نہ میں گِرا اور نہ ہی میرے امیدوں کے مینار منہدم ہوئے :مودی
یواین آئی
پرتاپ گڑھ/بستیوزیر اعظم نریندر مودی نے سنیچر کو اپوزیشن کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ یہ تمام اپنے ذاتی مفاد کے لئے متحد ہوئے ہیں اور 23 مئی کو ان کا حقیقی چہرہ سامنے آجائے گا اور یہ ایک دوسرے سے دست گریباں ہوں گے ۔ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر مودی نے کہا“ نہ میں گرا، نہ میری امیدوں کے مینار منہدم ہوئے ، پر کچھ لوگ مجھے گرانے میں کئی بار گرے ۔ مجھے نیچا دکھا کر اور میری شبیہ دھومل کر کے یہ لوگ ‘مجبور’ حکومت بنانے کے خواہاں ہیں۔چار مرحلوں کے الیکشن کے بعد اب چیزیں دھیرے دھیرے واضح ہونے لگی ہیں۔ اور ان کے چہرے مرجھانے لگے ہیں۔ اب لوگوں کو یہ یقین ہونے لگا ہے کہ اب یہ لوگ مودی کو نہیں ہرا سکتے ۔ضلع پرتاپ گڑھ کے جی آئی سی گراونڈ میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر مودی نے کہا کہ وہ پارٹی جو وزیر اعظم کے دوڑ میں ہونے کا دعوی کررہی تھی اب اس نے قبول کرلیا ہے کہ وہ صرف ووٹ کاٹنے کے لئے انتخابی میدان میں ہیں۔ یہ واضح ثبوت ہے کہ کسی طرح سے کانگریس زوال پذیر ہوئی ہے ۔انہوں نے کانگریس پر ووٹ کاٹنے کے ساتھ ساتھ،سماج کو توڑنے ، ملک کو بانٹنے کا الزام لگایا۔پہلے پرتاب گڑھ اور پھر بستی میں یک بعد دوریلیوں سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر مودی نے کہا کہ ہم نے ملکی مفاد کو ہمیشہ سب سے اوپر رکھا، ہماری حکومت نے ایسے ہدف طے کئے جسے پہلی کی حکومتیں سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔ ہم نے مشکل اہداف طے کئے اور یہ مشکل کام ہم سے دن رات کام کرواتے ہیں۔ مشکل اور دشوار کن کا موں کو اپنا ہدف بنانے میں ہمیں ذرا بھی جھجھک نہیں ہوتی۔ اتحاد اور این ڈی اے دو مخالف سمتوں میں کام کررہے ہیں۔ اتحاد دلی آنے کے لئے بے چین ۔لیکن وزریر اعظم اور وزیر بننے کا سپنہ آنکھوں میں سجانے والوں کو معلوم ہونا چاہئے دلی ہنوز دوراست۔کانگریس کو ہدف تنقید بناتے ہوئے مسٹر مودی نے کہا کہ “ پنچے ” کا مہا ملاوٹ ہمیشہ سے ملک کے لئے مہلک ثابت ہوا ہے ۔ جب کبھی یہ پنجہ اقتدار میں آیا تو ملک کو ایسے نقصان کا سامنا کرنا پڑا جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کانگریس حکومت کے پانچ خصوصائص کو بتاتے ہوئے تنقید کی کہ ا س پنجے کی پانچ خصوصیات ہیں۔بدعنوانی، ذات پات، خاندوانی وراثت، عدم استحکام، اور غلط طرز حکومت۔بستی میں عوامی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر مودی نے کہا کہ ایس پی۔ بی ایس پی ہوں یا کانگریس اقتدار کے لئے یہ اصولوں کو اپنے پا¶ں کے نیچے رکھتے ہیں۔ یہ تینوں روزانہ بیٹھ کر اعداود شمار کا اندازہ لگاتے ہیں کہ کس کا کتنا ووٹ بینک ہے ۔ اس معاملے میں ان کی عادت اتنی بری ہوگئی ہے کہ وہ انسان کو بھی محض ایک ووٹ سمجھتے ہیں۔ان کا معاملہ یہ ہے کہ جس طرح سے پیسے ایک کھاتے سے دوسرے کھاتے میں ٹرانسفر ہوتے ہیں اسی طرح سے وہ انسانوں کو ٹرانسفر کرنے کا معمول بنارہے ہیں۔ یہ سماج، ذات، طبقات کی خریدو فرخت کرر ہے ہیں۔ان مہاملاوٹیوں کو انسان اور روپیوں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ لیکن ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ میرے ملک کے لئے غریب تو ہوسکتے ہیں لیکن بکاو نہیں۔میرے اترپردیش کے لوگ کسی پارٹی کے بدلنے سے نہیں بدلتے ۔ وہ نیت اور نیتی پر ووٹ کرتے ہیں۔سماجی انصاف کے لئے یہاں سے پرزور آوازیں اٹھی ہیں۔ اور اسی کا نتیجہ ہے کہ 2014 میں یہا ں کے لوگوں نے ہمیں اقتدار بخشا،2017 میں بھی انہوں نے ان مفاد پرست اور عوام دشمن عناصر کو سبق سکھایا اور اب 2019 میں وہ بی جے پی کے حق میں ووٹ کر کے ہیٹ ٹرک لگانے سے نہیں چوکیں گے ۔مکمل اکثریت اور مضبوط سرکار کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے مسٹر مودی نے کہا کہ آج آپ کا ‘سیوک” جب دنیاکے اسٹیج پر جاتا ہے تو 130 کروڑ لوگوں کا سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے ۔ اب دنیا میں ہندوستان کی بات پوری سنجیدگی سے سنی جاتی ہے ۔ پہلی کی سرکاریں روتی تھیں۔ ان کو ملک کے دشمنوں سے زیادہ اپنے ووٹ بینک دکھائی دیتا تھا۔ ایک وقت تھا جب ہندوستان کے “نیتا” روتے تھے آج پاکستان رو رہا ہے ۔ اور ایسا اسی وقت ممکن ہے جب ملک کی خدمت سب سے اوپر ہو۔مسٹر مودی نے کانگریس صدر راہل گاندھی پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ “ نامدار’ نے اس بات کو قبول کیا ہے کہ ان کے تشہیر کا اصل مقصد مودی کے شبیہ کو دھومل کرناتھا۔ نامدار کو واضح طور پر یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ نہ تو مودی چاندی کے چمچ منھ میں لے کر پیدا ہوا نہ ہی اس کا کسی شاہی گھرانے سے تعلق رہا ہے ۔ یہ مودی ہندوستان کی مٹی میں پیدا ہوا اور اپنی پوری زندگی ملک کے لئے وقف کردی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ان کے 50 سالہ “تپسیا” کو یوں ہی برباد نہیں کیا جاسکتا۔دہشت گردی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے سابقہ حکومتوں میں ہوئے سیریل بم دھماکوں کو تفصیلی تذکرہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ آخر یہ بم دھماکے کس کے وقت میں ہوئے ۔اترپردیش کے لوگ یہ کیوں کر بھول سکتے ہیں۔ انہوں نے ہر قطرے کا حساب لینے کے لئے ہمیں ملک باغ ڈور دی ہے ۔ انہوں نے عوام کو اپنے سے جوڑتے ہوئے ان سے سوالیہ لہجہ اپناتے ہوئے کہا کہ ذات پات اور ووٹ بینک کرنے والوں کی ووٹ کریں گے ؟کیا ایسے لوگوں کو سزا نہیں ملنی چاہئے ؟کیا آپ لوگ ان کو سزا دو گے ؟ کیا آپ ان کو ہمیشہ کے لئے باہر کا راستہ دکھاوگے ؟۔مسٹر مودی نے دہشت گردی کے خلاف اپنائی گئی اپنی پالیسیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ دہشت گرد اور ان کے آقا مودی کو اقتدار سے باہر دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن پورے ملک کے زبان پر“ پھر سے ایک بار مودی سرکار” کا نعرہ ہے ۔