رپورٹ احمد منیب لاہور پاکستان
ادب
اردو ادب کی دو اصناف ہیں،
نثر
نظم یعنی اردو شاعری۔
اقسام شاعری
اقسام شاعری میں نظم، غزل، مثنوی، قصیدہ، مرثیہ، رباعی، مخمس، مسدس، مثمن، قطعہ، حمد اور نعت شامل ہیں۔
نظم
گو غزل ہر خاص و عام میں زیادہ مقبول اور ستائش پاتی ہے لیکن سب سے وسیع قسم بہرحال اردو نظم ہے۔
اقسام نظم باعتبار ہیئت
پابند نظم
طویل نظم
معرا نظم
آزاد نظم
نثری نظم
پابند نظم ترميم
پابند نظم غزل کی طرح بحر و قافیہ کی پابند ہوتی ہے۔ ابتدائی دور میں زیادہ تر پابند نظمیں ہی لکھی جاتی تھیں۔ چکبست، اقبال، نظیر اور جوش نے پابند نظمیں کہی ہیں۔
چند مشہور نظمیں
اقبال:
مکڑی اور مکھی، پرندہ اور جگنو، مکڑا اور مکھی، ماں کا خواب،لا الہ الا اللہ
الطاف حسین حالی:
مٹی کا دیا، مناجات بیوہ
نظیر اکبرآبادی: آدمی نامہ، روٹیاں
طویل نظم ترميم
قصیدہ،مرثیہ یا مثنوی طویل نظم کی مثالیں ہیں، مثنوی، قصیدے اور مرثیہ کی بہ نسبت طویل ہوتی ہے اور بیک وقت ایک ہی مثنوی میں بہت سی کہانیاں بیان کی جاتی ہیں مگر چونکہ مرکزی کہانی ایک ہوتی ہے اس لیے مثنوی مختصر کہانیوں کا مجموعہ نہ ہو کر ایک طویل نظم ہوتی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ طویل نظم صرف مثنوی، مرثیہ یا قصیدہ ہی ہے۔ اردو نظم میں فکری نظموں نے بھی جگہ بنائی ہے۔ علامہ اقبال، حالی، جوش، علی سردار جعفری، ساحر لدھیانوی نے بہت معیاری طویل نظمیں لکھی ہیں۔
اقبال کی شکوہ جواب شکوہ، ابلیس کی مجلس شوری کافی مشہور ہوئیں۔
اقبال: شکوہ، جواب شکوہ، ابلیس کی مجلس شوری، ساقی نامہ
حالی کی برکھا رت، حب وطن، نشاط امید
علی سردار جعفری کی نئی دنیا کو سلام، میرے خواب، بمبئی،
ساحر لدھیانوی کی اے شریف انسانو، پرچھائیاں،
دیگر طویل نظم کے شاعروں میں حرمت الاکرام، ن۔م۔راشد، اختر الایمان، وزیر آغا، جعفر طاہر، رفیق خاور، عبد العزیز خالد، عمیق حنفی، قاضی سلیم قابل ذکر ہیں۔
معرا نظم
معرا نظم کسی مخصوص بحر میں کہی جاتی ہے مگر اس میں قافیہ نہیں ہوتا ہے۔ اس کو انگریزی میں
blank verse
کہتے ہیں۔ اس نظم کا ایک عنوان بھی ہوتا ہے۔ اردو میں نظم معرا کی روایت انگریزی شاعری سے منتقل ہوئی، شروع میں اسے "غیر مقفی نظم” کہا جاتا تھا لیکن بعد میں عبدالحلیم شرر نے مولوی عبدالحق کے مشورے سے "نظم معرا” کی اصطلاح استعمال کی جو اب مقبول عام ہے۔
معرا نظم کے اہم شعرا میں تصدق حسین، میراجی، ن۔م۔راشد، فیض احمد فیض، اختر الایمان، یوسف ظفر، مجید امجد، ضیا جالندھری قابل ذکر ہیں۔
آزاد نظم
آزاد نظم کو انگریزی میں
free verse
کہتے ہیں اور یہ پہلی مرتبہ فرانس میں غیر مساوی مصرعوں پر لکھی گئی ایک نظم تھی۔ حالانکہ اردو میں آزاد نظم میں بھی عروض کی پابندی کی جاتی ہے مگر اسے قافیہ ردیف سے آزاد رکھا جاتا ہے۔ میر اجی، ن۔م۔راشد، فیض احمد فیض، سردار جعفری اور اختر الایمان آزاد نظم کے قابل ذکر شاعر ہیں۔
نثری نظم
یہ صنف مکمل آزاد صنف ہے اور اس میں وزن، ردیف اور قافیہ کی پابندی نہیں کی جاتی ہے۔ لیکن شعریت کا عنصر ضرور موجود ہوتا اسی لیے اسے نظم کادرجہ میں دیاجاتا ہے۔ ہر نظم کا ایک مرکزی خیال ہوتا جس کی جملہ سازی چھوٹی بڑی سطور میں کی جاتی ہے۔آج کل یہ صنف بہت مقبول ہو رہی ہے۔ سجاد ظہر، زبیر رضوی، کمار پاشی، عتیق اللہ صادق اس صنف کے چند اہم شاعر ہیں۔
اقسام نظم باعتبار تعداد و ترتیب اشعار
ترکیب بند
ترجیع بند
مستزاد
مسمط
مثلث
مربع
مخمس
مسدس
مثمن
متسع
معشر
تجربات
اردو نظم میں بہت تجربات کیے گئے اور یہی اس کی وسعت کی دلیل ہے۔
نظیر اکبر آبادی، خواجہ الطاف حسین حالی، اکبر الہ آبادی، علامہ محمد اقبال، جوش ملیح آبادی، ساحر لدھیانوی، فیض احمد فیض، علی سردار جعفری، ن م راشد، اسماعیل میرٹھی، نظم طباطبائی نظم کے بڑے شاعروں میں سے ہیں۔
ساخت
نظم شاعری کی وہ قسم ہے جو کسی ایک عنوان کے تحت کسی ایک موضوع پر لکھی جاتی ہے۔ ایک خاص بات یہ کہ اس میں ہیئت کی کوئی قید نہیں ہے۔ یہ بحر اور قافیہ سے پابند بھی ہوتی ہے اور ان قیود سے آزاد بھی۔ اس میں مضامین کی وسعت ہوتی ہے۔
نظم زندگی کے کسی بھی موضوع پر کہی جا سکتی ہے۔ بلکہ فی زمانہ نثری نظم بھی اردو میں مستحکم ہو چکی ہے۔
ابتدا
صنفِ نظم انیسویں صدی کی آخری دہائیوں کے دوران انگریزی کے زیرِ اثر اردو میں وارد ہوئی اور دھیرے دھیرے قائم ہو گئی۔
"نظم کی تاریخ”
اردو نظم کی ابتدائی مثالیں قلی قطب شاہ کے دیوان میں ملتی ہیں۔
اردو ادب کا پہلا شہ پارہ "مثنوی کدم راو پدم راو” دراصل اردو نظم کی ہی قسم ہے۔ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو نظم کی تاریخ بہت پرانی ہے بلکہ ابتدائے ادب کی یہی ہے۔
زاں بعد نظیر اکبرآبادی (1735–1830) نے اردو نظم کو بامِ عروج عطا کیا۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر بے نظمیں لکھیں۔
نظیر میر تقی میر کے ہم عصر اور ممتاز شاعر ہیں۔
ان کے موضوعات میں ہندوستانی ثقافت جن میں ہولی اور دیوالی کے ساتھ ساتھ دیگر موضوعات بھی شامل ہیں۔ نظیرآدمی نامہ، بنجارا نامہ، راکھی، روٹیاں جیسی مشہور نظموں کے خالق ہیں۔
محمد حسین آزاد (1830–1910) اور حالی نے اردو نظم میں مغربیت کو متعارف کروایا اور اردو نظم میں جدت پسندی کا آغاز ہوا اور نظم کے موضوعات میں تنوع اور وسعت پیدا ہوئی اور ملکی حالات، اجتماعی خیالات و احساسات پر نظمیں لکھی جانے لگیں۔
اسماعیل میرٹھی (1844–1917)، شبلی نعمانی (1857–1914)، اکبر الہ آبادی (1846–1921) اور
چکبست (1882–1926) کا نے اردو نظم کے ارتقا میں نمایاں کردار ادا کیا لیکن اردو نظم کی ہیئت بدستور وہی تھی۔
محمد حسین آزاد اور اسماعیل میرٹھی نے بچوں کے لیے نظمیں لکھیں۔
"ہیئت میں تبدیلی”
اردو نظم کی ہیئت میں تبدیلی کی پہلی کوشش عبد الحلیم شرر (1860–1926) نے کی۔ انہوں نے نظم معرا کو رائج کرنے کی کوشش کی۔
"نظمطباطبائی”
(1854–1933) نے اس کی ہیئت میں مزید تبدیلی کی۔ چونکہ اس دور میں مغربی ادب کے تراجم ہو رہے تھے۔ لہٰذا مغرب کا نفوذ اردو نظم میں در آیا اور نظم کے اسلوب اور ہیئت میں نمایاں تبدیلیاں ہونے لگیں۔
*اقبال* (1877–1938) نے اردو نظم میں کافی کام کیا اور نت نئے تجربات کیے۔
بعد ازاں سیماب، حفیظ، ساغر، جمیل مظہری، افسر، جوش، احسان دانش، اختر شیرانی اور ن م راشد نے مختلف موضوعات پر نظمیں لکھیں۔
ہیئت اور اسلوب کے سلسلہ میں عظمت اللہ خان کا نام بہت اہم ہے جنہوں نے ہندی کے سبک الفاظ، بحور اور علامات استعمال کر کے اپنی نظموں میں انفرادیت پیدا کی۔
ارتقا کا یہ سفر میر اجی تک پہنچا تو انہوں نے آزاد نظم کے اسلوب میں عظمت اللہ خان کے طرز سے بہت اکتساب کیا۔
اردو شاعری میں عموماٙٙاور نظم میں خصوصاٙٙ ترقی پسند تحریک نے انقلاب پیدا کر دیا۔ ادب اسلوب، ہیئت، موضوع، سانچہ اور تعداد اشعار میں وسعت پیدا ہوئی۔ آزاد نظم کو ایک الگ مقام ملا۔ ن م راشد، تصدق حسین، ضیا جالندھری اور مجید امجد اس دور کے قابل ذکر شعرا ہیں۔
اب آیئے نظمیہ مشاعرہ کی طرف۔
منتہائے فکر عالمی شعری ادارہ کی جانب سے "نظمیہ مشاعرہ”
مورخہ 10 فروری 2019 شام 8 بجے منعقد ہوا…
صدارت کی مسند پر محترم میر شبیر متمکن ہوئے۔
مہمانِ خصوصی کی نشست پر محترمہ ممتاز عزیز نازاں براجمان ہوئیں۔
ناظم ِ مشاعرہ جناب محتشم احتشام کی ناساز طبیعت کے باعث نظامت کے فرائض بانی و سرپرست اعلیٰ منتہائے فکر محترم ذوالفقار نقوی نے خود انجام دیئے۔
شعراء کرام کے نمونہ کلام
١… محترم میر شبیر
"رحمت کا سماں چھا جائے گا، جب آنے والا آئے گا
ہر دل کو سجایا جائے گا، جب آنے والا آئے گا”
٢… شازیب شہاب
۔۔۔
اے مرے باغ کے عندلیبو !
سنو سسکیاں ایک معصوم گل کی ذرا
گنگناؤ ذرا یہ مجسم فغاں
کچھ گھڑی ہی سہی چھیڑ دو نا ذرا
درد وغم سے عبارت مری داستاں
تم کو میری لٹی آبرو کی قسم
کچھ تو بولو میرے حق میں تم
کچھ تو غیرت کرو
٣… ممتاز عزیز نازاں
یہاں ہر ایک سودے میں ہیں کتنے راز پوشیدہ
یہاں مسحور ہو جاتے ہیں ذہن و دل لب و دیدہ
ہے یہ بازار اک جادو کی نگری
اک چھلاوا ہے
یہاں کچھ بھی نہیں بکتا
یہاں بس وہم بکتا ہے
کہو جی، کیا خریدوگے؟
٤… ابرق ساجدی
وہ اک معصوم سی بچی
خیال و فکر میں ڈوبی
مسلسل اپنے دامن کو
دھلے جاتی تھی اشکوں سے
برابر پوچھے جاتی تھی
ہوا کے تیز جھونکوں سے
٥…. خورشید بسمل
ہر چشمِ خونچکاں ہے چناروں کے دیس میں
انبوہِ کشتگاں ہے چناروں کے دیس میں
٦…. احمد منیب
اس کی فطرت ہے محبت اس کا سرمایہ وفا
پر تھا جنت سے نکلنا عدمِ طاعت کی سزا
ہے زمیں اس کی فضا اس کی اسی کی ہے فضا
اس کو فطرت پر خدا نے اپنی ہے پیدا کیا
جو ہوا تھا اس پہ نادم ہے بتاو کون ہے؟
کون ہے وہ حضرت انساں نہیں تو کون ہے؟
٧…. علی شیدا
اور میں ….!
اپنی تکانیں اوڑھ کر سونا چاہتا ہوں
اپنی یادوں کے گھونسلے میں
دیر تلک سوچوں کا سفر پسارے
خلاؤں سے کہہ دو
سارے روزن بند کرلے ..!
٨…. روبینہ میر
ذہن میں جس کی مرے دھندلی سی اک تصویر ہے
کوئی بتلائے کہ کیا یہ وہ جنت کشمیر ہے؟
٩…. مصطفیٰ دلکش
اے صاحب سناو ہمیں تم نہ بھاشن
ہمارےگھروں میں نہیں آج راشن
نہ ہر گز ہمیں خواب صاحب دکھاو
ہمیں اب نہ پاگل اے پاگل بناو
اے صاحب وہ سونے کی چڑیا کہاں ہے؟
ہمیں تم بتاو وہ گڑیا کہا۔
اے صاحب بتاو
١٠…. تبسم اعظمی
حادثے لاکھ ہوں
احساس پہ طاری ہے جمود
چونکتے ہی نہیں اذہان کسی بات پہ اب
اور ہونٹوں پہ مسلسل ہے خموشی کا قیام
میں جو آنکھوں میں اترنا چاہوں
مجھ سے پہلے وہاں ویرانی پہنچ جاتی ہے
گردش وقت نے اس طور مناظر بدلے
ایسا لگتا ہے کہ اب میری ضرورت ہی نہیں
١١…. ڈاکٹر مینا نقوی
رات کا وقت جو سورج کو اماں دیتا ہے
تا سحر چاند اجالوں کی اذاں دیتا ہے
١٢…. ذوالفقارنقوی
وہی ذرے جو بنجر ہونے والے تھے
نمو پا کر کسی زرخیز ارض سبز رو جیسے
بہت سی کونپلوں کو بطنِ خاکی سے
حیات جاوداں دے کر
جہان ہست میں لا کر۔۔۔۔۔
مرے احساس کے در پر جو دستک دینے آتے ہیں…
١٣….کامل جنیٹوی
کوئی رت ہو، کوئی موسم ہو، زمانہ ہو کوئی
ہجر کی آگ کسی طور نہ مدھم ہو گی
کتنی بے کیف نظر آئے گی یہ شوخ فضا
ہجر میں تیرے ہر اک عید محرم ہو گی
١٤…. ڈاکٹر حنا امبرین طارق
اب سناٹے کی بات ہے کیا
جسم و جاں میں شور مچا
میں روشن اپنی ذات میں ہوں
میں اپنے من بہتا دریا
میں مہر نسب ،میں امر سدا
–گو لاکھ چلے کوئی سرد ہوا
١٥…..مسعود حساس کویت
تمہارے شہر کی مٹی کو چوم کر جاناں
لبوں کے اپنے نشانات چھوڑ آیا ہوں
مرے شعور کی لہروں کو ہے یقین یہی
اک آدھ ماہ میں واپس تو جب بھی آئے گی
انہیں نشاں پہ لبوں کو تو ثبت کردے گی
مرے وجود کے شعلے کو برف کر دے گی—
١٦….ڈاکٹر علمدار عدم
تم میرے کیسے ہو مسیحا
تم کیسے ہو رہبر
مجھ کو اک نئی دے دو حیات
مجھ کو اک نئی بات سکھا دو – – –
مشاعرے کے اختتام پر صدر ِ محفل نے خطبہء صدارت ارشاد فرمایا۔ اور تمام شریک مشاعرہ شعراء کرام کا شکریہ ادا کیا…. انہوں نے کہا کہ "منتہائے فکر” جب سے معرض وجود میں آیا ہے ادب کی بے لوث خدمت انجام دے رہا ہے…یہ ادارہ آج کے برقی دور میں ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کر رہا ہے کہ جس میں تمام تشنگان ادب اپنی ادبی پیاس بجھانے میں کامیاب ہو رہے ہیں…
بانی و سرپرست اعلیٰ منتہائے فکر جناب ذوالفقار نقوی نے تمام شعرا نیز حاضرین و سامعین کا شکریہ ادا کیا۔
اس مشاعرہ کی خاص بات یہ ہے کہ معروف شاعر ادیب اور نقاد محترم المقام مسعود حساس صاحب نے شعرا کے منظومات پر بہت مفصل اور خوب صورت پیرایہ میں نقد و نظر سے بھی نوازا۔ یوں یہ خوبصورت نظمیہ محفل اپنے اختتام کو پہنچی۔
خآکسار
احمدمنیب۔ لاہور پاکستان