بطور احتجاج پہلا صفحہ خالی نکالا:کشمیر ایڈیٹرس گلڈ اور دیگر صحافیوںکا پریس کلب سرینگرمیں احتجاج
کے این ایس
سرینگرریاست جموںکشمیر کے کثیر اشاعت والے انگریزی روزمامہ گریٹر کشمیر اور کشمیر ریڈر نامی اخبارات کوجاری سرکاری اشتہارات نامعلوم وجوہات کی بنا پر روک دینے کے فیصلے خلاف وادی سے شائع ہونے والے تقریباً تمام بڑے اخبارات نے حکومتی فیصلے کے خلاف غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے اتوار کو اخبارات کے پہلے صفحے کو خالی شائع کیا۔ادھر کشمیر ایڈیٹرس گلڈ اور دیگرصحافتی برادری نے سرکاری فیصلے کےخلاف پریس کلب سرینگر میں احتجاج کرتے ہورہے اشتہارات سے متعلق روکتھام کے فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ ادھر ریاست کی سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے بھی معروف انگریزی روز نامہ گریٹر کشمیر کے سرکاری اشتہارات روکنے پر سرکاری فیصلے کی تنقید کی ہے ۔کشمیر نیوز سروس (کے این ایس ) کے مطابق ریاست جموں کشمیرسے سب سے زیادہ تعدادمیں شائع ہونے ولاانگریزی روز نامہ گریٹر کشمیر اور روزنامہ کشمیر ریڈر کی سرکاری اشتہار ات کو سرکاری کی جانب سے نا معلوم وجوہات کی بناءپر روکنے کے فیصلے کے خلاف وادی سے شائع ہونے بیشتراردو اور انگریزی روز ناموں نے اتوار کو اپنا پہلا صفحہ بطور احتجاج خالی نکالاجس پر کوئی بھی خبرتحریر نہیں ہو ئی تھی۔ اس دوران اتوار کی دوپہر1بجے کے قریب کشمیر ایڈٹرس گلڈ اور وادی کے صحافیوں کی ایک بڑی تعداد نے پریس کلب سرینگر میں جمع ہو کر دونوں روزناموں کے خلاف بلا کسی وجہ سرکاری اشتہارات بند کرنے کے خلاف زوردار احتجاج کر کے پابندی کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ۔اس دوران کشمیر ایٹرس گلڈ کے ایک ممبر نے یہاں موجود میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہاکہ اگر چہ پابندی کے حوالے سے سرکار کو مطلع بھی کیا گیا تاہم ان کی طرف سے تاحال پابندی نہیں ہٹائی گئی ۔گلڈ کے مطابق ریاست جموں کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک نے وادی سے کثیر اشاعت والے انگریزی روزنامہ گریٹر کشمیر اور کشمیر ریڈر کے سرکاری اشتہارات پر ماہ فروری میںبلا کسی وجہ پابندی عائد کی ہے جس پر وادی کے صحافتی برادری نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ اس دوران یہاں سے شائع ہونے والے بیشتر اردو اور انگریزی اخبارات نے اتوار کو پہلا صفحہ بطور احتجاج خالی شائع کرتے ہوئے اپنا احتجاج درج کیا۔ادھر ریاست کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی ریاست کے معروف اور معتبر انگریزی روز نامہ گریٹر کشمیر کو سرکاری اشتہار ات کی پابندی پر سرکار کی کڑی نکتہ چینی کی ہے۔ ادھر گلڈ سے وابستہ بشیر منظر نے بتایاکہ اس طرح کے فیصلے سٹیٹ اور یہاں کی صحافت کو متاثر کر سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مسئلہ کو پہلے ہی پرس کونسل آف انڈیا کے ساتھ اُٹھا یا جاچکاہے ۔