جہاں بھر میں دولت کا ثانی نہیں ہے
مگر اہلِ دل اس کا حامی نہیں ہے
بہت عشق کی وادیوں میں پھرا ہوں
مجھے زندگی اب گنوانی نہیں ہے
نہ ہو موجِ الفت اگر دل کے اندر
جوانی کوئی پھر جوانی نہیں ہے
کوئی اُس کو لکھّے تو لکھّے بھی کیونکر
”مرا عشق رنگیں کہانی نہیں ہے“
میں خوددار شاعر ہوں اپنی وضع کا
مرے فکروفن میں غلامی نہیں ہے
سدا فکر سو دو زیاں کی ہو جس میں
کوئی کام کی زندگانی نہیں ہے
سخن ور یہ سالک ہے تیری بدولت
کسی اور کی مہربانی نہیں ہے