آب زم زم 

0
0

محمد ارشد

7006909305

بڈھا وزیر پلنگ پر سونے کو جیسے ہی جھکا دوسرے کمرے سے بچوں کی لاڈلی سی پر جوش باتوںکی آواز سنائی دینے لگی۔ وہ یکدم کھڑا ہوگیا ۔ اس کو معلوم تھا کہ اس وقت فون کرنے والا خالد ہی ہے۔ خالد اس کا سب سے چھوٹا لڑکا جو سات سال پہلے پیٹ کی خاطر سعودی عرب گیا تھا۔ اب کچھ ہی دنوں میں واپس آنے والا ہے۔ یہ فون یقینا گھر کے تمام لوگوں کی خواہش پر ان کی من پسند چیزوں کو لانے کے لئے کیا ہے۔ بڈھا اس فون کا انتظار پچھلے کئی سالوں سے کر رہا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ لڑکھڑاتا ہوا دوسرے کمرے کے دروازے کی ایک طرف کھڑا ہوگیا۔ اندر سب لوگ اپنی اپنی من پسند چیزوں کے نام گنا رہے تھے۔ وزیر کو معلوم تھا کہ آخر میں ہی سہی مگر اس کو ضرور بلایا جائے گا۔ اس لئے وہ وہیں دروازے کے ایک کونے میں بت کی مانند کھڑا بلاوے کا انتظار کرنے لگا۔ وقت گزرتا گیا مگر ان کی من پسند چیزوں کی فہرست ختم نہ ہوئی۔ وہ کھڑے کھڑے تھک چکا تھا ۔اس نے کئی بار چاہا کہ وہ اندر جائے اور بچوں کے ہاتھ سے فون چھین کر اپنے بیٹے سے بات کرے مگر اس کے پاس اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ بچوں کا سامنا کر پائے۔ ہمت تھی تو صرف انتظار کرنے کی اور وہی وہ کرتا رہا۔  اچانک کمرے میں سے خوش لہجے میںایک شور بلند ہوا۔ وزیر نے دروازے سے جھانک کر دیکھا بہو اور بچے اپنی من پسند چیزوں کے انتظار میں جھوم رہے تھے۔ وزیر نے اداسی میں نظروں سے جلدی جلدی فون کو تلاش کیا۔ فون ایک ٹیبل پر بند پڑا تھا ۔ یہ دیکھتے ہی بڈھے کے دل پر ایک دھکہ سا لگا۔ گویا ایک ہی پل میں بیٹے نے باپ کو لات مار دی ہو۔ وہ اپنے کمرے کی طرف دو چار قدم بڑھا مگر پھر رک گیا۔ اس کے ذہن میں آیا وہ کیوں نا ایک دفعہ بہو سے پوچھ لے۔ وہ پیچھے پلٹا اور سیدھے بہوکے سامنے کھڑا ہوگیا۔ ”رضو خالد کا فون آیا تھا کیا؟“ وزیر نے ندامت سے سوال کیا۔ ”ہاں ابو ابھی تو آیا تھا مگر کٹ گیا“ رضوانا نے جواب دیا”باتیں ہوئی تھی کچھ؟“”ہاں سب سے ہوئی مگر آدھے میں فون کٹ گیا“”اچھا کب آرہے ہیں؟“”کل شام کو جدھا سے فلائٹ ہے“  ”اچھی بات ہے“ یہ کہتے ہی وزیر نے بڑی لاچاری سے اپنی نظریں رضوانا کے چہرے سے زمین پر گرا دیں۔ اور بڑی مایوسی کے عالم میں دروازے کی طرف پلٹ دیا۔ ” ابو فون شاید پھر آئے گا آپ سے میں باتیں ضرور کرواں گی“ رضوانا نے ایک بزرگ باپ کے درد کو محسوس کرتے ہوے کہا۔مگر وزیر ایک لاچار مریض کی طرح خاموش دروازے سے نکل گیا۔ وزیر غمزدہ دل لئے ہوئے پلنگ پر جاکر لیٹ گیا۔ لیٹتے ہی وہ کئی طرح کی خیالوں میں کھو گیا۔ایک باپ آخر ہوتا کیا ہے ۔جتنی بھی اولاد سے محبت کرو بچوں کے دلوں میں باپ کے لئے کوئی جگہ نہیں رہتی۔ اس دور میں تو نئی نسل کو باپ کی کوئی پرواہ ہی نہیں۔ اس طرح کے کئی خیالات اس کے ذہن میں پیدا ہوئے۔ وہ کافی عرصے تک اس طرح کے خیالوں سے دل کی آگ کو بجھانے کی کوشش کرتا رہا۔ پھر اچانک اس کے ذہن میں آیا کہ خالد اس کا وہی بیٹا ہے جس نے اپنی ماں کی بیماری پر لاکھوں رپیے خرچ کر دئے تھے۔ اگر ماں پر اتنے خرچ کر سکتا ہے تو میرے بارے میں ضرور سوچتا ہوگا۔ وہ یقینا مجھے نظر انداز نہیں کر سکتا۔ میرے لئے آب زم زم کیا اہمیت رکھتا ہے اسے پتہ ہے۔ ویسے بھی وہ سعودی عرب سے آرہا ہے آب زم زم تو ضرور لائے گا۔ انہیں خیالوں میں کھوئے کھوئے اس کی آنکھیں بند ہوگئی۔ صبح اٹھتے ہی وہ بہو سے مخاطب ہوا۔ ”رضو خالد کا فون اس کے بعد آیا تھا کیا؟“وزیر نے اپنی لالچ کو چھپاتے ہوئے کہا۔”میں رات بھر فون کا انتظار کرتی رہی مگر نہیں آیا“ ”آج تو نکل آیا ہوگا نا“”شاید ! مگر ابو آپ بے فکر رہئے آب زم زم وہ ضرور لائیں گے“” چلو اب اگر نہ بھی لایا تو کیا کر سکتے ہیں“” نہیں نہیں! آپ یقین رکھئے ۔اس کو معلوم ہے کہ آپ کی بیماری کا علاج صرف اور صرف آب زم زم ہے“ ”ہاں بتایا تو بہت بار ہے مگر اس نے یاد دلانے کے لئے بھی کہا تھا“” آپ ان کے باپ ہیں اتنی بات تو یادرہے گی نا“” ﷲ کرے بس یہی بات یاد رہے“” اس کا باپ سائنس نے بے علاج کردیا ہے اب آب زم زم آخری امید ہے ۔اتنا تو وہ کبھی نہیں بھول سکتے ہیں یہ لیجئے آپ چائے پیجئے مجھے ابھی پورے گھر کی صفائی کرنی ہے۔“وزیر بہو کے ہاتھ سے چائے لیکر باہر صخن کی طرف نکل گیا۔ ابھی دھوپ پوری طرح سے شباب پر نہ آئی تھی ۔ وزیر نے نیلے صاف آسمان کو دیکھ کر دل میں راحت محسوس کی۔ جو بھی شک و شبہ تھا اس کو رضوانا نے دور کردیا تھا۔ اب اس کو یقین تھا کہ خالد اس کے لئے آب زم زم ضرور لے کر آئے گا۔  منگل کی صبح کو ان کے گھر کے سامنے گاڑی رکنے کی آواز آئی۔ گھر کے تمام افراد وزیر سمیت دوڑتے ہوئے باہر آئے۔ خالد سفید کپڑوں میں ملبوس سر پر رومال باندھے ہوئے گاڑی کے اوپر چڑا سامان نیچے اتار رہا تھا ۔ بچوں نے یہ دیکھتے ہی نعرے بلند کئے اور گاڑی کے اوپر ہی خالد میاں سے لپٹ گئے۔ خالد نے بڑے پیار سے ایک ایک کو اٹھا کر گلے سے لگایا۔گاڑی کا سامان اتارنے کے بعد خالد نیچے اتر کر ڈرایﺅر کے ساتھ مشغول ہوگیا۔ وزیر دور ایک کونے میں کھڑا خالد کو پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا۔ خالد اب وہ ہڈیوں کا ڈانچہ نہیں تھا بلکہ گوشت سے بھرا ہوا تھا۔ وزیر کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسوں ٹپک رہے تھے۔ ڈرائیور سے فارغ ہوتے ہی خالد کی نظریں باپ پر پڑیں۔ اسے فوراً جھٹکا سا لگا ۔ جب وہ گیا تھا تو باپ اچھا حاصا صحت مند تھا مگر اب گوشت کہیں غائب ہو چکا تھا ۔چہرے پر جھریاں پڑ چکی تھیں۔ ہڈیاں ابھر کر چمڑی سے باہر جھانک ری تھیں۔ کمزور آنکھوں سے آنسوں کسی آبشار کی طرح بڑی تیزی سے ٹپک رہے تھے، خالد نے باپ کی اس حالت پر سر جھکا کر افسوس جتایا۔ پھر کچھ ہی لمحوں کے بعد وہ باپ کے گلے سے لپٹ گیا۔ باپ نے اس چھوٹے سے لمحے میں دنیا کی ساری راحتوں کو محسوس کرلیا۔ اسے احساس ہوا کہ وہ جو کچھ بھی خالد کے بارے میں سوچتا تھا سب فضول تھا۔ باپ نے اس دوران وہ تمام آنسوں جو پچھلے کئی سالوں سے اس کے اندر جمع تھے سب کو بہا دیا۔ ۔ بڑی مشکل سے بچوں کی ضد پر باپ نے خالد کو فارغ کیا۔ اس کے بعد رات تک لوگوں کی آمدورفت جاری رہی۔  رات کے کھانے کے بعد خالد نے تمام اہل خانہ کو ایک کمرے میں جمع ہونے کا حکم سنا دیا۔ سارا اہل خانہ اپنی اپنی من پسند چیزوں کو حاصل کرنے کی خوشی میں بے چین تھا۔ خالد نے سارے بیگ اور صندوق ایک جگہ جمع کئے۔ وزیر اور رضوانا بھی اپنی اپنی چیزوں کے انتظار میں کافی بے چین تھے مگر ان کے اندر صبر کا مادہ زیادہ تھا اس لئے ذرا دور کرسیوں پر بیٹھ کر تماشا دیکھنے لگے۔ خالد نے اپنے بیگ کھول کر سب سے پہلے بچوں کو ان کے کھلونے اور کپڑے عطا کئے۔ بدلے میں بچوں سے خالد نے پپیاں لیں۔ بچے اپنی اپنی چیزوں کو لیکر وہاں سے نو دو گیارہ ہوگئے۔ اب خالد نے رضوانا کو مدعو کیا اور ایک ایک چیز کھول کر اس کے سامنے رکھ دی ۔ وزیر کافی عرصے تک وہیں کرسی پر بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرتا رہا ۔مگر تاخیر مسلسل ہوتی رہی۔ سامان بھی لگ بھگ پوارا کھل چکا تھا۔ اس کو یقین ہوگیا کہ اب اس کا یہاں بیٹھنا بے کار ہے۔ وہ مایوسی کے عالم میں آہستہ سے کھڑا ہوکر اپنے کمرے میں چلا آیا۔ خالد اور رضوانہ اپنے ہی کاموں میں مصروف تھے۔ وزیر جیسے ہی پلنگ پر بیٹھا اس کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسوں بہنے لگے۔ وہ آج کھل کر اور با آواز بلند چیخ چیخ کر رونا چاہتا تھا مگر اس نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ ایک بیٹا سات سال کے بعد گھر واپس آیا اور اپنے باپ کے لئے آب زم زم نہیں لایا جو اس کے جینے کے لئے بے حد ضروری تھا۔ آب زم زم تو ایک طرف کچھ بھی نہیں لایا۔ ایسے میں آنسوں بہانا تو فطری تھا۔ وزیر اسی سوچ میں گھم تھا کہ اچانک دروازے پر کسی نے دستک دی۔ وزیر نے جلدی سے اپنے آنسوں پونچھے اوراندر آنے کے لئے آواز لگائی۔ خالد ایک بیگ لئے کمرے میں داخل ہوا۔ ”ابو یہ آپ کے لئے“ بس اتنا کہتے ہی وہ دروازے سے باہر نکل گیا۔ وزیر کے اندر شرمندگی کی ایک لہر سی دوڑ پڑی۔ کچھ دیر تک سوچنے کے بعد اس نے وہ بیگ کھولا ۔ اس میں ایک رومال دو سوٹ کپڑوں کے اور ایک ڈبی کھجوروں کی پہلے پہل باہر نکالیں۔ مگر وزیر کو آب زم زم کی تلاش تھی۔ اس نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ بیگ کے بالکل نیچے ایک اور ڈبا موجود ہے۔ اس کو یقین ہوگیا کہ یہی آب زم زم ہے۔ اس نے بڑے پر جوش انداز سے اسے کھولا مگر اس میں سفید کفن چمک رہا تھا۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا