کبھی بھی سیکورٹی کی فراہمی کا مطالبہ نہیں کیا اپنے موقف سے دستبردار نہیں ہوں گے: حریت کانفرنس
یواین آئی
نئی دہلی / سری نگرحکومت نے جموں و کشمیر میں علیحدگی پسند رہنما¶ں کے خلاف سخت قدم اٹھاتے ہوئے انہیں دی گئی تمام سیکورٹی اور سہولیات واپس لئے جانے کا ایک بڑا فیصلہ کیا ہے ۔جموں کشمیر حکومت کے اعلی افسران نے ‘یو این آئی’ کو بتایا کہ علیحدگی پسند رہنما¶ں -میر واعظ فاروق، عبدالغنی بھٹ، بلال لون، ہاشم قریشی اور شبیر شاہ کو دستیاب سیکورٹی اور گاڑیوں کی سہولیات اتوار سے واپس لے لی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ علیحدگی پسند لیڈروں کو کسی بھی وجہ سے حکومت نے جو سہولیات فراہم کی ہے ، اسے واپس لے لی جائے گی۔ذرائع کے مطابق اگر کوئی اور علیحدگی پسند ہے جسے سرکاری سیکورٹی یا سہولیات دستیاب ہے تو صوبائی پولیس ہیڈکوارٹر اس کا جائزہ لے گی اور یہ سہولیات فوری طور پرواپس لے لی جائے گی۔اس دوران حریت کانفرنس نے حکومت کی جانب سے مزاحمتی قائدین بشمول میرواعظ مولوی عمر فاروق سے سیکورٹی واپس لینے کی کاروائی کے ردعمل میں کہا ہے کہ پولیس اہلکاروں کے مزاحمتی قائدین کی رہائش گاہوں پر ہونا یا نہ ہونا ان کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ حریت کے ایک ترجمان نے بتایا کہ پولیس کی تعیناتی ہٹانے سے دیرینہ تنازعہ کشمیر کی ہیت وحیثیت پرکوئی اثر نہیں پڑے گا اور نہ ہی اس سے قائدین کا مسئلہ کشمیر کے تعلق سے اصولی موقف اثر انداز ہوگا۔ واضح رہے کہ ریاستی حکومت نے اتوار کے روز کشمیری مزاحمتی قائدین بشمول میر واعظ مولوی عمر فاروق ، عبدالغنی بٹ ، بلال لون ، ہاشم قریشی اور شبیر شاہ سے سیکورٹی اور دیگر سرکاری سہولیات واپس لینے کا حکم نامہ جاری کردیا۔ مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے اس کا واضح اشارہ 15 فروری کو سری نگر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دیا تھا۔ حریت کانفرنس کے ترجمان نے حکومتی کاروائی پر اپنے ردعمل میں کہا ’سرکار اور اُس کی کشمیر مخالف میڈیا بار بار مزاحمتی قیادت کے ساتھ تعینات پولیس اہلکاروں کا مسئلہ اٹھا کر سیاست رچا رہے ہیں جبکہ وہ اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ پولیس کی تعیناتی ہٹانے سے دیرینہ تنازعہ کشمیر کی ہیت وحیثیت پرکوئی اثرپڑنے والانہیں ہے اور نہ ہی اس سے قائدین کا مسئلہ کشمیر کے تعلق سے اصولی موقف اثر انداز ہوگا‘۔ ترجمان نے کہا پولیس اہلکاروں کے مزاحمتی قائدین کی رہائش گاہوں پر ہونا یا نہ ہونا اُن کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ انہوں نے کہا ماضی میں جب کبھی بھی اس مسئلے کو اٹھایا گیا، حریت چیئرمین میرواعظ عمر فاروق نے جامع مسجد کے منبر سے ہر باریہ بات واضح کی کہ سرکار ان کی رہائش گاہ سے پولیس کی تعیناتی کوبہ خوشی ختم کرسکتی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ حر یت قیادت نے کبھی بھی ان کی ہائش گاہوں پر پولیس کی تعیناتی کا مطالبہ نہیں کیابلکہ حقیقت میں یہ حکومت ہی تھی جس نے قیادت کو اُن کی رہائش گاہوں پر پولیس کی تعیناتی کی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ حکومت کا ہی فیصلہ تھا کہ پولیس کو تعینات کیا جائے اور آج بھی یہ حکومت کا ہی فیصلہ ہے کہ انہیں ہٹا یا جائے اور یہ سب ہمارے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اس سے قبل ریاستی محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ ’سرکار علیحدگی پسند لیڈروں بشمول میر واعظ عمر فاروق ، عبدالغنی بٹ ، بلال لون ، ہاشم قریشی اور شبیر شاہ سے سیکورٹی اور دیگر سرکاری سہولیات واپس لینے کے لئے آڈر جاری کر رہی ہے ۔ ان علیحدگی پسند لیڈروں کی سیکورٹی اور گاڑیاں آج شام تک واپس لی جائیں گی اور انہیں کسی بھی طرح کا سیکورٹی کور فراہم نہیں کیا جائے گا‘۔ بیان میں مزید کہا گیا تھا ’ان علیحدگی پسند لیڈروں کے پاس جو بھی دیگر سرکاری سہولیات ہیں اُن کو بھی واپس لیا جائے گا۔ پولیس ہیڈ کوارٹر اس بات کا جائزہ لے گا کہ ان علیحدگی پسندوں کے پاس کونسی سرکاری سہولیات جنہیں فوری طور واپس لیا جائے گا‘۔ قابل ذکر ہے کہ وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے ہلاکت خیز پلوامہ خودکش دھماکے کے ایک روز بعد یعنی 15 فروری کو سری نگر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ وادی کشمیر میں ایسی طاقتیں سرگرم ہیں جو پاکستان اور اس کے خفیہ ادارے ’آئی ایس آئی‘سے پیسے لیتی ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ میں نے ریاستی عہدیداروں سے کہا ہے کہ انہیں (ایسے افراد کو) سرکار کی طرف سے فراہم سیکورٹی کا جائزہ لیا جائے۔ انہوں نے کہا تھا ’کچھ ایسے عناصر ہیں جو سرحد پار آتنک وادی طاقتوں، آتنک وادی جماعتوں بشمول آئی ایس آئی کے ساتھ ان کی ملی بھگت ہے۔ آتنک واد کی گہری سازش میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں۔ ایسے لوگ جموں وکشمیر کے لوگوں کے مستقبل خاص طور پر نوجوانوں کے ساتھ ہی کھلواڑ کررہے ہیں‘۔ انہوں نے مزید کہا تھا ’میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان اور آئی ایس آئی سے پیسے لینے والی کچھ طاقتیں بھی یہاں پر سرگرم ہیں۔ میں نے آج یہاں جموں وکشمیر کے عہدیداروں سے واضح طور پر کہا ہے کہ ایسے لوگ جو پاکستان سے پیسے لیتے ہیں، آئی ایس آئی کے ساتھ جن لوگوں کی ملی بھگت ہے، ان کی سیکورٹی کا جائزہ لینا چاہیے‘۔