21فروری عالمی یومِ مادری زبان

0
0

کالم نویس: شازیہ چودھری
کلر راجوری جموں و کشمیر
9622080799

21فروری کو پوری دنیا میںمادری زبانوں کے عالمی د ن کے طور پر منایا جاتا ہے۔عالمی ادارے یونسکو UNESCO کی انسانی ثقافتی میراث کے تحفظ کی جنرل کانفرنس جو 17 نومبر 1999؁ء کو منعقد ہوئی تھی تب اس بات کا اعلان کیا گیا تھا۔ اور 21 فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن قرار دیا گیا۔ مادری زبانیں ہر ملک کے لیے اور ہر قوم کے لئے کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔ قومی زبان اور مادری زبان میں بنیادی فرق ہوتا ہے۔قومی زبان کسی بھی ملک کی ایک ہی ہوتی ہے البتہ مادری زبانیں ایک سے زیادہ ہوسکتی ہیں۔ قومی زبان کو رابطے کی زبان کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔جبکہ مادری زبانیں بہت سی قوموں اور قبائل کی اپنی موروثی زبانیں ہوتی ہیں۔ مادری زبانوں کے عالمی دن کا بنیادی مقصد لسانی اور ثقافتی روابط ،ہم آہنگی ، اور تعلق کا فروغ ہے۔ ہندوستان سمیت دینا بھر کے ممالک اس دن مادری زبانوں کے حوالے سے تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں جن میں اس بات کا اِعادَہ کیا جاتا ہے کہ مادری زبان کے تحفظ سے، روایات، افہام و تفہیم، رواداری اور مکالمے کو مضبوط رشتوں میں جکڑا جاسکتا ہے اور یہ رشتے زیادہ فروغ پاسکتے ہیں۔

 

زبان کی اہمیت سے تو انکار ممکن ہی نہیں۔ بچہ دنیا میں آتا ہے تو اسے کسی بھی زبان سے مخاطب کیا جاتا ہے خواہ اشارے ہی کیوں نہ ہوں ، پھر رفتہ رفتہ بچے کو اس زبان سے مخاطب کیا جانے لگتا ہے جو اس خاندان کی مادری زبان ہوتی ہے۔ گویا مادری زبان اس بچے کو وراثت میں ملتی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ بچہ بڑے ہوکر اُسے دوسری زبانوں پر کتنا ہی عبور ہو، کتنا ہی عالم فاضل کیوں نہ بن جائے اپنی زبان کبھی نہیں بھولتا، یا وہ کسی دوسری زبان مثلاً اردو، ہندی یا انگریزی میں کتنی ہی مہارت حاصل کر لے لیکن اپنی مادری زبان کو کبھی نہیں بھول سکتا۔ اس لئے زبان ایک ایسی شئے ہے کہ انسان اپنی یاداشت بھی کھو بیٹھے، اْسے دین و دنیا کی ہوش نہ رہے لیکن جب بات کرے گا تو اپنی مادری زبان میں ہی کرے گا۔ مادری زبان کا لب و لہجہ انسان کی شخصیت کا اظہار کرتا ہے۔ بسا اوقات ہم کسی شخص کی گفتگو سے اس کی زبان اور لہجے سے اس بات کا اندازہ لگا لیتے ہیں کہ اس کی مادری زبان کیا ہے یا اس کا تعلق کس علاقے سے ہے۔مادری زبان اور قومی زبان میں فرق ہوتا ہے، مادری زبان کسی بھی فرد یا خاندان کی وہ زبان ہوتی ہے جوبرسوں سے اس کے گھر اور خاندان میں بولی جارہی ہوتی ہے جب کہ قومی زبان وہ قرار پاتی ہے جسے رابطے کی زبان کہا جاسکتا ہے۔ جس طرح حالات، واقعات اور زمانے کی تبدیلی کے ساتھ دنیا میں بہت سی چیزیں نئی وجود میں آتی ہیں ۔ بہت سے نئے ملک وجود میں آتے ہیں، بعض ملکوں کی سرحدیں طویل اور بعض کی محدود ہوجاتی ہیں، تباہی کی صورت میں پوری پوری قومیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں لیکن زبانیں وقت کے ساتھ استعمال میں کم یا زیادہ ہوسکتی ہیں لیکن ختم نہیں ہوتیں تاریخ گواہ ہے کہ، ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان ایک سلطنت تھی۔زمانے کے ہاتھوں اس کے حصے ہوئے اور یہ کئی ملکوں میں تقسیم ہوگیا لیکن وہ مادری زبانیں جو متحدہ ہندوستان میں بولی جارہی تھیں آج بھی زندہ ہیں۔ وہ زبانیں بولنے والے کب کے دنیا سے جاچکے لیکن اپنے پیچھے زبان کا ورثہ چھوڑ گئے ان کی نسلیں آج بھی وہی مادری زبان بول رہی ہیں۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ بعض زبانیں وقت کے ساتھ ساتھ نا پید ہوگئیں ، یا پھر کچھ زبانوں پر علاقائی اثر غالب آتا گیا تو کچھ لہجے بدلتے گئے۔ لیکن زبانیں چلتی رہیں۔ بعض مادری زبانوں نے قومی زبان کی حیثیت اختیار کر لی جیسے ہندوستان میں ہندی نے، پاکستان میں اردو نے، بنگلہ دیش میں بنگلہ نے قومی زبان کی حیثیت حاصل کر لی ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارے یونسکو کا کہنا ہے کہ دنیا میں اس وقت کل چھ ہزار کے لگ بھگ زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے ڈھائی ہزار زبانوں کو خطرہ لاحق ہے جن میں ایک سو چھیانوے بھارتی زبانیں ہیں ایک سو ننانوے ایسی ہیں جن کے بولنے والے دس یا دس سے بھی کم رہ گئے ہیں جب کہ ایک سو ستتر زبانیں ایسی ہیں جن کے بولنے والے دس سے پچاس کے درمیان ہیں۔یہ بات یونیسکو نے اکیس فروری 2009 ؁ء کو مادری زبانوں کے عالمی دن کے موقع پر دنیا میں بولی جانے والی زبانوں کے لئے تشکیل دئیے گئے ایک ڈیجیٹل نقشے میں کہی تھیں۔ جو اکیس فروری کو اقوام متحدہ کے تحت منائے جانے والے مادری زبانوں کے عالمی دن کے حوالے سے جاری کیا تھا۔21 فروری کو دنیا بھر کی چھوٹی اور بڑی قومیں ’’مادری زبانوں کا عالمی دن‘‘ کے طور پر مناتی ہیں۔ اس کا مقصد دنیا بھر میں بولی جانے والی زبانوں کا تحفظ کرنا اور ان کو معدوم ہونے سے بچاتے ہوئے ان کی ترویج کے لیے کام کرنا ہے۔ ماہرین لسانیات کا کہنا ہے کہ ختم ہونے والی زبانوں کو جدید طریقوں سے ریکارڈ کرکے محفوظ بنایا جانا چاہیے تاکہ مستقبل میں ان زبانوں اور ان سے منسلک تہذیب و تمدن کو سمجھنے میں مدد لی جاسکے۔ جیسے تحریری ،صوتی اورصوتی عکس بندی کے ذریعے۔ زبان ایک ذریعہ اظہار ہے جو کسی بھی سماج میں ایک دوسرے سے منسلک رہنے کے لیے اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ دیگر معاشرتی لوازمات۔ معاشرتی تنوع میں بھی بلاشبہ زبان کا بہت اہم کردار ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ بہت سی نئی زبانیں وجود پاتی ہیں تو اسی طرح بہت سی زبانیں ختم بھی ہوتی جارہی ہیں۔اس دن کو سابقہ مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کے شہر ڈھاکہ میں بنگالی کو قومی زبان بنانے کے لیے پرامن احتجاج کرنے والے ان طلبہ و طالبات کے ساتھ بھی منسوب کیا جاتا ہے جن پر 1952؁ء میں اپنی زبان کے لیے آواز اٹھانے کی پاداش میں گولیاں برسائی گئیں اور کئی نوجوانوں کو شہید کیا گیا۔ 25مارچ1971 ؁ء کو ڈھاکہ میں فوجی آپریشن ہوا جہاں بہت کچھ تار تار ہوا وہاں شہید مینار بھی منہدم ہوا یہ مینار ماں بولی کی حرمت پرگرنے والے ابو برکت نامی طالب علم کے خون کے پہلے قطرے کی یاد گار تھا ،ڈھاکہ میڈیکل کالج کے سامنے جب پانچ نہتے طلباء پر ریاست کی گولی چلی تو یہ انیس سو باون کا سن تھا اور فروری کی اکیس تاریخ آج دو ہزار انیس کا سن ہے اور فروری کی اکیس تاریخ یہ محض کلینڈر پر موجود کسی مہینے کی تاریخ نہیں ہے یہ سکوت ڈھاکہ کی ایک پوری تاریخ ہے جو مورخوں نے انیس سو باون میں لکھنا شروع کی تھی۔

1999؁ء میں بنگلہ دیش نے اٹھائیس ممالک کے ساتھ مل کر یونیسکو میں قرارداد پیش کی جس کے نتیجے میں نومبر 1999؁ء کو یونائٹڈ نیشن ایجوکیشنل سائنٹفک اینڈ کلچرل آرگنائزیشن UNESCO نے جنرل کانفرنس میں اس دن کو باقاعدگی سے منانے کا اعلان کیا۔ اور 21 فروری 2000؁ء سے باقاعدہ اس دن کو منانے کا عمل شروع ہوگیا۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ نے بھی سال 2008 ؁ء کو ’’مادری زبانوں کا عالمی سال‘‘ کے طور پر منانے کا اعلان کر دیا اور 16مئی 2009 ؁ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں تمام ممبرز ممالک کو پابند بنایا گیا کہ وہ تمام چھوٹی بڑی زبانوں کے تحفظ و ترویج کے لیے کام کریں تاکہ مختلف زبانیں بولنے والے ایک دوسرے کی زبانوں کا احترام کرنا سیکھیں اور زبان و ثقافت کے ذریعے دنیا بھر میں امن و امان قائم کیا جا سکے۔زبان کسی بھی قوم کے لئے نہایت اہمیت کی حامل ہے یہ نہ صرف جذبات کے اظہار و خیال کا ذریعہ ہے بلکہ اقوام کی شناخت بھی زبان سے ہی ہوتی ہے۔زبان ایک ایسا سماجی عطیہ ہے جو زمانے کے ساتھ ساتھ ایک نسل سے دوسری نسل کو ملتا رہتا ہے۔ انسان کی یاداشت بدل جاتی ہے لیکن زبان نہیں بدلتی، وہ یاداشت کھو سکتا ہے لیکن اپنی زبان نہیں بھول سکتا۔ بلاشبہ زبان کسی بھی انسان کی ذات اور شناخت کا اہم ترین جزو ہے اسی لئے اسے بنیادی انسانی حقوق میں شمار کیا جاتا ہے۔ اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق پر بین الاقوامی معاہدے کے مشمولات کے علاوہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور ثقافت کی قرار دادوں کی صورت میں اس حق کی ضمانت دی گئی ہے۔ قومیتی شناخت اور بیش قیمت تہذیبی و ثقافتی میراث کے طور پر مادری زبانوں کی حیثیت مسلمہ ہے چنانچہ مادری زبانوں کے فروغ اور تحفظ کی تمام کوششیں نہ صرف لسانی رنگارنگی اور کثیر اللسانی تعلیم کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں بلکہ یہ دنیا بھر میں پائی جانے والی لسانی اور ثقافتی روایات کے بارے میں بہتر آگہی بھی پیدا کرتی ہیں اور عالمی برادری میں افہام و تفہیم، رواداری اور مکالمے کی روایات کی بنیاد بنتی ہے۔

مقامی یا مادری زبانوں کوانسان کی دوسری جلدبھی کہا جاتا ہے۔ مادری زبانوں کے ہر ہرلفظ اور جملے میں قومی روایات، تہذیب وتمدن، ذہنی و روحانی تجربے پیوست ہوتے ہیں اسی لیے انہیں ہمارے مادری اور ثقافتی ورثے کی بقاء اور اس کے فروغ کا سب سے موئثر آلہ سمجھا جاتا ہے چنانچہ کسی قوم کو مٹانا ہو تو اس کی زبان مٹا دو تو قوم کی روایات اس کی تہذیب، اس کی تاریخ، اس کی قومیت سب کچھ مٹ جائے گا۔ دنیا میں بولی اور سمجھی جانے والی زبانوں کی تعداد چھ ہزار سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ آکسفورڈیو نیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً6912 زبانیں بولی جاتی ہیں ان میں سے516 ناپید ہوچکی ہیں۔دنیا میں سب سے زیادہ زبانیں پاپوانیوگنی میں بولی جاتی ہیں جن کی تعداد860 ہے جو کہ کل زبانوں کا بارہ فیصد بنتا ہے اس کے بعد انڈونیشیا ہے جہاں742 زبانیں بولی جاتی ہیں اس کے علاوہ نائجیریا میں516۔ بھارت میں425۔امریکہ میں311،آسٹریلیا میں275 اور چین میں241زبانیں بولی جاتی ہیں۔ مختلف عالمی رپورٹس کے مطابق اس وقت سب سے زیادہ بولی جانی والی مادری زبان چینی ہے۔ جس کے بولنے والوں کی تعداد87کروڑ30 لاکھ ہے جب کہ دیگر مادری زبانیں بولنے والوں میں ہندی 37کروڑ،ہسپانوی 35 کروڑ۔ انگریزی34کروڑ جب کہ عربی بولنے والوں کی تعداد20کروڑ ہے۔ ایک جائزہ کے مطابق صرف75 زبانیں ایسی ہیں جن کے بولنے والوں کی تعداد ایک کروڑ سے زائد ہے۔ دس کروڑ سے زائد بولی جانے والی زبانوں کی تعداد صرف 8 ہے۔اِسی طرح گوجری زبان قدیم زبانوں میں سے ایک ہے ۔اور یہ ہندوستان، پاکستان، اورافغانستاں کے علاوہ دنیا کے کئی ملکوں میں بولی جاتی ہے۔افغانستان میں بارہویں جماعت تک نصاب میں بھی شامل ہے، لیکن بدقسمتی سے ہندوستان اور پاکستان میں ابھی اِسے تعلیمی نصاب میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔

مادری زبان انسان کی شناخت ہوتی ہے اور ریاستی اداروں کی ترقی کا ضامن ہوتی ہے۔ جرمنی کے لوگوں کی اپنی زبان کے ساتھ عقیدت و محبت ناقابل بیان ہے آج کے جرمنی کی طاقت کا راز اس کی مادری زبان ہے۔ اس ملک میں قیام کے لئے جرمن زبان سیکھنا اہم ہے۔ جرمن قوم کی اکثریت اپنی زبان میں بات کرنا پسند کرتی ہے۔جرمن زبان کا ہی ہر طرف راج نظر آتا ہے بازاروں اور بڑی بڑی اہم شاہرائوں، ریلوے اسٹیشنوں، ائیر پورٹوں اور ایسے ہی دیگر مقامات پر اشتہارات اور راہنمائی کے سائن بورڈز سبھی جرمن زبان میں لکھے ہوئے ملتے ہیں۔شاذو نادر ہی کہیں انگریزی زبان میں لکھا نظر آئے گا انگریزی زبان میں کوئی اخبار اور میگزین نہیں ملے گا کتابوں کی دوکانوں میں سب کتابیں میگزین جرمن زبان میں دستیاب ہوتی ہیں۔ انگریزی زبان میں کسی کتاب یا اخبار کا حصول آسان نہیں ہے۔اور ہم اپنی مادری زبانوں کے بجائے اخبارات یا رسالوں کو دوسری زبانوں میں شائع کرنے میں زیادہ فخر محسوس کرتے ہیں۔ بڑی عمر کے جرمن شہری انگریزی زبان جاننے کے باوجود بھی وہ انگریزی زبان میں بات کرنا پسند نہیںکرتے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور ثقافت یونیسکو کا کہنا ہے کہ زبان کی بنیاد پر کسی بھی قسم کی تفریق نہیں کی جاسکتی۔رواں سال انسانی حقوق کے عالمی اقرار نامے (ڈیکلیئریشن) کو بھی 70 سال مکمل ہوگئے ہیں جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ دنیا کا ہر شخص اس اقرار نامے میں شامل تمام حقوق اور مواقعوں کا حقدار ہے۔ اس ضمن میں کسی بھی قسم کا رنگ، نسل، جنس، زبان، مذہب، سیاسی، نظریاتی یا معاشرتی امتیاز ناقابل قبول ہوگا۔اقوام متحدہ اپنے ارکان ممالک پر زور دے رہی ہے کہ وہ دنیا میں بولی جانے والی تمام زبانوں کی حفاظت کریں اور انہیں متروک ہونے سے بچائیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دنیا میں بولی جانے والی تمام زبانوں کے فروغ کے ذریعہ ہی عالمی ثقافتی اور لسانی ہم آہنگی، اتحاد اور یگانگت کو قائم کیا جاسکتا ہے۔زبانوں کی تحلیل ثقافت کو متروک کرنے کا سبب کسی قوم کی ثقافت، تاریخ، فن، اور ادب اس کی مادری زبان کا مرہون منت ہوتا ہے۔ کسی زبان کے متروک ہونے کا مطلب اس پوری ثقافت کا متروک ہوجانا ہے۔آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 6 ہزار 9 سو 12 زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے 516 ناپید ہوچکی ہیں۔ یونیسکو کے مطابق ہر 14 دن بعد دنیا میں بولی جانے والی ایک زبان متروک ہوجاتی ہے۔ اگلی صدی (یا رواں صدی کے آخر) تک دنیا کی نصف لگ بھگ 7 ہزار زبانیں متروک ہوجائیں گی۔مادری زبان کسی بھی شخص کی وہ زبان ہوتی ہے جو اسے اپنے گھر اور خاندان سے ورثے میں ملتی ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ زبانوں کے متروک ہونے کا عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب والدین اپنے بچوں کو مادری زبان نہیں سکھاتے۔زمانے کی جدت اور سرکاری زبانوں کے بڑھتے ہوئے استعمال سے مادری زبانوں کی اہمیت ماند پڑ رہی ہے۔ آج کے جدید دور میں مادری زبان میں تعلیم بنیادی انسانی حق ہے۔ دنیا بھر میں ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دیے جانے کا انتظام ہوتا ہے کیونکہ بچے کے ذہن میں راسخ الفاظ اسکے اورنظام تعلیم کے درمیان ایک آسان فہم اور زوداثر تفہیم کا تعلق پیدا کر دیتے ہیں۔مادری زبان میں تعلیم سے بچے بہت جلدی نئی باتوں کو سمجھ جاتے ہیں انہیں ہضم کر لیتے ہیں اور پوچھنے پر بہت روانی سے انہیں دہراکر سنا دیتے ہیں۔

مادری زبان میں دی جانے والی تعلیم بچوں کی تعلیمی صحت پر خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے جس کے نتیجے میں وہ خوشی خوشی تعلیمی ادارے میں بھاگتے ہوئے آتے ہیں اور چھٹی کے بعد اگلے دن کا بے چینی سے انتظارکرتے ہیں۔معلم کے لیے بھی بہت آسان ہوتا ہے کہ مادری زبان میں بچوں کو تعلیم دے اسکے لیے اسے اضافی محنت نہیں کرنی پڑتی اور مہینوں کاکام دنوں یا ہفتوں میں مکمل ہوجاتا ہے۔مادری زبان کی تعلیم سے خود زبان کی ترویج واشاعت میں مددملتی ہے ،زبان کی آبیاری ہوتی ہے ،انسانی معاشرہ ہمیشہ سے ارتقاء پزیر رہا ہے چنانچہ مادری زبان اگر ذریعہ تعلیم ہو تو انسانی ارتقاء کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی مادری زبان بھی ارتقاء پزیر رہتی ہے،نئے نئے محاورے متعارف ہوتے ہیں ،نیا ادب تخلیق ہوتا ہے،استعمال میں آنے والی چیزوں کے نئے نئے نام اس زبان کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔مگرنہایت افسوس کی بات ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام، عدالتی نظام اور دفتری نظام سب کا سب انگریزی زبان میں ہے۔ ہم کب تک انگریزوں کی بنائی ہوئی انگریزی کا پیچھا کریں گے، ابتدائی تعلیم مادری و علا قائی زبان میں اور ثانوی و اعلیٰ تعلیم قومی زبان میں دی جائے۔ مادری وعلاقائی اور قومی زبانوں کے ادباء و شعرا و محققین کو سرکاری سرپرستی دی جائے انکی تخلیقات کو سرکاری سطح پر شائع کیاجائے اور انکے لیے بھی سرکاری خزانے کے دروازے کھولے جائیں، دیگرعالمی زبانوں کی کتب کو تیزی سے قومی و علاقائی زبانوں میں ترجمہ کیاجائے تاکہ ہماری قوم اندھیروں سے نکل کر وقت کے ساتھ ساتھ دنیامیں اپنا آپ منوا سکے زبانوں کا استعمال تحریری شکل میں کیا جاتا ہے۔

مادری زبان انسان کی شناخت، ابلاغ، تعلیم اور ترقی کا بنیادی ذریعہ ہے لیکن جب زبان ناپید ہوتی ہے تو اس کے ساتھ مختلف النوع کی ثقافت کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔ آج میں تمام زبانوں اور ان سے جڑے شعر و ادب، نثر، شاعری، گلوکاری کے تمام شہسواروں کا ، اربابِ اختیار اور صاحبِ قلم کی توجہ ان عوامل کی طرف مبذول کروانا مناسب سمجھتی ہوں جن کی وجہ سے ان زبانوں کو مستقبل قریب میں خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔اوّل یہ کہ مقامی زبانوں کو بولنے والے بالخصوص نوجوان جو ملک کے مختلف شہروں میں زیر تعلیم ہیں، زیادہ تر اپنی مادری زبانوں میں بات کرنے کے بجائے اردو ہندی اور انگریزی پر زیادہ زور دیتے ہیں اور مادری زبان بولتے بھی ہیں تو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ مادری زبان بول رہے بلکہ ایسا لگتا ہے جیسے انگریزی ہندی یا اردو بول رہے ہیں کیوں کہ وہ زیادہ تر الفاظ اردو، ہندی یا انگریزی بول لیتے ہیں اور ایک دو الفاظ اپنی مادری زبان سے مستعار لے لیتے ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو شہروں میں اپنے کنبے کے ساتھ مقیم ہیں، وہ اپنے بچوں سے اپنی مادری زبان میں بات کرنے کے بجائے اردو ، ہندی یاانگریزی میں بات کرتے ہیں تاکہ بچے اردو ، ہندی اور انگریزی پر عبور حاصل کر سکیں۔ ایسے لوگوں کے نزدیک مادری زبان ایک مذاق سے کم نہیں اور میں نے خود ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو اپنی مادری زبان کو گالیاں بھی دیتے ہیں۔ڈاکٹر صلاح الدین درویش کا قول ہے۔مادری زبان تو تبھی بچ سکتی ہے۔جب ہم مادری زبان میں لکھیں گے اور بولیں گے ہم ہی اپنی زبان نہ بولیں تو کسی سے کیا شکایت کر سکتے ہیں یہ بات اسلئے بھی بر محل ہے کہ زبان کے حوالے سے حساسیت پیدا کرنا اہل فکر کا کام ہے زبان بھنور میں پھنسی ہوئی کشتی نہیں ہے جسے کوئی ملاح آ کے نکالے گا ،زبان تو بازار میں رکھی ہوی جنس ہے خریدار ہوں گے تو بکے گی ورنہ راہ تکتی رہے گی۔

زبانیں مر رہی ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ بولنے والے نہیں رہے اس کا ذمہ دار ہر وہ شخص ہے جس نے علاقے اور وقت کی تبدیلی کے سبب بچوں کو اُس زبان میں لوری نہیں دی جس زبان میں خود سنی تھی۔ اس کے علاوہ راتوں کو لوک کہانیاں سننے اور سنانے کی جگہ اب فیس بک نے لے لی ہے اور خاص کر سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ان زبانوں پر مشتمل نصاب نہ ہونے کے باعث پرائمری سے پی ایچ ڈی تک طلباء و طالبات کو اپنی زبانوں کے حوالے سے پڑھنے کو کچھ نہیں ملتا، جس سے وہ اپنی ثقافت زبان اور تاریخ سے دور ہو جاتے ہیں، اور مقامی زبانوں میں گرائمر، قاعدہ یا رسم الخط یا صحیح اِملا کا انتخاب نہ ہونے کے باعث لکھنے کے لیے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آخر میں تحریر کو سمیٹتے ہوئے اہلِ قلم، شعراء، ادباء، ماہرِلسانیات اور نوجوانوں سے گذارش کروں گی کہ وہ اپنی مادری زبانوں کو ماں کا درجہ دیتے ہوئے فخر سے اپنی زبان بولیں اور اس کے تحفظ کا ذمہ اٹھائیں۔ اور تمام زبانوں کے بولنے والے لسانی تعصب کے بغیر ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر تمام زبانوں، تاریخ و ثقافت کو یونیورسٹی سمیت کالجوں اور سکولوں کے نصاب میں شامل کرنے کے علاوہ ہر زبان پر مشتمل شعبہ جات قائم کرنے کے لئے حکومت کو راضی کریں۔ماہر اللسانیات پر مشتمل فورم ہوں انجمنیں ہوں ان تمام کو حکومت مالی سپورٹ کرے اور سالانہ بجٹ میں بھی مقامی زبانوں کے لیے فنڈ مختص کیے جائیں۔ شعراء، فن کار و گلوکاروں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور نوجوانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شعراء، اور ادیبوں کی قدر کرنا سیکھیں تاکہ وہ زبان اور شعروادب کی آبیاری کھلے دل سے کریں۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتاہے تو مستقبل قریب میں ہماری زبانیں ختم ہوجائیں گی اور بغیر زبان و ثقافت کے قومیں زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتیں۔

(نوٹ:قلمکار ہفتہ وار گوجری اخبار رودادِقوم کی معاون مدیرہیں۔)

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا