مہنگائی سے بچنے کے لیے- قناعت پسندی اک نسخۂ اکسیر ہے!!

0
136

تحریر: حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی جمشید پور
موبائل09279996221-
قناعت پسندی اُمت مسلمہ کے لیے ہردور میں ایک نہایت ہی پسندیدہ اور ضروری شیٔ رہی ہے، لیکن اس نئے زمانے میں جن معاشی مسائل نے انسانیت کے سامنے سر اٹھا ئے ہیںان سے نمٹنے کے لئے قناعت پسندی ایک نسخۂ اکسیر ہے جو مہنگائی اور انسان کی معیشت سے جڑے سارے مسائل کو تھوڑے ہی عرصے میں کافور کرسکتی ہے۔
رب تعالیٰ ساری کائنات کا پیدا فر مانے والا ہے ساری مخلوق میں انسان کو اشرف المخلوق کاشرف حاصل ہوا۔ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ نے اپنی تمام مخلوق کی ضروریات کا بے شمار سامان پیدا فر مایاہے، انسان کی بے شمار ضروریات میں’’ روٹی،کپڑا اور مکان‘‘ اول حیثیت رکھتا ہے ہر انسان اس کی تگ ودو میں لگا ہواہے،بقول شاعر
؎ وہ مشتِ خاک ہوانے بکھیر دیا ٭ سمیٹنے کی تگ ودَو ہے، آدمی کیا ہے ( حما یت علی)
جب کہ روزی روٹی دینے کا رب تعالیٰ نے وعدہ فر مایا ہے:
اور زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہ کرم پر نہ ہو۔( سورہ ہود:11،آیت6)
انسانی رزق میں رب تعالیٰ نے اعلیٰ سے اعلیٰ بے شمار نعمتیں عطا فر مائی ہیں،جانوروں کی خوراک گھاس،پھوس اورجانوروں کا دودھ ،گھی، گوشت جیسی اعلیٰ نعمت انسانوں کو عطا فر مایا وغیرہ وغیرہ، جس کا ذکرقرآن مجید میں جابجا موجود ہے۔ : اور اس نے جا نور پیدا کئے،ان میں تمھارے لیے گرم لباس اور فائدے ہیں اور ان سے تم (غذا بھی) کھاتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اونٹ ،گائے، بھینس، بکریاں وغیرہ وغیرہ جانور پید کئے، ان کی کھالوں اوراُون سے تمھارے لیے گرم لباس تیار ہوتے ہیںاور اس کے علاوہ بھی ان جانوروں میں بہت سے فائدے ہیں جیسے ان کا دودھ پیتے ہو گھی کھاتے ہو گوشت کھاتے ہو ان پر سواری کرتے ہو وغیرہ وغیرہ۔(تفسیر خازن،ج:3 ،ص:113)۔ رب تعالیٰ کی بے شمار اعلیٰ سے اعلیٰ نعمتیں حاصل ہوتے ہوئے بھی انسان نعمتوں کی بے قدری کرتا ہے،ناشکری کرتا ہے، نعمتوں کو برباد کرتا ہے نقصان کرتا ہے۔
نعمتوں کی قدر کریں،قناعت پسندی اختیار کریں:جب انسان نعمتوں کی قدر نہیں کرتا تو پھر قدرت انتقام لیتی ہے نعمتیں اُٹھا لی جاتی ہیں،چھین لی جاتی ہیں اس کی بہت سی صورتیں ہوتی ہیں پیدا وار ی میں کمی ہوجاتی ہے نعمتوں کا انسانی پہنچ سے دور ہو جانا نعمتوں کا زوال شروع ہوجانا وغیرہ وغیرہ۔ انسان چاہتا ہے کہ رب کی دی ہوئی نعمتیں ہمیشہ اِسی کے پاس رہیں لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ کئی مرتبہ انسان اچانک یا دھیرے دھیرے نعمتوں سے محروم ہوجا تا ہے۔عام طور پر زوالِ نعمت کا تجزیہ مادی(غیر روحانی) حوالے سے کیا جاتا ہے جبکہ ان نعمتوں کے زوال کے بہت سے اسباب ہوتے ہیں۔ انسان کوتاہ بین ہے اسی لیے بالعموم وہ روحانی وجوہ پر غور نہیں کرتا۔ قر آن مجید کے مطالعے سے نعمتوں کے زوال اور چھن جانے کے اسباب معلوم ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ارشاد فر ماتاہے: اور یاد کرو تمہارے رب نے اعلان فر مایا کہ اگر تم میرا شکر ادا کروگے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔ اور موسیٰ نے فر مایا:(اے لوگو!) اگر تم اور زمین میں جتنے لوگ ہیں سب نا شکرے ہوجائو تو بیشک اللہ بے پرواہ، خوبیوں والاہے۔( سورہ ابرا ھیم:14،آیت8-7) شکر کے فائدے: اس آیت سے معلوم ہوا شکر سے نعمت زیادہ ہوتی ہے۔ شکر کی فضیلت اور ناشکری کی مذمت: آیت مبارکہ کی مناسبت سے یہاں شکر اور ناشکری کی حدیث ملاحظہ فر مائیں۔۔۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی ا للہ عنہ سے روایت ہے، سرکار دوعالم ﷺ نے ارشاد فر مایا ’’ جسے شکر کرنے کی توفیق ملی وہ نعمت کی زیادتی سے محروم نہ ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فر مایا ہے : اگر تم میرا شکر ادا کروگے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا۔ جسے توبہ کرنے کی توفیق عطا ہوئی وہ توبہ کی قبولیت سے محروم نہ ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فر مایا: اور وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فر ماتا ہے۔ ( سورہ،الشوری:42 ،آیت25) (در منشور،ج:5،ص 9)۔
مہنگائی کی آگ بے قابو، حکومت بے دم: ہوش ربا مہنگائی نے جینا حرام کردیا ہے، ہرچیز کی قیمت کو آگ لگی ہوئی ہے لوگوں کے منہ سے روٹی کا آخری نوالہ تک چھینا جارہا ہے، پھل،سبزی گھی،تیل، چینی، گوشت ،ادویات ،گیس سلنڈر، پٹرول،ڈیزل،بس و ریل کرایہ وغیرہ سب کے سب مہنگے ہیں مگر کوئی لگام لگانے والا نہیں۔منافع خوروں سے کوئی پوچھنے والا نہیں، خود حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے غریب انسان غریب تر ہو تا جا رہا ہے، معیشت تباہ ہوچکی ہے۔ مالیات اور کار پوریٹ کی مرکزی وزیر محتر مہ نر ملا سیتا رمن نے پارلیمنٹ میں اقتصادی سروے2020-21 پیش کرتے ہوئے کہا کہ غذائی مہنگائی میں ضرور کمی آنے کی اُمید ہے۔ سروے میں کہا گیا ہے کہ ان پابندیوں میں آئندہ بھی رعایت دیئے جانے کی امید ہے۔ اقتصادی سروےPIB DELHI 29جنوری2021 میں کہا گیا ہے کہ خاص کر کووڈ19- وبائی مرض کے سبب اشیاکی سپلائی میں رکاوٹ آنے سے ریٹیل مہنگائی پر بُرا اثر پڑا ہے۔ مہنگائی میں درج کئے گئے کل اضافہ میں غذائی اشیا کی قیمت میں اضافہ کا بہت زیادہ رول رہا ہے۔ قیمتوں میں ہورہے مسلسل اضافہ کو قابو میں رکھنے کے لئے اُٹھائے گئے مختلف قد موں کا ذکر کرتے ہوئے اقتصادی سروے میں کہا گیا ہے کہ قیمتوں کے استحکام کے فنڈ( پی ایس ایف) اِسکیم کو مؤثر طریقے سے نافذ کیا جارہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ حکومتوں کی اسکیموں اور اعلانات کو سمجھنے کے لیے بڑا دماغ ہونا چاہیئے’’ گِلی گِلی چُھو اور گُول گھر ‘‘کی طرح گھومتے رہیں والی مثال ہے۔
قنائت پسندی کے ذریعے مہنگائی سے لڑیں: مہنگائی ایک ایسا لفظ ہے جس کے متعلق جب بھی پڑھا ہے یہی پڑھا ہے کہ مہنگائی بہت بڑھ رہی ہے۔ تاریخ میں شاذو نادر ہی ایسا ہواہے کہ مہنگائی کم ہونے کے متعلق کوئی بات ملتی ہو۔دورحاضر کی مہنگائی تو ایک ریکارڈتوڑ مہنگائی ہے۔ پچھلے چند برسوں میں ہی روز مرہ کے استعمال کی چیزوں کی قیمتیں آسمان چھورہی ہیں، غریبوں اور مڈل کلاس کے لوگوں کاحال ابتر ہے کچھ تو ایسی بھی چیزیں ہیں جن کی قیمتیں تقریباً دُگنی یا دُگنی سے بھی زیادہ ہوگئی ہیں۔ اس ہوش ربا مہنگائی نے جہاں غریب طبقہ کے منہ اور نوالہ کے بیچ میں بہت دوری بڑھادی ہے،وہیں مڈل کلاس طبقہ کی کمر بھی توڑ کر رکھ دی ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کا اثرظاہر سی بات ہے کہ یہی ہوگا کہ معیشت کمزور،زوال پذیر ہوگی ہندوستانی روپیے کی قیمت کم ہوگی وغیرہ وغیرہ اور یہ آپ سب دیکھ رہے ہیں کہ ہماری کرنسی کی کیا حالت ہے۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھئے اس ظالم مہنگائی کے دور میں کورونا نے بھی اپنے ظلم کی داستان لکھ دی اورحد تو تب ہوگئی جب بغیر پلاننگ طویل لاک ڈائون لگا دیا گیا،لاک ڈائون کی مار سے نکل بھی نہیں پائے تھے کہ پھر کرونا کے نئے وائرس ’’اومی کرون‘‘ نے بچی کھچی انر جی کو ختم کردیا اورغریبوں کے فقر وفاقہ کے درد کو مزید گہرا کردیا۔
اس تمہید سے مراد صرف اس دور کا ایک خاکہ یا ایک جھلک پیش کرنا مقصد ہے جس میں ہم جی رہے ہیں، اس لیے کہ معاشی طور پر یہ نہایت سخت،پر آشوب اور چلینج سے بھرا دور ہے۔
اسلام میں قناعت کی تعریف و اہمیت:قناعت کا لغوی معنیٰ قسمت پر راضی رہنا (1)حضرت محمد بن علی تر مذی رحمۃاللہ علیہ فر ماتے ہیں:’’قناعت یہ ہے کہ انسان کی قسمت میں جو رزق لکھاہے اس پر اس کا نفس راضی رہے۔‘‘ (2) اگر تنگدستی ہو نے اور حاجت سے کم ہونے پر صبر کیا جائے تواسے بھی ’’قناعت‘‘ کہتے ہیں۔رب تعالیٰ قر آن مجید میں ارشاد فر ماتا ہے:} اور یہ کہ وہی ہے جس نے غنی کیا اور قناعت دی{(سورہ نجم:53،آیت48)یعنی اللہ تعالیٰ ہی لوگوں کو مال ودولت سے نوازکر غنی کرتا ہے اور قناعت کی نعمت سے نوازتا ہے۔(تفسیر روح البیان،ج:9 ص،256)۔ حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا:’’ اللہ تعالیٰ پرہیز گار، قناعت پسند اور گمنام بندے کو پسند فر ماتا ہے۔‘‘( نجات دینے والے اعمال کی معلومات،ص:76) قربان جائیے اسلامی تعلیمات پرکہ قر آن مجید اور احادیث نبویہ میں بنی نوعِ انسان کو پیش آنے والے سارے مسائل وحالات کا حل نہایت ہی آسان انداز میں بتلا دیا گیا ہے۔ مذہب اسلام کی انہیں جاوداں تعلیمات میں سے ’’قناعت ‘‘پسندی بھی ایک تعلیم ہے۔ ویسے تو قناعت پسندی امت مسلمہ کے لئے ہر دور میں،ہر حال میں ایک نہایت ہی پسندیدہ اور ضروری شئے رہی ہے،لیکن اس جدید دور میں انسان جن نئے نئے معاشی مسائل سے دوچار ہے ان سے نمٹنے کے لیے قناعت پسندی اک نسخٔہ اکسیر ہے، ایک کیمیا گری ہے جو مہنگائی اور انسان کی معیشت،اقتصادیات سے جڑے سارے مسائل کو تھوڑے ہی عرصے میں حل کردیتی ہے کافور کردیتی ہے۔ علامہ جلا ل الدین سیوطی علیہ الرحمہ’’ قناعت‘‘ کی تعریف شرعی اصطلاح میں یوں کرتے ہیں’’ بندے کا دل زیادہ کی تمنا کر رہا ہو اس صورت میں بھی وہ جو تھوڑا ملا ہے اس پر راضی ہو جائے،اور جو اس کو نہیں ملا ہے اس پر وہ ماتم نہ کرے اور جوملا ہے اس سے بے نیازی برتے۔ رحمتِ عالم ﷺ کی حیات پاک میں جہاں ایک طرف قناعت کی بے مثال روشن مثالیں موجود ہیں، وہیں مختلف احادیث مبارکہ انسانی زندگی میں قناعت کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا خوش نصیب ہے وہ جو شخص اسلام لایااور ضرورت بھر سامان رکھتا ہے اور جوکچھ اللہ نے اس کو دیا ہے اس پر قناعت کرتا ہے۔( مسلم شریف)۔ اللہ پاک ہمیں قناعت جیسی اسلامی تعلیمات کو سمجھنے کی اور اس پر عمل کرکے ہوش ربا مہنگائی سے لڑنے کی توفیق عطا فر مائے آمین ثم آمین۔:[email protected],

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا