نماز جمعہ کے بعد صدائے احتجاج بلند کیا جائے: مشترکہ مزاحمتی قیادت
کے این ایس
سرینگرمشترکہ مزاحمتی قیادت نے جماعت اسلامی پر پابندی، پشتنی باشندگی قانون 35Aکے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور مزاحمتی لیڈران کو این آئی اے اور ای ڈی کے ذریعے خوفزدہ اور ہراساں کرنے کی کارروائیوں کو اوچھے ہتھکنڈوں سے تعبیر کرتے ہوئے 8مارچ بعد نماز جمعہ منظم اور پرامن احتجاج کی اپیل کرتے ہوئے علمائے کرام، ائمہ مساجد، خطیب اور امام حضرات پر زور دیا ہے کہ وہ نماز جمعہ کے خطبوں میں اور بعد از نماز جمعہ ان عوام کُش اور کشمیر دشمن پالیسیوں کیخلاف صدائے احتجاج بلند کریں۔ کشمیرنیوز سروس (کے این ایس) کے مطابق مشترکہ مزاحمتی قیادت سید علی شاہ گیلانی ، میرواعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے کشمیر کی ایک مو¿قر دینی و سیاسی تنظیم جماعت اسلامی پر پانچ سالہ پابندی اور اس تنظیم کو غیر قانونی قرار دینے، ریاستی پشتنی باشندگی قانون کے ساتھ مختلف طریقوں سے چھیڑ خوانی اور اس دفعہ کو عدالتی ذرائع سے کالعدم قرار دینے کی درپردہ کوششوں اورکشمیر کی مزاحمتی قیادت کواین آئی ائے اور انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کے ذریعے خوفزدہ کرنے یا ان کیخلاف دھونس دباﺅ کی پالیسی اختیار کرنے کے حربوںکو یہاںکے عوام کی جائز جدوجہد کو دبانے کے اوچھے ہتھکنڈے قرار دیتے ہوئے جمعتہ المبارک 8 مارچ2019ءکو بعداز نماز جمعہ منظم اور پر امن احتجاج کی اپیل کرتے ہوئے تمام علمائے کرام، ائمہ جمعہ والجماعت ،خطیب و امام حضرات پر زور دیا ہے کہ وہ نماز جمعہ کے خطبوں میں اور بعد از نماز جمعہ ان عوام کُش اور کشمیر دشمن پالیسیوں کیخلاف صدائے احتجاج بلند کریں اور حکومت ہندوستان پر واضح کریں کہ لاکھوں شہیدوں کے خون سے مزین تحریک آزادی کو غیر انسانی اور غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے دبانے کا عمل کبھی بھی کارگر ثابت نہیں ہوسکتا۔قائدین نے کہا کہ مزاحمتی قائدین اور کارکنوں کو تھانہ و خانہ نظر بند کرکے ان کی سیاسی مکانیت کو مسدود کرنے کے حربے یہ سب یہاں کی مزاحمتی قیادت اور عوام کو اپنی جائز جدوجہد اور حقوق کی بازیابی کی تحریک سے روکنے کے غیر جمہوری، غیر انaxسانی اور سیاسی بالادستی سے عبارت ہتھکنڈے ہیں جنس ے ڈر کر یا خوفزدہ ہوکر یہاں کی حریت پسند قیادت اور عوام اپنے جائز مطالبوںسے دستبردار نہیں ہو سکتے۔انہوںنے کہا کہ نہ تو دھونس دباﺅ، گرفتاریوں، قدغنوں اور ہراسانیوں کی پالیسیوں سے اور نہ وسیع پیمانے پر حریت پسندوں کیخلاف کریک ڈاﺅن کرنے سے حریت پسند قیادت اور عوام کے حوصلوں کو شکست دی جاسکتی ہے اور نہ جنگی جنون کا ماحول برپا کرکے اس عالمی سطح پر تسلیم شدہ مسئلہ کی تاریخی حیثیت اور ہیئت سے عالمی برادری کی توجہ ہٹائی جاسکتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر اس پورے خطے کے دائمی امن میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور بھارت کی ارباب سیاست کو چاہئے کہ وہ کشمیر میں مار دھاڑ، قتل و غارتگری کی پالیسی اختیار کرنے کے بجائے اس دیرینہ تنازعہ کو یہاں کے عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرنے کیلئے ایک سازگار ماحول تیار کریں۔انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان جیسی جوہری مملکتوں میں موجودہ تناﺅ اور کشیدگی کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر ہی ہے اور اس مسئلہ کی وجہ سے کشمیر اور بیرون کشمیر گزشتہ سات دہائیوں سے ہو رہی خونریزی کو روکنے کیلئے اس مسئلہ کا منصفانہ حل تلاش کرنا ناگزیر بن گیا ہے اور یہ بات دونوں ہمسایہ ممالک اور اس خطے کے کروڑوں عوام کے مجموعی مفاد میں ہے کہ اس مسئلہ کو ترجیحی بنیادوںپر حل کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں۔