وزیر اعظم ہماری تقریروں سے بوکھلا گئے ہیں: عمر عبداللہ

0
0

ہمیں نام سے پکارا اور ہمارا نام لیکر ہماری تقریروں کا جواب دیا
یواین آئی

سری نگرنیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی ہماری تقریروں سے بوکھلا گئے ہیں۔پیر کے روز یہاں شیر کشمیر پارک میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کے دوران عمرعبداللہ نے وزیر اعظم نریندر مودی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ‘ہماری تقریوں سے وہ بوکھلا گئے ہیں، وزیر اعظم کی چاہے کھٹوعہ کی تقریر ہو یا جموں کی تقریر، انہوں نے ہمیں نام سے پکارا اور ہمارا نام لیکر ہماری تقریروں کا جواب دیا، ہم ایک چھوٹی جماعت ہیں، مشکل سے پارلیمنٹ میں چھ امیدوار بھیج سکتے ہیں اور اس ملک کا وزیر اعظم ہماری تقریروں کا جواب دیں اسی سے پتہ چلتا ہے کہ ہم کتنی مضبوط جگہ پر کھڑے ہیں اور ہم نے اُن کو کتنا ہلایا ہے’۔انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس نے 1996 سے جتنے بھی الیکشن لڑے ہم نے ہر بار لوگوں سے اپنے منشوروں میں وعدہ کیا کہ ہم جموں کشمیر کی اندرونی خود مختاری کو بحال کرکے رکھیں گے۔عمر عبداللہ نے کہا کہ جو وزراءآج فیس بک پر میرے خلاف لکھتے ہیں ان کے ساتھ میں نے واجپئی جی کے دور میں کام کیا ہے۔انہوں نے کہا ‘2000 میں جب میں واجپئی جی کے ساتھ وزیر تھا تب ہم نے اندرونی خودمختاری کی قرارداد دو تہائی اکثریت کے ساتھ اسمبلی اور کونسل میں منظور کرکے عوام کے سامنے رکھی تھی’۔انہوں نے کہا ‘آج بھاجپا والوں کو میری باتوں پر اعتراض ہے، جب ہم نے ریاست کی اندورنی خودمختاری کی قرارداد کو ریاست کی اسمبلی سے دوتہائی اکثریت سے منظور کروایا اُس وقت میں واجپائی حکومت میں وزیر تھا اور یہی لوگ میرے ساتھ کام کرتے تھے لیکن تب ان لوگوں میں سے کسی کو اعتراض نہیں تھا، آج اعتراض کیوں؟’وزیر اعظم کے کھٹوعہ جلسے میں عبداللہ اور مفتی خاندانوں کو ریاست کی سیاست سے بے دخل کرنے کی بات کے حوالے سے عمر عبداللہ نے کہا ‘2014 میں جموں میں آپ نے تقریر کی تھی اور کہا تھا کہ اگر بی جے پی حکومت آئی تو جموں کشمیر سے دو خاندانوں کا نکالا جائے گا لیکن پھر جنوری 2015 میں جس خاندان کو آپ نے بھگانے کی بات کی اسی خاندان کو گلے لگایا اور آپ نے اس خاندان سے ایک نہیں بلکہ دو وزیر اعلیٰ بنائے ایک 2015 میں اور دوسرا 2016 میں’۔انہوں نے کہا ‘مودی جی جتنا آپ سمجھتے ہیں جموں وکشمیرکے لوگ اتنے سادہ لوح نہیں ہیں۔ مودی جی ہم اُن لوگوں میں سے نہیں جو آپ کی طرح الیکشن میں ایک بات کرتے ہیں اور الیکشن کے فوراً بعد اپنی بولی بدل دیتے ہیں، ہم اُن میں نہیں جو آپ کی طرح وعدوں کو بھول جاتے ہیں، ہم اُن میں ہیں جو اپنی باتوں پر قائم رہتے ہیں’۔قابل ذکر ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اتوار کے روز کھٹوعہ میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کے دوران کہا کہ ریاست میں دو خاندانوں نے کشمیر کی تین نسلوں کو تباہ کیا ہے اور اب ان کی وداع کا وقت آچکا ہے۔عمر عبداللہ نے الزام لگایا کہ جموں کشمیر کی خصوصی پوزیشن کو نقصان پہنچانے کے لئے کچھ طاقتیں نکلی ہیں اور اس ملک کا وزیر اعظم ہر تقریر میں اس ریاست کو دھمکیاں دیتا ہے۔انہوں نے کہا ‘آج کل یہ پی ڈی پی اور پی سی والے لوگوں کے ہمدرد بن بیٹھے ہیں، آج ہر بات پر ہمدردیاں لٹائی جاتی ہیں اور آنسو بہائے جاتے ہیں لیکن جب یہ دونوں جماعتیں بھاجپا کے ساتھ اتحاد میں رہ کر یہاں حکمرانی کررہی تھیں تب ان کی زبانوں پر تالے چڑھ گئے تھے’۔انہوں نے کہا ‘جب 2016 میں کشمیر میں چاروں طرف قتل و غارت گری کا سماں تھا، گولیوں اور پیلٹ گنوں سے بے تحاشہ ہلاکتوں، نوجوانوں کو اپاہج بنانے، نونہالوں اور دوشیزاﺅں کو نابینا بنانے کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا تب یہ دونوں جماعتیں بھاجپا کے ساتھ اقتدار کے مزے لوٹ رہی تھیں اور کشمیریوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا، تب ہم نے ان کی آواز نہیں سنی۔ جب صوبہ جموں کے لگ بھگ تمام اضلاع میں آر ایس ایس کی ہتھیار بند نکالی گئیں تب کہاں تھی ان کی آواز؟ جب فرقہ پرست بھگوا جماعتوں کے غنڈے خطہ جموں میں مسلمانوں کو ڈراتے تھے تب کہاں تھی ان کی ہمدردیاں۔ جب بیروہ کے ایک نوجوانوں کو فوج کی جیپ کے ساتھ باندھ کر ایک درجن دیہات سے گھمایا گیا تب بیاں کیوں نہیں جاری کیا گیا؟ حد تو یہ ہے کہ انسانی حقوق کمیشن نے اس نوجوانوں کے حق میں 10 لاکھ روپے معاوضہ کا اعلان کیا لیکن محبوبہ مفتی اور اُن کے پی سی کے وزیر نے اس نوجوانوں کو چیک تھمانے کے بجائے اس امداد پر ہی روک لگوا دی۔ جب جامع مسجد سری نگر میں لگاتار 6 ماہ نمازِ جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تب کوئی مذمتی بیان کیوں نہیں جاری کیا گیا؟’۔عمر عبداللہ نے کہا کہ آج یہ لوگ نوجوانوں سے ووٹ مانگ رہے ہیں لیکن جب ایس آر او 202 لاگو کیا تب ان نوجوانوں کے بارے میں نہیں سوچا گیا۔ ان دونوں جماعتوں نے اپنی ذاتی مفادات کے لئے ریاست کو قربان کردیا کیونکہ ان کی نیت صحیح نہیں تھی۔پارلیمانی انتخابات میں لوگوں سے بھر پور ووٹنگ میں حصہ لینے کی تلقین کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ بائیکاٹ کے ذریعے ہم اُن طاقتوں کو مضبوط کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں جو ریاست دشمنوں کے خاکوں میں رنگ بھر رہے ہیں۔ ہمیں پارلیمنٹ میں ایسے نمائندے بھیجنے ہیں جو ہمارے حقوق کے لئے لڑے، دفعہ 370 کے دفاع کے لئے پیش پیش رہیں، ریاست کی شناخت اور پہچان کو برقرار رکھنے میں اپنا رول نبھائیں۔ اسی لئے نیشنل کانفرنس نے سب سے بہترین اُمیدوار میدان میں اُتارے ہیں۔جلسے سے نیشنل کانفرنس صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ، جنرل سکریٹری علی محمد ساگر، معاون جنرل سکریٹری ڈاکٹر شیخ مصطفےٰ اور صوبائی صدر ناصر اسلم وانی نے بھی خطاب کیا۔

 

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا