شراب پر لائسنس اور منشیات پر روک

0
0

سرکاری دوغلی پالیسی نوجوانوں کی ہلاکت کا سبب :مولانا سعید احمد حبیب
لازوال ڈیسک
پونچھ //منشیات کی وبائ نے جہاں پورے سماج کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے اس کے الگ الگ اسباب ہیں جس کی طرف سماج کے ذمہ دار طبقہ کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بالخصوص علماءاور دانشوران کی بہت اہم ذمہ داری ہے کہ وہ اس المیے سے قوم کو بچائیں نوجوان طبقہ جس تیزی کیساتھ نشہ کی لت میں ملوث ہورہا ہے اور آئے روز نوجوانوں کی ہلاکت کی خبریں موصول ہو رہی ہیں وہ انتہائی تشویش ناک معاملہ ہے ۔اگر وقت رہتے اس وبا کی روک تھام نہ کی گئی تو اس کے بھیانک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار جامعہ ضیاء العلوم پونچھ کے نائب مہتمم و صدر تنظیم علماءاہل سنت والجماعت پونچھ مولانا سعید احمد حبیب نے شہر پونچھ میں ماضی قریب میں ہونے والی بعض نوجوانوں کی مسلسل ہلاکتوں کے پیش نظر کیا ۔مولانا نے کہا کہ نوجوان ہمارا اثاثہ ہیں ان کی صحت تعلیم و تربیت ہماری سب سے اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ اس سلسلے میں اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے نو جوانوں کی اصلاح کے لئے ان کی دینی تربیت کی ضرورت ہے والدین کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ بچبن کے ایام میں اپنے بچوں کو مسجد اور مکتب کے نظام کیساتھ جوڑیں برے ماحول اور بری صحبت سے بچوں کو دور رکھیں فیشن پرستی سے بچوں کو روکیں ۔اس موقعہ پر مولانا نے سرکاری پالیسیوں کے دوغلے پن پر بھی برہمی کا اظہار کیا کی ایک طرف حکومت شراب کے اڈوں کے لئے لائسنس پر لائسنس جاری کررہی ہے اور دوسری طرف منشیات پر پابندی پر مگر مچھ کے آنسو بہا رہی ہے اس صورت حال میں اور اس کھلے تضاد کے ماحول میں کیسے نوجوان نسل کو مطمئن یاقائل کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے مولانا نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اگر حکومت منشیات مخالف اپنے نعرے میں مخلص ہے تو وہ سب سے شراب پر پابندی لگا کر لاکھوں گھروں کا بھلا کرے اس سرکاری قدم سے انقلاب کی اُمید کی جاسکتی ہے ۔اگر حکومت ایسا کرنے میں ناکام رہتی ہے تو حکومت یا حکومتی اداروں کو منشیات مخالف بات کرنے کا کوئی حق نہیں بنتا ۔مولانا نے ایسے افراد کے خلاف سخت کاروائی کرنے کا مطالبہ کیا جو منشیات کے کاروباری ہیں اور اس ناسور کو پھیلانے کے اصل ذمہ دار ہیں۔ مولانا نے علماءبرادری اور والدین سے بھی اپیل کی کہ وہ مخلصانہ لائحہ عمل اختیار کریں اور اولاد سے بے جا شفقت و محبت نہ رکھیں اس کے ساتھ ساتھ اولاد کی نقل و حرکت کی نگرانی کو عیب نہ سمجھیں بلکہ خیر خواہی کے جذبہ کے تحت ان کی نگرانی کریں۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا