نگینہ ناز منصور ساکھرکر
نوی ممبئی
9769600126
روزانہ کی طرح میں اپنی اسکول جانے کی تیاری کرنے لگی اور وہ ہمیشہ کی طرح صبح صبح میرے دروازے پر کھڑا تھا……صبح ایک ہی بس ہوتی تھی جس شہر جاتی تھی ہم سب کو وسیع سفر سے سکول جانا ہوتا… اور شام کو مخصوص وقت میں بس واپس آتی ا سی سے ہم لوٹتے صبح کے ساڑھے آٹھ ہونے کو تھے جونہی بس کے آنے کی آواز آئی تو ہمیشہ کی طرح آواز لگانے لگا نینا بس ….نینا بس .. میں دوڑی دوڑی آئی اور جلدی جلدی بس اڈے کی طرف چل دی…… وہ جب تک رائونڈ لگا کر آتی ہے … میں بس اڈے پہنچ جاتی… میرے ساتھ ساتھ وہ بھی بس اڈے تک آتا…. روز جب تک میں بس میں بیٹھ کر چلی نہیں جاتی وہ ہاتھ ہلا ہلا کر مجھے ٹاٹا کہتا…..نینا اسکول ….نینا اسکول …. اسے میرا نام پکارنا نہیں آتا تھا پر وہ مجھے نینا بلاتا…. بہت پیار سے…….وہ اسکول کبھی نہیں گیا پر مجھے روز سکول کے لیے بس تک چھوڑنے آتا… اس نے کتابیں کبھی نہیں پڑھیں لیکن اکثر میری کتابیں اٹھاتا…… ہاتھ میں نہ دو تو زبردستی کھینچ کے لیتا کبھی کبھی تو ایک گھنٹہ پہلے ہی دروازے کے پاس آکر کھڑا ہو جاتا ۔۔اے بتانے کہ میں لیٹ نہ ہو جاؤں.. بار بار آواز لگاتا…..نینا اسکول … اور سب کہتے دیکھو ریاض آبھی گیا مگر تمہارا کام ختم نہیں ہوتا جب شام ہوتی اور میں واپس لوٹتی تم مجھے وہیں بس اڈے پر کھڑے ملتے ۔۔۔۔۔میرے بس سے اترتے ہی تالی بجانے لگ جاتے سب مجھے دیکھ کر اور تمہاری خوشی دیکھ کر ہنسنے لگ جاتے پر انکی ہنسی میں مذاق نہیں ہوتا کیونکہ تم سے سارا گاؤں پیار کرتا۔۔۔گائوں کیا پڑوس کے گاؤں والے بھی تمہیں جانتے تھے اور پیار کرتے تھے……تھے کیا آج بھی سب تم کو اتنا ہی پیار کرتے ہیں… تم کوئی عام شخص نہیں تھے تم تھے ہمارے گاؤں کے سب سے رئیس شخص کے بیٹے… لاڈلے شہزادے….. روزانہ کی طرح میں اپنی اسکول جانے کی تیاری کرنے لگی اور وہ ہمیشہ کی طرح صبح صبح میرے دروازے پر کھڑا تھا……صبح ایک ہی بس ہوتی تھی جس شہر جاتی تھی ہم سب کو وسیع سفر سے سکول جانا ہوتا… اور شام کو مخصوص وقت میں بس واپس آتی ا سی سے ہم لوٹتے صبح کے ساڑھے آٹھ ہونے کو تھے جونہی بس کے آنے کی آواز آئی تو ہمیشہ کی طرح آواز لگانے لگا نینا بس ….نینا بس .. میں دوڑی دوڑی آئی اور جلدی جلدی بس اڈے کی طرف چل دی…… وہ جب تک رائونڈ لگا کر آتی ہے … میں بس اڈے پہنچ جاتی… میرے ساتھ ساتھ وہ بھی بس اڈے تک آتا…. روز جب تک میں بس میں بیٹھ کر چلی نہیں جاتی وہ ہاتھ ہلا ہلا کر مجھے ٹاٹا کہتا…..نینا اسکول ….نینا اسکول …. اسے میرا نام پکارنا نہیں آتا تھا پر وہ مجھے نینا بلاتا…. بہت پیار سے…….وہ اسکول کبھی نہیں گیا پر مجھے روز سکول کے لیے بس تک چھوڑنے آتا… اس نے کتابیں کبھی نہیں پڑھیں لیکن اکثر میری کتابیں اٹھاتا…… ہاتھ میں نہ دو تو زبردستی کھینچ کے لیتا کبھی کبھی تو ایک گھنٹہ پہلے ہی دروازے کے پاس آکر کھڑا ہو جاتا ۔۔اے بتانے کہ میں لیٹ نہ ہو جاؤں.. بار بار آواز لگاتا…..نینا اسکول … اور سب کہتے دیکھو ریاض آبھی گیا مگر تمہارا کام ختم نہیں ہوتا جب شام ہوتی اور میں واپس لوٹتی تم مجھے وہیں بس اڈے پر کھڑے ملتے ۔۔۔۔۔میرے بس سے اترتے ہی تالی بجانے لگ جاتے سب مجھے دیکھ کر اور تمہاری خوشی دیکھ کر ہنسنے لگ جاتے پر انکی ہنسی میں مذاق نہیں ہوتا کیونکہ تم سے سارا گاؤں پیار کرتا۔۔۔گائوں کیا پڑوس کے گاؤں والے بھی تمہیں جانتے تھے اور پیار کرتے تھے……تھے کیا آج بھی سب تم کو اتنا ہی پیار کرتے ہیں… تم کوئی عام شخص نہیں تھے تم تھے ہمارے گاؤں کے سب سے رئیس شخص کے بیٹے… لاڈلے شہزادے….. خدا سب کچھ دیکر بھی کچھ کمی رکھ دیتا ہے اسی طرح تمہارے ابو کے ساتھ بھی وہی ہوا….. تم کو خدا نے اْن کی گودی میں ڈال کر ایک کمی کا احساس دلادیا ایسا نہیں کہ انہوں نے تمہارا علاج نہیں کیا پر تمہاری دماغی حالت ٹھیک نہ ہوئی…… تم دماغی طورسے کمزور تھے….. تمہیں کپڑے پہننے کا ہوش ہوتا نہ کھانے کا….. نہ نہانے کا…تم دنیا سے بے پرواہ تھے … تم پر ضد سوار ہوتی تم کسی کی نہیں سنتے کل جب تم شانت ہوتے تو بہت پیارے ہوتے.. چھوٹوں سے پیار بڑوں سے لاڑ تمہارے پاس محبت کا خزانہ تھا….. بے فکر زندگی تھی … شام کو لوٹ کر جب میں گھر آتی تم رات تک میرے گھر کے پاس ہوتے کبھی اندر آکر بیٹھ جاتے… جب بچے ٹیوشن کو آتے تم بھی ٹیبل پر آکر بیٹھ جاتے بچے اگر کوئی بات نہیں سنتے … تم دانٹ لگاتے اور بچے ڈر کر پڑھائی کرنے لگتے…… پڑھے لکھے نہیں تھے….. پر پڑھائی کی اہمیت جیسے تم سے زیادہ کوئی نہیں جانتا تھا….. تم بھول نہیں سکتے تھے ہماری طرح ڈانٹ نہیں سکتے تھے…. پر جو بھی تم بولتے میں سمجھ جاتی جو بھی دانٹ پڑتی بچے سمجھ جاتے…. جلدی چھٹی ہوتی … تم سارا دن آس پاس ہی ہوتے…… تمہارا میری طرف زیادہ جھکاؤ دیکھ کر مشتاق انکل اکثر تم سے پوچھتے …. کیا نینا سے شادی کروگے ؟؟؟؟؟اور تم اپنے ہاتھوں سے گھونگھٹ سا بناکر شرما کر کہتے””نینا میری دلہن ” سب پڑوسی بھی مجھے نینا ہی بلانے لگے تھے تم ہاتھ کا اشارہ کیا کہتے نینا کو کان کے بناؤں گا ۔۔۔بندیا پہناؤں گا…. تمہارا دیا ہوا یہ نام مجھے بہت اچھا لگتا …. مشتاق انکل کہتے نینا تم ریا ض سے شادی کر لو۔۔۔۔۔ تمہاری شادی کا سارا خرچہ میں اٹھاؤں گا اور بہت کچھ دوں گا تمھیں….. بس اسے خوش رکھو… اور میں ہنس کے تمہارا ہاتھ پکڑتی اور کہتی میںتھتوڑی اسکو چھوڑ کر کہیں جانے والی ہوں….. میرے اردگرد تالی بجانے گھومتے…. تمہاری رضیہ آپا سے ایک دن مجھے ملایا تھا تم نے جب میں گھر کے باہر کھڑی تھی تم مجھے گھر کے پاس لے گئے تھے… اور ان سے کہا تھا "”نینا میری دلہن "”” سب ہنس پڑے تھے میں بھی پر شاید اس وقت تمہاری محبت کو میں یا کوئی اور کیا سمجھتا ہمارے لیے تو ایک مذاق تھا پر تمہارے لئے محبّت وقت کا پہیہ گھومتا گیا پر تمہاری محبت وقت کے ساتھ بڑھتی گئی تمہاری دیوانگی بھی… میں اپنے گارڈن میں کچھ کیاریوں کے ساتھ کر رہی ہوتی تو تم بھی کمر کے پیچھے ہاتھ باندھ کر چکر لگا رہے ہوتے کبھی کبھی کچھ بڑبڑاتے….. پھولوں کا شوق مجھے بہت تھا. گارڈن میں گلابوں اور طرح طرح کی پھولوں کے پودے تھے کبھی تو تم ان پھولوں میں سے پھول نکال کر میرے بالوں میں زبردستی لگاتے جیسے تمہارا دل سب سمجھتا ھو کہ اپنی محبوبہ کو کس انداز سے خوش کرتے ہیں…. اور تمہاری یہ حرکت دیکھ کر بھیا ،باجی سب ہنستے …. مذاق کرتے میں تمہیں کچھ نہیں کہتے میں بھی تمہیں کچھ نہیں کہتی ناجانے کیوں پر مجھے لگتا محبت سے کیا گیا برتاؤ تمہیں ٹھیک کر دیگا تم کو گانے سننے کا بہت شوق تھا جہاں ریڈیو آن ہوتا تم وہی ملتے شادی ہوئی عید یا کہیں پر میت تم سب سے پہلے وہی ہوتے ہو غم کے ماحول میں غمگین… خوشی کے ماحول میں خوش….. دنیا کی سمجھ غم میں بھی تھی… آج تمہارا ذکر یہاں کر تو رہی ہوں پر جانتی ہوں کہ تم نہیں پڑھو گے…. نہ تم تک میری بات پہنچے گی… پر اپنے دل کی یہ بات ان لوگوں تک ضرور پہنچا پاؤنگی جو کمزور دماغ والوں کو ناکارہ سمجھتے ہیں…. ان کی فیلینگ کی عزت نہیں کرتے….. تم کو پتہ تھا عید پر گلے ملتے ہیں تم عید میں سب سے گلے ملتے… مجھ پر بھی سب ہنستے پر میں تمہارے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتی… تم بھی میری پیٹھ تھپتھپاتے جیسے اپنی محبت پیار اور لاڑ کا اظہار کررہے ہوتے….. جب تم خاص موقعوں پر تیار ہوتے بہت پیارے لگتے صاف ستھرے کپڑے پہن کر مجھے دکھانے آتے ،” نینا واہ واہ "!!!!!!!!! تم اپنی خوشی کا اظہار کرتے پر میں تم کو اشارہ کرکے اچھے دیکھ رہے ہو کر کے سمجھاتی تمہارا پیار تب شاید میرے لئے اہمیت نہیں رکھتا تھا لیکن آج اتنے سالوں بعد میں نے دنیا کو قریب سے جانا ہے… محبت کو پہچانا ہے…. اونچ نیچ سمجھی ہیں …فرق کو محسوس کیا ہے…. اصلی محبت بے لوث محبت تو تم کرتے ہو مجھ سے … شادی کے اتنے سالوں بعد بھی جب میری ملاقات تم سے ہوتی ہے … تم کہتے ہو "!!!نینا میری دلہن”!!!!! اور اب بھی میرے چہرے پر وہی مسکان ابھر آتی ہے … اب عید پر ہم نہیں ملتے پر جب بھی ملتے ہیں جیسے بچھڑے ملتے ہیں ایسے تو گلے ملتے ہو اور ویسے ہی پیٹھ تھپتھپاتے ہو اب میرے بچے بھی تم کو جانتے ہیں اور وہ تم بھی انکو ….. تمہیں کوئی فکر نہیں کے وہ کیا کہیں گے.. بچے کیا سوچیں گے تم ویسے ہی ہو تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میری شادی ہو گئی ہے اب یہ شاید میرے بعد تمہارے جذبات کو سمجھنے والا کوئی تھا یا نہیں… … مجھے یاد ہے میری شادی کے بعد جب میں آئی توتم نہیں آئے مجھ سے ملنے میں نے بھائی کو بول کر تمہیں بلا بھیجا تھا ….تم آئے تو مگر تم نے اپنے غصّے اور ناراضگی کا اظہار کیا تھا ہاتھ ہلا ہلا کر کہا تھا …. جاجا….. جاجا اور انکی جانب دھکّا دیا اور منہ ہی منہ میں نہ جانے کیا بر بڑا نے لگے تھے…ہم سب سمجھ گئے تھے کہ تم ناراض ہو میری شادی سے ۔۔۔۔۔۔ناخوش ہوں تمہیں دکھ ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے پیار سے تمہاری پیٹھ پر ہاتھ رکھا تھا پر تم نے ناراضگی سے انہیں دھکّا دیا تھا…. کہ بھائی پر بھی چلّا پڑے … چلے گئے… تم بول نہیں سکتے تھے مگر تمھارے انداز نے بتادیا تھا کہ تم کیا کہنا چاہتے ہو….وقت گئے تمہارا غصہ تو ٹھنڈا ہوا پر پیار شاید اب بھی ہے..، تم کو فرق نہیں پڑتا کہ میں پڑھی لکھی ہوں یہ ان پڑھ کالی ہو یا گوری موتی ہوئی پتلی جوان یا بوڑھی … تمہارے لیے تو آج بھی میں وہی نینا ہوں … دنیاکی بھیڑ میں جب سچی محبت کی تلاش شروع کی تو بے لوث ،بے غرض محبت مجھے صرف تم میں دکھائی دی۔۔ وقت نے تم پر بھی اپنی چھاپ چھوڑی ہے … اور زیادہ بیمار ہو گئے .ہو … پر جب میں اس بار تم سے ملی تھی تو تم موبائل ہاتھوں میں لیے. قوالی سن رہے تھے…. میری آواز پر مڑے اور بلانے پر پاس آئے۔۔ ویسے ہی ہاتھ ملایا گلے ملے اور میری بیٹی کو دیکھ کر ہاتھ ہلایا .، او ر کہا جاجا ….. میں سمجھ گئی تو کیا ہوا کہ محبت باقی ہیں پر ناراضگی بھی گئی نہیں… میری گاڑی میں بیٹھ کر گور تک آنے تک تم ہاتھ ہلاتے رہے ویسے ہی جیسے پہلے ہلاتے تھے۔۔۔ میں نے تو یہی سوچ لیا تھا کہ میری زندگی کے ذکر میں ایک ذکر تمہارا ضرور ہوگا … تو آج میں نے تمہاری محبت کو پنوں میں اتارا ہے اور تم پڑھ بھی نہیں سکتے… میں ہمیشہ کہتی ہوں محبت مجھ سے تم سے زیادہ شدت اور سچائی سے کسی نے نہیں کی ہو گی صرف ریاض ایک سچی محبت۔۔۔!