جنگی جنون کو ہوا دینے کے بجائے مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ کے لئے حل کیا جائے: میرواعظ عمر فاروق
مصیب مشتاق/یواین آئی
سرینگرحریت کانفرنس (ع) کے چیئرمین میرواعظ مولوی عمر فاروق نے حکومت ہندوستان کی قیادت پر زور دیا ہے کہ وہ جنگی جنون کو ہوا دینے کے بجائے مسئلہ کشمیر کو اس کے تاریخی پس منظر میں حل کرنے کے لئے اقدامات کریں۔ انہوں نے کہا کہ آج تک جنگوں سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ مرکزی جامع مسجد سری نگر میں نماز جمعہ سے قبل ایک بھاری اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے میرواعظ نے کہا ‘تاریخ گواہ ہے کہ جنگوں کے باوجود بھی بالآخر دونوں ممالک کو میز پر آکر ہی مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنے کی راہ اختیار کرنی پڑی اور خدانخواستہ مسئلہ کشمیر کو لیکر دو جوہری مملکتوں کے درمیان جنگ کی ایک معمولی چنگاری پورے برصغیر کو بھسم کرنے کی موجب بن سکتی ہے’۔ میرواعظ نے کہا کہ کل جماعتی حریت کانفرنس کی قیادت نے بار ہا اپنے اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر ایک انسانی اور سیاسی مسئلہ اور اس مسئلہ کو ملٹری مائٹ سے نہیں بلکہ سیاسی اور انسانی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا ‘جب بھارت کے آنجہانی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے انسانیت کے دائرے میں بات کرنے کی بات کی تھی تو ہم نے اُس وقت بھی اُن سے یہی بات کہی تھی اور پھر من موہن سنگھ اور پاکستان کی قیادت کے ساتھ مذاکرات کے دوران بھی اپنے اس موقف کو واضح کیا کہ اس مسئلہ کو سیاسی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے ان کو تجاویز بھی دیں مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ان لوگوں نے سب باتوں سے یو ٹرن اختیار کیا اور آج کشمیریوں کی چوتھی نسل تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق سڑکوں پر ہے’۔ انہوں نے کہا ‘کبھی گھروں میں گھس کر مار کٹائی کا بازار گرم کیا جاتا ہے، کبھی جیلوں اور تھانوں میں نوجوانوں کو تختہ مشق بنایا جارہا ہے اور ایک پوری نسل کو ظلم کے بل پر مجبور کیا گیا کہ وہ عسکریت کا راستہ اختیار کریں’۔ میرواعظ نے کہا کہ ہماری تحریک پر امن اور مبنی برحق ہے اور ہم بھارتی عوام سے کہتے ہیں کہ جو آج جنون میں آکر انتقام کی بات کرتے ہیں وہ اس حقیقت کو سمجھیں کہ کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے اس کا ایک تاریخی پس منظر ہے، یہ کوئی بھارت کی ریاست مہاراشٹر، بہار یا ہماچل پردیش نہیں ہے بلکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک منقسم ریاست ہے، ہندوستان کی قیادت بھارت کے لوگوں کو گمراہ کررہی ہے، حریت قیادت کو ٹی وی پر دکھا کر یہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ یہی لوگ یہاں حالات خراب کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے کہا ‘ہم کہتے ہیں کہ یہ کسی فرد کے نہیں ایک قوم کی تحریک ہے جس کو بزور طاقت دبایا نہیں جاسکتا کیونکہ اگر ظلم اور جبر کو بنیاد پر کسی قوم کی تحریک آزادی کو دبایا جاسکتا تو دنیا کی کوئی قوم آزادی حاصل نہیں کرسکتی’۔ میرواعظ نے کہا کہ ‘اگر حکومت ہندوستان یہ سمجھتی ہے کہ سیکورٹی ہٹانے سے این آئی اے اور ای ڈی جیسی ایجنسیوں کو پیچھے لگانے سے یا گھروں یا تھانوں میں نظربند کرنے سے ہم اپنے موقف سے دستبردار ہون گے تو وہ شدید غلط فہمی کا شکار ہیں کیونکہ ہمارا موقف حقیقت پر مبنی ہے، ہماری تحریک کسی مراعات یا مفادات کے لئے نہیں اور نہ ہی تحریک کسی ایک فرد یا جماعت کی تحریک ہے بلکہ من حیث القوم پورے کشمیری عوام کی تحریک ہے اور ہم اس مسئلہ کے حوالے سے شہید ملت (مولوی محمد فاروق) کے اُس اصولی موقف پر برابر قائم ہیں کہ اس مسئلہ کو یا تو اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل آوری کے ذریعہ یا سہ فریقی مذاکرات کے ذریعہ حل کیا جائے’۔ انہوں نے کہا کہ ‘گزشتہ ایک ہفتے سے کشمیری لوگوں خصوصاً نوجوانوں کے خلاف خاص کر بیرون ریاست مقیم کشمیریوں چاہے وہ طالب علم ہوں یا تاجر پیشہ افراد یا ملازم و مزدور ہوں ایک باضابطہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کشمیریوں کو ٹارگٹ کرنے کا عمل شروع کیا گیا ہے اور اس کا آغاز جموں سے ہوا جہاں کشمیریوں اور وہاں کے مسلمانوں کی درجنوں گاڑیوں کو جلایا گیا، کشمیریوں کو ہراساں کیا گیا اور یہ ان قوتوں کی جانب سے کیا گیا جو روز اول سے ہی کشمیر اور مسلم دشمن رہے ہیں پھر یہ سلسلہ آگے بڑھا اور یہ آگ دوسری جگہوں پر بھی پھیل گئی۔ بھارت کی مختلف ریاستوں میں مقیم کشمیری طالب علموں کو گھروں سے ہوسٹلوں سے نکالا گیا حتیٰ کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے بھی ان کو زبردست باہر کیا گیا اور اس سارے عمل کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہندوستان کے ایک ریاستی گورنر جو ایک آئینی پوزیشن پر براجمان ہیں نے بہ بانگ دہل یہ کہا کہ کشمیریوں کا بائیکاٹ کیا جائے اور کشمیری تاجروں سے مال نہ خریدا جائے پھر سوشل میڈیا پر ایک منظم مہم شروع کی گئی کہ کشمیریوں کے ساتھ تجارت اور کاروبار کو بند کیا جائے’۔میرواعظ نے کہا کہ ہم اس فکر اور سوچ کی جس کو بقول ان کے حکومت کی سرپرستی حاصل رہی ہے کی بھر پور مذمت کرتے ہیں اور ان ریاستوں کی حکومتوں پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ وہاں مقیم کشمیریوں کوبحفاظت کشمیر روانہ کیا جائے اور اگر ان کو کوئی گزند پہنچی تو اس کی ذمہ داری وہاں کی حکومتوں پر عائد ہوگی۔ انہوں نے کہا ‘جہاں تک کشمیریوں کا تعلق ہے تو یہاں کے مسلمان تنگ نظر اور متعصب نہیں، کیا یہ لوگ 2014 کا تباہ کن سیلاب بھول گئے جب کشمیری نوجوانوں نے آگے آکر نہ صرف غیر ریاستی باشندوں کو محفوظ مقامات پر پہنچایا بلکہ جو بھارتی فوجی سیلاب میں پھنس گئے انسانیت کی بنیاد پر ان کی بھی مدد کی اور امرناتھ یاترا کے دوران جب پورا کشمیر جل رہا تھا، کشمیریوں کو مارا جارہا تھا، کشمیری عوام کی جانب سے کسی بھی ایک فرد کو کوئی گزند نہیں پہنچی اور 2016 کے عوامی انقلاب کے دوران جب 120 کشمیریوں کو شہید کیا گیا لوگوں کے قتل و غارت کا بازارگرم کیا گیا، کشمیریوں نے کسی غیر ریاستی پر انگلی نہیں اٹھائی کیونکہ ہماری روایات ہم کو اس کی اجازت نہیں دیتی، ہم نفرت کی سیاست نہیں کرتے، ہم تفریقی سیاست نہیں کرتے اور نہ پولارائزیشن کی سیاست کرتے ہیں۔ غیر ریاستی لوگ یہاں اتنے ہی محفوظ ہیں جتنا ایک کشمیری کیونکہ کشمیریوں نے ہر مشکل مرحلے پر اپنی روایات کو زندہ رکھا ہے جہاں تک انسانی قدروں اور انسانی اصولوں کی بات ہے اور جامع مسجد کے منبر و محراب جو یہاں کے مسلمانوں کا سب سے بڑا دینی، سماجی اور سیاسی مرکز ہے ہم نے بارہا یہ کہا کہ کشمیر کا مسئلہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور یہ ہندو اور مسلمانوں کی لڑائی نہیں بلکہ اس مسئلہ کی ایک سیاسی بنیاد ہے اس کا ایک تاریخی پس منظر ہے’۔ میرواعظ نے کہا کہ گزشتہ ہفتہ پلوامہ میں جو واقعہ پیش آیا تحریک پسند قیادت نے برملا یہ بات کہی کہ ہم کو قیمتی انسانی جانوں کے زیاں پر افسوس ہے کیونکہ انسانی جانوں کے اتلاف کا غم کشمیریوں سے زیادہ کون محسوس کرسکتا ہے کیونکہ یہ قوم گزشتہ تیس برسوں کے دوران اپنے نوجوانوں کے جنازے اٹھا رہی ہے لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ یہاں بے دریغ کشمیریوں کو مارا جارہا ہے۔ کارڈن اینڈ سرچ آپریشنز اور آپریشن آل آوٹ، کالے قوانین کے بل پر یہاں کے نوجوانوں کو پشت بہ دیوار کرکے مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ عسکریت کا راستہ اختیار کریں۔ انہوں نے کہا ‘ظلم اور جبر کے ہتھیاروں سے اس قوم کو اپنے مبنی برحق موقف سے دستبردار نہیں کیا جاسکتا اور ہماری جدوجہد تب تک جاری رہے گی جب تک اس قوم کو آزادی کی منزل حاصل نہیں ہوتی’۔ میرواعظ نے اس موقعہ پر کہا کہ ہماری تمام ہمدردیاں ان کشمیریوں کے ساتھ ہیں جو بھارت کی مختلف ریاستوں میں بقول ان کے اس وقت انتہا پسندوں کی جانب سے عذاب و عتاب کا شکار ہے۔ انہوں نے سکھ برادری خصوصاً خالصہ ایڈ انٹرنیشنل کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے نہ صرف کشمیریوں کی حفاظت کی بلکہ ان کے لئے لنگر وغیرہ کا اہتمام کرکے مشکل وقت میں انکا ساتھ دیا اور سکھ برادری نے اس آڑے وقت میں کشمیری عوام کے تئیں جس انسانیت اور انسان دوستی سے عبارت رویہ کا اظہار کیا اُس کے لئے پوری کشمیری قوم ان کی مشکور ہے۔