پوری دنیا آج ٹی وی مباحثے پر چل رہی ہے : پروفیسر شافع قدوائی
شعبئہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام “اردو صحافت کا عصری منظر نامہ ” موضوع پر فراق یادگاری خطبے کا انعقاد
لازوال ڈیسک
نئی دہلیشعبئہ اُردو ،جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان کے تعاون سے ٹیگور ہال، دیار میرتقی میر میں “اردو صحافت کا عصری منظر نامہ ” کے موضوع پر پروفیسر شافع قدوائی نے فراق یادگاری خطبہ پیش کیا جس کی صدارت پروفیسر شہناز انجم نے اور نظامت پروفیسر کوثر مظہری نے کی ۔صدر ،شعبئہ اُردو پروفیسر شہزاد انجم نے تمام شرکاءاو ر مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کی عصری معنویت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ میڈیا ہی وہ ذریعہ ہے جو وقت او رحالات کے منفی دھارے کو بدل سکتا ہے ۔پروفیسر کوثر مظہری نے فراق گورکھپوری کی شخصیت ،شاعری اور ان کی تنقید کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی اور پروفیسر شافع قدوائی کا تعارف کراتے ہوئے ان کے علمی کارناموں پر روشنی ڈالی ۔ پروفیسر شافع قدوائی نے اپنے خطبے کے آغاز میں عالمی صحافت کے مزاج و منہاج کے تعلق سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ صحافت کا بنیادی مقصد سچ کو سامنے لانا ہے مگر پوری دنیا آج ٹی وی مباحثے پر چل رہی ہے او رمیڈیا نے ہمارے بنیادی تصورات کو چھین لیا ہے ۔ٹی وی چینلز کے اینکر اپنی رائے نہیں رکھتے بلکہ جواب دیتے ہیں،اب واقع پرنہیں بلکہ کسی کے ٹوئٹ پر مباحثے ہوتے ہیں۔ صحافت اب ایک مشن نہیں بلکہ کاروبار اور تجارت بن کر رہ گیا ہے ۔ جدید اطلاعاتی ٹکٹنا لوجی نے انسان کو با اختیار کیا ہے جس کی وجہ سے موجودہ دور میں میڈیا کا ایک نیا منظر نامہ سامنے آیا ہے جو سابقہ صحافت سے یکسر مختلف ہے ۔ پروفیسر قدوائی نے موجودہ صحافت سے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے مشن اور مقصد سے منحرف ہو گئی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ آج کا میڈیا جو کہہ رہا ہے وہی سچ ہے ، ہمیں نہیں معلوم کہ اصل سچائی کیا ہے ۔ پروفیسر قدوائی نے اردو صحافت کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اردو اخبارات کا ماضی انتہائی تابناک تھا جو اطلاعات کے ساتھ ساتھ معلومات میں بھی اضافہ کر رہے تھے اور عوامی تفریح کا خیال بھی کرتے تھے لیکن رفتہ رفتہ اردو صحافت کے مزاج میں تبدیلی رونما ہوتی گئی اور صحافت مشن سے ہٹ کر تجارت کا ذریعہ بن گئی ۔ اُردو صحافت میں اب جذباتی اشتعال انگیزی نہیں ہے ،اُردو کے اخبارات نئی ٹیکنا لوجی کی طرف گامزن ہیں مگر زبان کی سطح پر ضرور گراوٹ آئی ہے ۔ اُردو صحافت ہمیشہ سے احتجاج کی صحافت رہی ہے ۔ صحافت کے انحطاط پر گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر قدوائی نے کہا کہ پہلے خبروں کے ساتھ ساتھ اقدار کی پاسداری کا خیال رکھا جاتا تھا اور بد عنوانی و مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند ہوتی تھی لیکن آج حالات قدرے مختلف ہیں ۔ اردو صحافت کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے انھوں نے اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا کہ ۷۵۸۱سے لے کر ۷۴۹۱ تک کے طویل عرصے میں اردو صحافت نے عوام کو تذبذب ،کشمکش اور اعصاب شکن حالات سے نکال کر مثبت رہنمائی کی لیکن عصری صحافت ہمارے دل و دماغ پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہے ، پروفیسر قدوائی نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ اردو صحافت میں زبان اور ترجمے کی سطح پر کافی گراوٹ آئی ہے جسے اردو صحافت کے لیے فال نیک نہیں کہا جا سکتا ۔ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ ماضی کے مقابلے میں عصری صحافت میں جذبات کے بجائے تعقل پسندی کے ساتھ ساتھ اس کے دائرہ کار میں نمایاں تبدیلی رونما ہوئی ہے ۔ اس میں سائنس ،سماجیات ،اقتصادیات کے علاوہ تمام شعبہ ہائے زندگی کی رمق نظر آتی ہے جو اس کے روشن مستقبل کی ضامن ہے ۔اس موقع پر معروف نقاد و دانشور پروفیسر شمیم حنفی نے بھی اظہار خیال کیا اور فرمایا کہ ادب او ر صحافت میں اب اتنا فاصلہ نہیں ہے ۔دنیا میں بہت سے ایسے صحافی گزرے ہیں جن کا ادب میں بڑا مقام ہے ۔مولانا ابوالکلام آزاد ، انتظار حسین اور سلیم احمد اس کی مثال ہیں ۔پروفیسر شافع قدوائی کا خطبہ بڑاپُرمغز اور عمدہ تھا ۔ انھوں نے معنی خیز گفتگوکی ۔ میں انھیں اس اعلیٰ خطبے کے لیے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر شہناز انجم نے کہا کہ موجودہ صحافت نے تہذیبی اور اخلاقی اقدار کو پامال کرکے رکھ دیا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ میڈیا نے زندگی کے معنی ہی بدل دیے ہیں ۔ اب پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا میں خرید و فروخت کی خبروں کو زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے ۔ پروفیسر شہناز انجم نے اردو اخبارات کی زبان پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس پر توجہ نہیں دی گئی تو نسل ایک بہت بڑی دولت سے محروم ہو جائے گی ۔ اس یادگاری خطبے کے کنوینر ،فیکلٹی آف ہیومنٹیز اور لینگویجز کے ڈین، پروفیسر وہاج الدین علوی نے آخر میں شکریے کی ادائیگی کے ساتھ موضوع کی اہمیت پر زیادہ زور دیا اور پروفیسر شافع قدوائی کی بصیرت افروز خطبے کو انتہائی مفید اور کار آمد بتایا ۔ پروگرام کا آغاز ڈاکٹر شاہنواز فیاض کی تلاوت کلام پاک سے ہوا ۔ اس موقع پر بڑی تعداد میں شرکا موجود تھے جن میں پروفیسر خالد محمود ، انجم عثمانی ، ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی ، پروفیسر شہپر رسول ، پروفیسر احمد محفوظ ،پروفیسر عبد الرشید ، ڈاکٹر خالد جاوید ، ڈاکٹر ندیم احمد ، ڈاکٹرعمران احمد عندلیب ، ڈاکٹر سرورالہدی ، ڈاکٹرخالد مبشر ، ڈاکٹرمشیر احمد، ڈاکٹر سید تنویر حسین ، ڈاکٹرشمع افروز زیدی ، ڈاکٹرنو شاد عالم ، ڈاکٹرحنا آفریں ، ڈاکٹر ابو ظہیر ربّانی ،خان محمد رضوان ، سلمان عبدالصمد، ڈاکٹرمحمد آدم ، ڈاکٹر ابولکلام عارف، ڈاکٹرثاقب عمران ، ڈاکٹرجاوید حسن، ڈاکٹرنعمان قیصر ، ڈاکٹر سمیع احمد ، ڈاکٹر عادل حیات ، ڈاکٹر محمد مقیم ، ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی ، ڈاکٹر سلطانہ فاطمہ واحدی ،ڈاکٹر شاداب تبسم وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔