یواین آئی
ممبئی،//ہندوستانی سنیما کی دنیا میں ستیہ جیت رے کو ایک ایسے فلمساز کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جنہوں نے اپنی بہترین فلموں کے ذریعے بالی ووڈ کو بین الاقوامی سطح پر مخصوص شناخت دلائی۔ستیہ جیت رے کی پیدائش کولکاتہ میں دو مئی 1921 کو ایک ممتاز خاندان میں ہوئی تھی۔ ان کے دادا اپیندرکشور رے سائنس داں تھے جبکہ ان کے والد سُکمار رے مصنف تھے ۔ ستیہ جیت رے نے اپنی گریجویشن کی تعلیم کولکاتہ کے مشہورپریسیڈینسی کالج سے مکمل کی۔اس کے بعد اپنی ماں کے کہنے پر انہوں نے رابندر ناتھ ٹیگور کی درس گاہ شانتی نکیتن میں داخلہ لے لیا جہاں انہیں فطرت کے قریب آنے کا موقع ملا۔شانتی نکیتن میں قریب دو سال رہنے کے بعد ستیہ جیت رے واپس کولکاتہ آ گئے ۔ستیہ جیت رے نے اپنے کیریئر کا آغاز سال 1943 میں برطانوی ایڈورٹایزمنٹ کمپنی سے بطور ‘جونیئر ویجولائزر’ کیا، جہاں انہیں 18 روپے ماہ بطور تنخواہ ملتے تھے ،اسی دوران وہ ڈی کے گپتا کی پبلشنگ ہا¶س ‘سگنیٹ پریس’ سے وابستہ ہوگئے اور بطور کور ڈیزائنر کام کرنے لگے ۔ بطور ڈیزائنرانہوں نے کئی کتابوں کا ڈیزائن تیار کیا، اس میں جواہر لال نہرو کی ‘ڈسکوری آف انڈیا’ اہم ہے ۔سال 1949 میں ستیہ جیت رے کی ملاقات فرانسیسی ڈائریکٹر جین رینوئر سے ہوئی جو ان دنوں اپنی فلم ‘دی ریور’ کے لیے شوٹگ لوکیشن کی تلاش میں کولکاتہ آئے تھے ۔جین رینوئر نے ستیہ جیت رے کی صلاحیت کو پہچانا اور انہیں فلم سازی کا مشورہ دیا۔سال 1950 میں ستیہ جیت رے کو اپنی کمپنی کے کام کی وجہ سے لندن جانے کا موقع ملا جہاں انہوں نے تقریبا انگریزی کی 99 فلمیں دیکھیں ۔ اسی دوران انہیں ایک انگریزی فلم ‘بائی سائیکل تھیفس’ دیکھنے کا موقع ملا اس فلم کی کہانی سے ستیہ جیت رے کافی متاثر ہوئے اور انہوں نے فلم ساز بننے کا ارادہ کر لیا۔ستیہ جیت رے بنگالی ادیب وبھوتی بھوشن بندھوپادھیائے کے ناول ‘ولڈنگسرومن’ سے کافی متاثر تھے اور انہوں نے ان کے اس ناول پر ‘پاتھیر پانچالی’ نام سے فلم بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس فلم کی تعمیر میں تقریبا تین برس لگ گئے اور ان کی معاشی حالت کافی خراب ہو گئی جس سے فلم کی تخلیق کی رفتار سست پڑ گئی۔ بعد میں مغربی بنگال کی حکومت کے تعاون سے فلم مکمل کی گئی۔ اس فلم کو فرانس میں ہر سال ہونے والے ممتاز کانز فلم فیسٹیول میں ‘بیسٹ ہیومن ±ڈاکیومنٹ ’ کا خصوصی ایوارڈ بھی دیا گیا۔ ‘پاتھیر پانچالہی ’ کے بعد ستیہ جیت رے نے فلم ‘اپراجیتو’ بنائی ۔ اس فلم میں نوجوان اپپو کی خواہشات اور اس سے محبت والی ایک ماں کے جذبات کو دکھایا گیا ہے ۔ جب فلم ریلیز ہوئی تو مشہور نقاد مرنال سین اور رتوک گھٹک نے اسے پاتھیر پانچال¸ سے بہتر مانا۔ فلم کو وینس فیسٹیول میں گولڈن لائن ایوارڈ سے نوازا گیا۔سال 1966 میں ستیہ جیت رے کی ایک اور سپر ہٹ فلم ‘نائک’ جلوہ گر ہوئی۔ اس فلم میں اتم کمار نے ارندم مکھرجی نامی ہیرو کا کردار ادا کیا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ فلم کی کہانی اداکار اتم کمار کی سوانح پر مبنی تھی۔ فلم نے کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کئے ۔ فلم کے ریلیز کے بعد ستیہ جیت رے نے کہا تھا اگر اتم کمار اس فلم میں کام کرنے سے منع کرتے تو وہ فلم نہیں بناتے ۔ سال 1977 میں ستیہ جیت رے کے فلمی کیرئیر کی پہلی ہندی فلم ‘شطرنج کے کھلاڑی’ منظر عام پر آئی ۔ سنجیو کمار ،سعید جعفری اور امجد خان کے اہم کردار والی یہ فلم باکس آفس پر مطلوبہ کامیابی نہیں حاصل کر سکی لیکن سامعین کے درمیان کافی پسند کی گئی۔ 1978 میں برلن فلم فیسٹیول کی آپریٹنگ کمیٹی نے ستیہ جیت رے کو دنیا کے تین آل ٹائم ڈائرکٹرزمیں سے ایک کے طور پر نوازا۔ اسی کی دہائی میں خرابی ئصحت کی وجہ سے ستیہ جیت رے نے فلمیں بنانا کافی حد تک کم کر دیا۔ فلم ‘گھرے بائرے ’ کی تخلیق کے دوران انہیں دل کا دورہ پڑ گیا اور اس کے بعد ڈاکٹر وں نے ستیہ جیت رے کو فلم میں کام کرنے سے منع کر دیا۔ تقریبا پانچ سال تک فلموں سے دور رہنے کے بعد 1987 میں انہوں نے اپنے والد سکمار رے پر ایک ڈاکومینٹری بنائی۔ اپنے چار دہائی طویل فلمی کیریئر میں انہیں خوب عزت ملی۔ انہیں حکومت ہند کی جانب سے فلمسازی کے میدان میں مختلف شعبوں کے لئے 32 بار قومی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ وہ دوسرے فلم آرٹسٹ تھے جنہیں آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے بھی نوازا گیا۔سال 1985 میں ستیہ جیت رے کو ہندی فلم انڈسٹری کے اعلی ترین اعزاز دادا صاحب پھالکے ایوارڈ اور بھارت رتن کے اعزاز سے بھی نوازا گیا ۔ علاوہ ازیں ان کے قابل ذکر کیریئر کو دیکھتے ہوئے انہیں 1991 میں آسکر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔اپنی بنائی فلموں سے بین الاقوامی سطح پر مخصوص شناخت بنانے والے عظیم فلمساز ستیہ جیت رے نے 23 اپریل 1992 کو اس دنیا کو الوداع کہہ دیا۔یو این آئی