ہم تمہارے نہ ہوئے

0
0

نگینہ ناز منصور ساکھرکر
نوی ممبئی

9769600126

فلک وہ  فلک…….. فلک!!!!!!… امی کی غصہ بھری آواز سے میں چونک پڑی…. امی میرے سر پر کھڑی مجھے غصے سے ڈانٹ رہی تھی…… جانے کیا ہوگیا ہے اس لڑکی کو ہوش میں ہی نہیں ہے نہ جانے کیا سوچتی رہتی ہے آج پھر دودھ ابل    کر گیس پر پھیل گیا…”۔……۔ امی بڑبڑاتی ہوئی  پھر ڈرائنگ روم کی طرف چلی گی …. اور میں اپنے خیالات کو جھٹک کر پھر گیس کی طرف مڑ گئی… سارا دودھ ابل کر گیس  پر پھیل گیا تھا… میں نے وائوپنگ کلاتھ لیا اور  دودھ صاف کرنے لگی … اب میں امی سے  کیا کہتی کہ میرا دھیان کہاں ہے میرا دھیان…..   میرا دھیان  تو تم لے گئے تھے….پورے چار سال بعد تم سے ملاقات ہوئی تھی کتنے بدل گئے تھے تم لمبے چوڑے …..ہنڈسم۔۔  بہت پیارے۔۔۔۔۔ ہر لڑکی تم پر مر مٹے ایسی پرسنالیٹی۔۔۔۔ کچھ پل کے تو میں نے تمہیں پہچانا ہی نہیں….. اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتی بھائی بول پڑے۔۔” فلک دیکھ تو کون آیا ہے؟ پہنچان اسے  ؟ اور میں نے تمہاری طرف دیکھا تم مسکرا رہے تھے، تمہارے چہرے پر خوشی دمک رہی تھی، اور مسکراہٹ بھی کتنی پیاری تھی…… تم بہت پیار سے میری طرف دیکھ رہے تھے اور میں نظریں نہی ملا پا رہی تھی…. میں تمہیں پہچان چکی تھی شبو….!!!!!!! میرے دل نے زور سے پکارا مگر زبان نے ہلکے سے تمہارا نام لیا…. اور تم ہنس کے بولے "ارے واہ !!!! یعنی کے میں تمھیں یاد ہوں۔۔۔۔؟ تم نہیں بھولیں مجھے؟… اچھا لگا جان کر…. اتنا کہہ کر تم اندر چلے آئے… اور بھائی کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئے میں وہی دیوار کو ٹیکہ لگا کر کھڑی ہو گئی….. تم نے بولنا شروع کیا تم کب بمبئی چھوڑ کر گائوں چلی آئی یار مجھے پتہ ہی نہیں چلا…  اور میں یہاں اتنے دنوں سے آیا ہوا ہوں … اور مجھے نہیں معلوم کے تم میرے اتنے قریب رہتی ہو … وہ تو آج سڈنلی میری  ملاقات بھائی سے ہوئی تو تمہارے متعلق پوچھا… تو پتہ چلا تم اب  یہی  رہتی ہو……اور لو دیکھو میں تم سے ملنے چلا آیا … میں مسکرا رہی تھی…… تمھیں کیا جواب دیتی …… ہاتھ پائوں ٹھنڈے ہوئے جا رہے تھے…. دل کی دھڑکن دکانوں کو سنائی دے رہی تھی تھوڑی دیر رک کر تم چلے گئے…. یہ کہہ کر کے شام کو میچ کے بعد ملتا ہو…. تم بہت اچھی کرکٹ کھیلتے تھے تم جیسا نہیں تو کوئی اس وقت شہر میں…. ہمارے گائوں کی ٹورنامنٹ میں تم اپنے گائوں کو  رپرزنٹ کر رہے تھے۔۔۔۔۔ گرائونڈ ہمارے گھر کے پیچھے ہی کھیت میں بنائی گئی تھی اس لئے سب دیکھای  بھی دے رہا تھا اور سنایی  بھی۔۔۔۔ میچ کے بعد تم شام کو پھر گھر آئے۔۔۔۔۔ صبح کی بنسبت شام کو تم مجھ سے اور کھل کے بات کرنے لگے۔۔۔۔ تمہیں یاد ہے تم نے مجھ سے یہ بھی پوچھا تھا کے اتنے سالوں میں تم نے کبھی مجھے یاد بھی کیا یا نہیں؟…. تمہارے سوال پر میں تھوڑی جھینپ سی گی ..  میں تمہیں کیا بتاتی کہ میں نے تمہیں یاد تو کیا….. بہت کیا… مگر ویسے نہیں جیسے کہ تم چاہتے تھے… تمہاری نظر میری آنکھوں میں ڈوب کر جیسے سچ تلاش کرنا چاہ رہی تھی…. میں نے نظریں جھکا لیں… تم جیسے سب سمجھ گئے…. تم نے بات بدل دی اور تھوڑی دیر میں اٹھ کر چلے گئے…       اس رات میں سو نہیں پائی جیسے دماغ میں فلم  چلتی رہی… جس کے ہیرو تم تھے… جیسے بچپن اور جوانی کے بیچ کا منظر فلمایا گیا ہو …. تم سے میری پہلی ملاقات آج بھی یاد ہے مجھے… اس وقت میں پنجم کلاس کی طالبہ تھی … تم تھوڑے بڑے لگتے تھے سمجھدار بھی ….تب میں تمہاری عمر کا اندازہ نہیں لگا سکتی تھی تم بہت شرارتی تھے.. اور بدماش بھی … اسی بدماشی میں تم نے کلاس کے دروازے پر زور سے ایک کک  لگائیں… دروازے کی دوسری طرف میں کھڑی تھی اور دروازہ سیدھے میرے سر سے اٹکر آیا…. تم نے دیکھا بھی نہیں پلٹ کر یا شاید تمہیں پتا ہی نہیں چلا کہ تمہاری وہ شرارت  کیسی کو کیا تکلیف دے گیئی …. میرے سر سے خون  نکلتا دیکھ کر کچھ دوست بھائی کو بلا لائے… بھائی دوڑے دوڑے آئے مْجھے دیکھا اور آفیس میں لے گئے وہ خالہ ماں نے میری مرہم پٹی کی… بھائی بہت  غصے میں تھے… بار بار پوچھ رہے تھے کون تھا بتا ابھی اس کا سر توڑ دیتا ہوں مگر میں تمہیں نہیں جانتی تھی بس شکل دیکھی تھی…. اب اتنی بڑی اسکول میں تمہیں کہاں ڈھونڈتی … خیر یہ  تھی ہماری پہلی  ملاقات ….  کئی دن بیت گئے …. پھر تم نظر آئے …. بہت خاموش تھی کلاس اور شرارت  صرف تم کر رہے تھے… اب اکثر  ہماری ملاقاتیں ہوتی… میں لائن مونیٹر تھی تم  میرے پاس سے روز گذرتے… کبھی کچھ کہتے کبھی مسکراتے … اب ہماری دوستی ہو گئی تھی… اب تو تم مجھے چھیڑ نے بھی  لگے تھے… اور مجھے برا بھی نہیں لگتا…   کبھی کبھی کوئی بات ایسی کہہ دیتے کہ میرے گالوں پر گلاب کھل اٹھتے…پر نا جانے کیا تھا کہ تم جو کہنا چاہتے تھے وہ  بات میرے دل تک نہیں جاتی تھی… یا میرا بچپنا  اس کی شناخت نہیں کر پاتا… تم کھل کر اظہار محبت کرنے لگے تھے… جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا دن  ہفتہ اور مہنے  سالوں میں بدل گئے۔۔ تمہارے  انداز بدل گئے تھے پر پیار  نہیں…. ناہی میں بدلی … تم میں نہ جانے کہاں سے اتنا صبر تھا میں نظر انداز کرتی تم پھر  بھی سامنے آتے کسی تصویر کے ذریعے تو کبھی گانا گا کر تم اپنا پیار جتانے کا موقع کبھی نہیں چوکتے… میں شاید کچھ اور ہی چاہتی تھی کچھ الگ سب سے الگ خواب میری آنکھوں میں بھی سجنے  نے لگے تھے… پر اس کے شھزادے تم  نہیں تھے… مسکان میرے ہونٹوں پر بھی آ جاتی. … مگر سوچ تم  نہیں تھے…. نجانے کیسے تم میری زندگی میں جگہ پانے  سے چوک گئے …یا میں نے ہی کوئی اور راستہ چن لیا تھا…    تمہارے وہ خط تمہاری چھوٹی سی چٹ تو کئی سالوں میرے پاس حفاظت سے پڑی رہی … جس میں تم نے ای لو  یو(I Love You)لکھا تھا… اور مجھ پر چھوٹی سی گیند بناکر پھینکی تھی.. اسی لیے مجھے پتے ہے  کہ اس میںI love You  لکھا تھا… پتہ نہیں کیا سوچ کر میں نیوہ چٹ   سنبھال کر رکھ لی…. تمہارے دوست میری سہیلیاں سب تمہاری دیوانگی کو جانتے تھے اور کچھ تو مجھے تو تمہارے نام سے چڑاتے ۔۔۔۔۔۔۔۔ کہیں نہ کہیں مجھے اچھا بھی لگتا۔۔۔۔ تمہارا بھائی کو ملنے ہمارے گھر انا…. تو کبھی دوکان جانے  کے بہانے سامنے سے گزرنا…… مجھے دیکھنے کے تمہارے کء کء بہانے۔۔۔۔۔۔۔ گھنٹوں ریلوے پٹری کے اس طرف کھڑے ہو کر میرا انتظار کرنا ناجانے کیوں مجھے کبھی سمجھ نہ آیا…. تمھاری نظروں کی وہ  تپش…. میرے اندر تک اتر جاتی… مگر میں اس درد  کو کبھی سمجھ نہیں پائیں….. شاید نا سمجھی کی ایک حد تھی اور میں اس سے بھی گزر گئی تھی وقت کے ساتھ میری ا سکول بھی بدل گئی….. تم بھی دوسری اسکول میں چلے گئے. مگر تم ایسے ہی تھے…. تمہارا پیار نہیں بدلا مگر میں بدل گئی …. اب میں تمہاری طرف دیکھتی بھی نہیں تھی … شاید…….. شاید…… میں خود کو تم سے تمہاری محبت کی شدت سے دور لے آنا چاہتی تھی…. تم نے کء خط بھیجے … مگر میں نے لیے نہیں…… پڑھے نہیں….. پھر بھی تم ا سٹیشن ا?تے…. مجھے ایک نظر دیکھنے کی خاطر….. ایک لفظ محبت کا سننے کی خاطر….. میں بے رحم تمہیں آزماتی رہی …. تم سے تمہاری بیانتیہا محبت کو جو میرے لئے تھی دفن کرنے پر مجبور کردیا…… ہماری راہیں بدل گئی… ہم بدل گئے تھے شاید…،…یا پھر ہم بڑے ہو گئے تھے …        تمہارے درد کو بیان کر سکوں…. شاید اتنی طاقت نھیں میرے قلم میں…. تمہاری آنکھوں کا وہ  درد آج بھی نہیں بھولتا جب آخری بار تم مجھے اسٹشن پر ملے تھے …… آج تم سے سچ کہہ لوں اس دن تمہیں دیکھ کر نا جانے کیوں مجھے بے اختیار روناآ گیا اور میں تمہیں نظر انداز کرتی ہوئی ہمیشہ کی طرح آگے بڑھ گئی.. پر میرا دل جانتا تھا میں اگر تمہیں نظر انداز کرکے نکل آئی تھی تو میری آنکھیں کیوں رو پڑی۔۔۔۔ اور آخری پل تھا جب تم نے مجھے اور میں نے تمہیں دیکھا تھا۔۔۔۔ چار سال کا عرصہ بیت گیا تھا اور آج پھر تم  میرے سامنے تھے… آذان کی آواز نے میرے خیالوں کا سلسلہ منقطع کردیا… صبح ہو گئی تھی… مجھے احساس ہوا کہ آج بھی تمہیں یاد کرتے ہوئے میری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں گالوں  پر آنسوئوں کے قطروں سے سے نمی پھیل گئی تھی…. آنکھوں میں اداسی اتر آئی تھی… میں دھیمے قدموں سے وضو خانے کی طرف چل پڑی…..     کئی دن گزر گئے تھے آج موسم کچھ زیادہ ہی سہانا  تھا ہلکی سی دھوپ چھائوں کا عالم تھا میں ہمیشہ کی طرح آنگن کی سیڑھیوں  پر آ کر بیٹھ گئی.. ٹھنڈی ہوا روحوں کو جیسے سیراب کر رہی تھی… موگرے کی کیاریوں پر ڈھیروں پھولوں نے جیسے سفید چادر بچھا دی تھی۔ خوشبو سے بھرا ہوا کا ایک جھونکا مجھ سے ٹکرایا… اور تم سلام کرتیہویے اندر چلے آے … میں اٹھ کر کھڑی ہوئی مگر تم وہی  سیڑھی پر میرے ساتھ آکر بیٹھ گئے .. تم میرے بہت قریب بیٹھے تھے… ایک دم پاس ہو جیسے… میرے جسم میں عجیب سی لہر دوڑ گئی… میں تمہاری طرف دیکھ بھی نہیں پا رہی تھی… شرم سی محسوس ہو رہی تھی… مگر وہ تم تھے چپ  تھوڑی بیٹھتے… تم نے میری حالت بھانپ لی … جھٹ سے بولے کیا یار فلک تم تو اسے ہو رہی ہو جیسے میں تمہیں کھا جائوں گا…. کہو تو چلا جاتا ہوں… میں ہنس پڑی … میں نے ہلکے سے اپنے بالوں کو سہلایا اور دوپٹے کو سنبھالتے ہوئے سمٹ کر بیٹھ گئی… . پھر ادھر اْدھر کی باتوں میں کب وقت گزر گیا پتا ہی نہیں چلا… اندھیرے نے ہر طرف پھیل کر چراغوں  کو جلنے کی اجازت  دے دی تھی… تم بھی اجازت لے کر چلے گئے… اب اکثر  تم مجھ سے ملنے چلے ا?تے.. ڈھیروں باتیں کرتے … اب تو کی باتیں یاد بھی نہیں اور کی  باتیں بھولی بھی نہیں… اس بیچ میری منگنی طے  ہوئی. تمہیں پتہ بھی نہیں تھا اس دن تم اچانک چلے آئے… امی اور میں بیٹھے کچھ تیاری ہی کر رہے تھے تم بیٹھ گئے تھوڑی گفتگو کے بعد امی نے منگنی کا ذکر چھیڑا … تمہارا چہرہ اتر گیا… رنگ پھیکا پڑ گیا… مسکان غائب ہو گئی… تم نے میری طرف پر امید نظروں سے دیکھا…………….. مجھ میں ان نظروں کو چھیلنے کی تاب نہ تھی.. میں اٹھی اور اندر کمرے کی طرف چلی گئی..   تم مجھے جاتے ہویے دیکھتے رہے …امی تمہی  دھیرے دھیرے سب بتانے لگی ..  پر پتہ نہیں کیوں مجھے لگتا ہے کہ ہر بات  تم پر ایک بوجھ کی طرح  پڑ  رہی ہوگی… میں لوٹ کے نہیں آئی۔۔۔ اور تم بھی اس دفعہ مجھے بنا آواز دیے چلے گئے… نجانے کیوں میرا دل بہت اداس ہو رہا تھا… تم کو کھڑکی سے جاتے  دیکھ رہی تھی…… تمہارے قدم اٹھ  نہیں رہیتھے ..  بھاری بھاری قدموں سے تم چلے جا رہے تھے دور بہت دور تک جہاں تک تم نظر آتے رہے میں تمہیں دیکھتی رہی نہ جانے دل کیوں ڈر  رہا تھا… جیسے… جیسے میں تمہیں کھو دوں گی… اتنے میں امی اندر چلی ا?ئی اور ڈانٹنے لگی ” وہ  تمہاری خاطر آیا اور تم نے بات بھی نہیں کی کیسی دوست ہو تم” جاتے ہوئے وہ ناراض سا لگا ..  میں امی کو کیا بتاتی … کے تم  پر کونسا پہاڑ ٹوٹا  ہوگا….. درد سے سینا چھلنی ہوگیا ہوگا… تمہاری حالتِ زار کا اندازہ میں نہیں لگ سکتی تھی…. درد تم نے سہا تھا .   بے انتہا درد … میں اس درد  کو کس ترازو میں تولوں .. یہ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی.. وقت  تیزی سے گزرنے لگا…  منگنی کی دھوم دھام ختم ہوئی تو یاد آیا کہ میں نے ان دنوں تمھیں دیکھا ہی نہیں شاید تم منگنی  میں بھی نہیں تھے؟… تم آئے بھی یا نہیں؟ اپنی خوشی میں میں تمہیں بھول ہی گئی تھی…. میری منگنی اس شخص سے ہوئی تھی جو میری آنکھوں میں سپنوں کی طرح رہتا تھا…… تو مجھے تمہارے خواب کہاں سے آئے… تمہارے درد تک میرا دل تو جاتا ہے پر دماغ نے  پہرے لگا دئیے تھے… ایک دن دوپہر کے وقت ہمیشہ کی طرح میں اپنی ڈائری لکھ رہی تھی گے تم سلام کر کے اندر داخل ہوئے… میں نے مسکرا کر تمہارا استقبال کیا… تم بھی نورمل لگے… ڈھیروں باتیں پتا نہیں ہم کیا باتیں کرتے پر ہماری بات ختم ہی نہیں ہوتی تھی تم نے شکایت بھی کی کہ منگنی ہو رھی تھی پر  تم نے کچھ بتایا بھی نہیں…… مجھے یاد نہیں کہ میں نے کیا جواب دیا… پر تم  باتوں کے درمیان بار بار مجھ سے کہتے رہے” تم میری بات سمجھتی بھی ہو یا کہ جان کے انجان بنتی ہوں” میں مسکرا کر سر جھکا لیتی…..   اب تم کبھی کبھار اتے …   … تھوڑی دیر بیٹھ کر باتیں کر کے چلے جاتے…،. سال بیت گیا پھر وہی کرکٹ کا موسم آگیا….، تم پھر اپنی ٹیم لے کر آئے … تمہارے دوست بھی ساتھ ھوتے … تم ہمیشہ اچھے موڈ میں ہوتے، ہنسی مذاق کرتے سارا دن یہاں ہوتے ہو کھانا کہاں کھاتے ہو میرے پوچھنے پر تم نے جھٹ سے کہا تم کھلا دو …. میں نے تمہیں دوپہر کے کھانے پر بلا لیا توتم بولے آجائوں گا پر دھیان رہے میں  صرف دال چاول کھاتا ہوں… اور آلو کی سبزی پسند آتی ہے… ویسے تو اس دن مچھلی بنی تھی پر پھر بھی تمہارے لیے دال چاول اور آلو کی سبزی بنائیں… تم کھانے کی تعریف کر رہے تھے اور میں دل ہی دل میں تمہاری تعریف سے خوش ہو رہی تھی… شام کو پھر تم آئے میں تب بھی ڈائری لکھ رہی تھی تم نے کہا کہ ہمیشہ یہ کیا لکھتی رہتی ہو؟ ذرا مجھے بھی دکھائو؟ مگر میں نے بات  بدل کر ڈائری پرے رکھیں تمہارے دوست بھی ساتھ تھے باتیں کرتے کرتے تو مذاق کے موڈ میں آگئے تھے اپنے دوست کو یہ بھی بتایا  کے تم  مجھے کتنا پسند کرتے تھے… میں مسکراتی رہی  تم بولتے رہے… پھر ….پھر … اچانک ناجانے تمہیں کیا ہوا اور تم نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے آواز دی …”فلک !!!! ایک بات کہوں؟ میں نے سر ہلاتی ہوئی حامی بھری…. تم نے جھٹ کہا” ایک کِس دونا”””!!!!!! اس ایک جملے کے بعد میرے کان جیسے سُن ہو گئے تھے … میری نظروں میں تم سے آنکھ ملانے کی تاب نہ تھی میں نے گھبرا کی تمہارے دوست کی طرف دیکھا … وہ بھی تمہاری اس بات پر حیران تھا…. سناٹا چاروں طرف پھیل گیا تھا…. میں نے خود پر کنٹرول کیا اور کہا” یہ کیا کہہ رہے ہو؟” تم تو تم تھے بولے بنا  رہتے کیا… تم نے جھٹ جواب دیا تو کیا ہوا دوست سمجھ کر دے دئوں یار … میں نے تھوڑی سخت سی آواز میں جواب دیا” ہم اتنے ایڈوانس نہیں کہ اس طرح کی باتیں سوچے بھی”۔… میری طرف دیکھا اور کچھ کہتے کے تبھی  میں نے تمہیں روک دیا.. پاگل مت بنائو کچھ تو سوچا کر وہ بولنے سے پہلے تم نے میری بات کا جواب دینے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ تمہارے دوسرے دوستوں نے باہر سے آواز لگائی اور تم اللہ حافظ بول کر چلے گئے… تم تو چلے گئے مگر… مگر مجھ پر آگہی کے دروازے کھول کر…. کوئی بھی کام کرنا مشکل ہو گیا تھا.. … دل میں رہ رہ کر ایک عجیب سا درد بھرا تا ہے….. دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے… شرم سے پلکیں جھک جاتی… میں ایک عجیب سی  اینٹھن ہونے لگتی۔۔۔ تم نے یہ کیا کر دیا تھا۔۔۔۔ عمر کے اس پڑائو پر کسی لڑکے کی اس بات پر شاید ہر لڑکی کا یہی حال ہوتا ہوگا میرا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا کے موم کی طرف پگھلی جا رہی تھی… میں ساری رات سو نہیں پائی تھی میں نے ایک نوٹ بک  پر کیء شعر لکھے۔۔۔ تمہارے لیے چند سطریں بھی لکھیں اور اس کو پیارا  سا کور  لگایا۔۔۔۔ اپنے اندر کے اس درد کو قرطاس پہ اتارا تھا اور تمہیں گفٹ ریپ  کے دیا تھا۔۔۔۔۔ دن مہینوں میں بدل گئے۔ تم آتے رہے جاتے رہے…. میری شادی کا وقت قریب آگیا تھا۔۔۔۔ میں تیاریوں میں جٹ گئی بہت کمی تم سے ملاقات ہوتی۔۔۔۔ پر جب بھی ہوتی ہم میں ویسے ہی  ملتے… شادی کا دن بھی آگیا …. میں دلہن بن کر اپنے پیا کے گھر چلی گئی… تمہاری پروا کیے بغیر….. تمہارے درد کو سمجھے بنا ….وہاں جا کر تمہیں یاد بھی نہیں کیا… اپنے نئے گھر سسرال کی ہوگی…      دور ہونے کی وجہ سے پگ پھروں کی رسم کے لیے میں 15 دینوں کے بعد لوٹی…..خوش ہنستی مسکراتی ….  ہر کسی سے ملتی ملاتی سارا دن کیسے گزر گئے پتہ ہی نہیں چلا….دوسرے دن تم پھر میرے سامنے تھے…..  تمہی کسی کے ذریعے پتہ چلا تھا کہ میں آئی ہو… تم مجھ سے ملنے دوڑے چلے آئے… میں بھی تم سے بہت پیار سے ملی پرویسے  نہیں جیسے ہمیشہ ملتی تھی…. ایک جھجک سی اڑے آگئی تھی ..  کوئی بات کرنے بھی ڈر لگنے لگا تھا کے کہیں انہوں نے دیکھ لیا تو کیا سوچیں گے…. شو تم سے ٹھیک سے بات بھی نہیں کر پا رہی تھی تو ادھر اْدھر کی چند باتیں کرکے میں اندر چلی گئی…. تم بہر بیٹھے تھے کتنی ہی دیر…. منٹ گھنٹے ساری شام …. نہ جانے کیا سوچ سوچ کر میں پریشان ہو جا رہی تھی ایک درد سا دل میں ہورہا تھا….میں تمہی اندر بھی نہیں بلا پا رہی تھی …، تمہارے درد کو بانٹنا چاہ رہی تھی … تم سے باتیں کرنا چاہتی تھی… پوچھنا چاہتی تھی کے کیا بات ہے؟ گھر کیوں نہیں جا رہے ہو؟ تم کس کا انتظار کر رہے ہو؟ کیا کہنا چاہتے ہو؟…     پکی ہمت کرکے میں تمہارے پاس چلی آئی ان سے نظریں بچا کر … تم بْجھے دل سے مسکراے … اور کہا…” مل گی  فرصت؟… اب وقت نہیں تمہارے پاس، تم درد بھری انداز میں بولے… تمہارے لہجے کی طرح تمہاری آنکھوں میں بھی شکایت تھی…. سوکھے ہونٹ اور لرزتی آواز میں تم نے کہا تھا” دولت اور  ایجوکیشن دیکھ کر تم نے شادی کی ہے” تبھی تو تمہیں میرا پیار نظر نہیں آیا کبھی …. تم نے مجھے کبھی نہیں سمجھا…. میرے سینے پر برچھی کی مانند اتر گئے ..  تم ایک بار میری طرف موڑ  کے دیکھتی…… ٹوٹی پھوٹی حالت میں بھی ہوتی میں تمہیں لے جاتا اپنے ساتھ….. کبھی الگ نہ ہونے دیتا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنا بنا لیتا ہے…… تم کرب سے مانوکرہ رہے تھے … تمہاری آنکھوں میں اک طوفان تھا… میں کانپ سی گی …  ان تک درد کی تیز لہر دوڑ گئی…. تم نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا…. ہلکے سے دبایا اور کہا…..” خوش رہو جہاں رہوں…..” تم شاید رو پڑتے پر تم اپنے آنسوئوں کو چھپاتے ہوئے جھٹ سے سیڑھیاں اتر گئے…. میں وہیں کھڑی رہ گئی… میرے دل نے شرمندگی سے آنسو بہائیں  پر آنکھوں نے  بہنے سے انکار کردیا…. درد حد سے بڑھا تو آنسو سوکھ  گئے… آج بھی میں وہیں کھڑی ہوں …. جہاں تم چھوڑ گئے تھے…. میرا دل وہیں رہ گیا…تمہارے قدموں میں … میری روح تمہاری راہ تکتی ہے وہیں پر…… میں اپنا پیار وہیں چھوڑ آئی… وہی خوشیاں چھوٹ گئیں…. وہی ہنسیں رہ گئی… ایک زندہ لاش اپنے کروڑوں کے محل میں لوٹ آئی…. محبت کے تاج محل کو اپنے ہاتھ سے چکنا چور کرکے…!۰۰۰۰۰۰۰

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا