لگا کہ مصنف نے غیر فطری اور غیر شعوری بات لکھی ہو۔
اس میں تیسری جو اہم بات ہے کہ یہ سب کچھ امجد جاوید نے کب کیسے اور کس طرح سے دیکھا۔ بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ کبھی سوچتا ہوں کہ موصوف نے کہیں آپ بیتی تو نہیں لکھ دی ؟ یا پھر مصنف واقعات و حالات پر چشم دید گواہ رہا ہے۔ قصہ مختصر کسی فقیر درویش کی طرح امجد جاوید نے اڑان بھری ہے۔ لا سے ہوتا ہوا بے رنگی اور اکائیوں کی سچائی سے واقفیت اور شناسائی کرواتا کسی قلندر کی اڑتا رہا ہے۔ حیرتوں کے زمان و مکان افکار وغیرہ کیا کچھ نہیں امجد جاوید کی بے رنگی میں۔علاوہ ازیں ناول میں کئی طرح کی تھیوریز موجود ہیں مزید جانکاری کے لیے بے رنگ پیاءایک بار ضرور پڑھیں۔
میں یہاں یہ بھی بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں نے اس سے قبل ایسے موضوعات پہ باتیں کرتا اوشو، ارسطو ،ابن رشد، عمر خیام، ن میم راشد کو محسوس کیا ہے۔ اسکے علاوہ میرے مطالعہ کے مطابق شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے ایسی منطق تھیوریز فلاسفی اپنے لٹریچر میں دی ہو۔ خاص کر اردو ادب میں مجھے ن میم راشد کے بعد سے کوئی ایک بھی نظر نہیں آتا اگر کوئی میری نظر میں یا میرے ذہن میں نام آتا ہے تو وہ نام ہے امجد جاوید کا وہ اس لیے کہ بے رنگ پیاءنے مجھے مجبور کر دیا کہ اس پر میں مزید لکھوں۔
امجد جاوید صاحب آپ بابے ہیں یا نہیں مجھے نہیں معلوم۔ ہاں مجھے کہیں نہ کہیں آپ میں فقیر درویش ضرور نظر آتا ہے۔ اب ملامتی بنو آپ کی مرضی یا چپکے سے گوشہ نشینی میں فطرتی سفر جاری رکھو مرضی جہاں پناہ کی۔۔لکھتے رہیے۔ مستقبل قریب میں آپ کافن اور لٹریچر یقینا نئی نسلوں کے لیے کئی موضوعات کو جنم دے گا۔ نئی راہیں متعین کرے گا۔ نئی اصطلاح دے گا۔
ناول بے رنگ پیاء پڑھوانے کا ایک بار پھر سے شکریہ۔

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا