یہ داغ کیسے مِٹے گا؟

0
0

پلوامہ خود کش حملے کے بعدجموں بندکے دوران ہوئے فرقہ وارانہ تناﺅکے چلتے جموں شہرمسلسل کرفیوکے سائے تلے ہے،کئی روزسے جاری کرفیومیں حالات میں سدھارکیساتھ ہی بڑے ہی محتاط اندازمیں انتظامیہ ڈھیل دے رہی ہے،بدھ کو پہلی مرتبہ تقریباًدن بھرڈھیل دی گئی،جوپرامن رہی، صوبہ کے کئی اضلاع میں انٹرنیٹ خدمات بحال کردی گئیں، جموں ضلع میں بھی کچھ لمحات انٹرنیٹ خدمات کی بحالی ہوئی تاہم شائدیہ فی الحال اہلیانِ جموں کو راس نہ آئی اور کسی ممکنہ شرانگیزی کے چلتے انتظامیہ نے فوری طورپرانٹرنیٹ خدمات پھر سے معطل کردیں، جموں1947ءکے بعد پہلی مرتبہ اس قدر شرمسار ہوا جس کی پچھلے 70برسوں میں کوئی مثال نہیں ملتی،2008میں قریب62روز تک جموں بند رہا،زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کوبھی کئی مرتبہ خطرات کاسامناہوالیکن اہلیانِ جموںنے روایتی بھائی چارے کوکوئی نقصان نہ پہنچنے دیااورجموں کے ماتھے پرکوئی بدنماداغ نہ لگنے دیا،پلوامہ حملے کے تناظرمیں بندکے دوران شرپسندی کی تمام حدیں پار ہوگئیں اور انتظامیہ کی غفلت کے باعث جموں شہرکے مسلم آبادی والے علاقوں میں شرارتیں کی گئیں، اشتعال انگیزیاں ہوئیں اور صورتحال پرتناﺅہوئی جس نے بدترین تصویر پیش کی،بھائی ۔بھائی آمنے سامنے ہوئے،پتھراﺅہوا،اور معاملہ یہیں تک نہ تھماپولیس خاموش تماشائی بنی رہی سِول انتظامیہ بھی لاپتہ رہی اور شرپسندوں نے وادی کشمیرکیساتھ ساتھ صوبہ جموں کے کئی اضلاع سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی نجی گاڑیاں نذرااتش کردیں،یہ شیطانیت پولیس کی آنکھوں کے سامنے ہوئی لیکن پولیس ایسے شیطانوں پرشکنجہ کسنے میں ناکام ثابت ہوئی،جس نے جموں وکشمیرکے فرقہ وارانہ تانے بانے کوایسازخم دیاشائیداِسے اُبھرنے میں ایک مدت لگ جائے،جموں میں کشمیریوں کیساتھ ایسی شرارت کی گئی جیسے ان شرپسندوں نے کشمیرکوہمیشہ ہمیشہ کیلئے خیربادکہہ دیاہواورکشمیرسے ان کامستقبل میں کبھی ہوئی واسطہ نہ پڑے، کشمیرکوہندوستان کاتاج کہنے والوں نے کشمیرکونفرت کی تلوار سے ہندوستان سے کاٹ پھینکنے میں کوئی کسرباقی نہ چھوڑی،انسانوں کے دِلوں میں ایسی دراڑ پیداکی جسے مٹانے کیلئے اب بہت محنت مشقت درکارہے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا