غلام محمد نور محمد تاجران کتب: دکان ہی نہیں کشمیری ادب کا خدمت گار بھی

0
0

یواین آئی

سرینگر؍؍ وادی کشمیر میں زمانہ قدیم سے ہی جہاں برگزیدہ علما و دانشور صفحہ ہستی پر نمودار ہوکر اپنی ذہانت و ذکاوت اور علمی تبحر سے دنیا بھر کیعلمی حلقوں اپنا سکہ بٹھا چکے ہیں وہیں دوسری طرف شہر سری نگر میں ایک ایسا کتب فروش بھی پیدا ہوا ہے جس نے زائد از سوا سو صدی قبل کتب فروشی کو ذریعہ معاش ہی نہیں بلکہ علم و ادب کی خدمت کا ایک وسیلہ بنایا ہے۔سری نگر کے شہر خاص سے تعلق رکھنے والے نور محمد نامی علم و ادب کے ایک شیدائی نے کتابیں فروخت کرنے اور بعد ازاں کتابیں چھاپنے کا بیڑا اٹھا کر وادی میں ایک ایسی مشعل روشن کی جس کی روشنی نہ صرف دور افتادہ علاقوں میں پھیل گئی بلکہ لاتعداد تشنگان علم و ادب اس نور سے منور ہوگئے۔نور محمد نے مہاراج گنج علاقے میں ’نور محمد تاجر کتب‘ جو ا?ج ’غلام محمد نور محمد تاجران کتب‘ کے نام سے مشہور ہے، کی داغ بیل سال 1890 میں ڈالی۔وادی کے نامور مورخین و دانشوروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مرحوم نور محمد کا یہ کتب خانہ جہاں اس زمانے کے علما و دانشوروں کا مرجع تھا وہیں اس کتب خانے نے کشمیری زبان و ادب کی بھی مثالی خدمت کی ہے۔نور محمد، جو 5 مارچ 1965 کو اس جہان فانی سے انتقال کر گئے، نے اپنے بھائیوں کی مدد سے سال 1917 میں اس کتب خانے کو مزید وسعت دی اور سال 1922 سے کتابوں کی اشاعت شروع کی۔موصوف کتب فروش نے اپنی تمام تر صلاحیتیں اور اپنے شب و روز اسی کتب خانے کی ترقی کے لئے صرف کئے جس کے نتیجے میں سال1930 سے سال1940 تک اس کا شمار ملک کے بڑے بڑے کتب خانوں میں ہوتا تھا اور اس کے علاوہ یہ کشمیر کے بڑے تجارتوں اداروں میں بھی شامل ہونے لگا۔نور محمد نے اس کتب خانے کو مہاراج گنج تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ مائسمہ، لالچوک، رزیڈنسی روڈ اور پلیڈیم سنیما کے نیچے بھی اس کی شاخیں قائم کیں تاکہ زیادہ سے زیادہ تشنگان علم و ادب اس چشمے سے فیضیاب ہوسکیں۔وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ کتب خانہ اس قدر مشہور ہوگیا کہ لوگ اس خاندان کو ہی کتاب خاندان کے نام سے جاننے لگے۔وادی کا کشمیر میں یہ واحد کتب خانہ تھا جہاں منشی عالم، منشی فاضل کے علاوہ ہر مسلک کی کتابوں کا بڑا ذخیرہ موجود رہتا تھا۔یہ پہلا کتب خانہ ہے جس نے کشمیری زبان میں قرا?ن مجید کے ترجمے کے علاوہ تمام اصناف پر لکھی گئی کتابیں شائع کیں اور بیسویں صدی میں جو علمی لٹریچر منظر عام پر ا?یا اس کو کشمیر میں متعارف کیا۔وادی کے اس قدیم ترین کتب خانے کی اہمیت و عظمت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا ذکر مختلف مورخوں اور دانشوروں کی تصنیفات میں ملتا ہے۔وادی کے معروف کالم نویس و مصنف زیڈ جی محمد اپنے مضامین پر مبنی کتاب ’سری نگر: مائی سٹی، مائی ڈریم‘ میں اس کتب خانے کے متعلق لکھتے ہیں: ’شہر خاص میں مشہور کتب فروش غلام محمد نور محمد تاجران کتب کی دکان مہاراج گنج میں واقع تھی۔ اس کا مالک نور محمد دانشور و مدبر تھا‘۔انہوں نے مزید لکھا ہے: ’یہ دکان صرف کتب خانہ نہیں تھا بلکہ ادبا، علما، دانشوروں اور لیڈروں کا مرجع تھا یہاں پر ادبی و سیاسی محفلیں ہوا کرتی تھیں‘۔برصغیر کے مشہور مصنف جی ایم صونی اپنے کتاب ’ہسٹری آف کشمیر‘ میں کشمیری ادب کا ذکر کرتے ہوئے اس کتب خانے کی ادبی خدمات اور ان کی چھاپی گئی کتابوں کا تذکرہ کیا ہے۔خواجہ عظیم دید مری کی کتاب واقعات کشمیر کو نور محمد نے سال1936 میں سر نو شائع کیا اس کتاب کے دیباچے میں مولانا غلام نبی مبارکی نے لکھا ہے کہ یہ کتاب میر واعظین کشمیر نے شائع کی تھی اس کے بعد اس کو غلام محمد نور محمد تاجران کتب نے سر نوشائع کیا۔کشمیر یونیورسٹی کے معروف اسکالر ڈاکٹر فاروق فیاض نے اپنی کتاب’کشمیر فولک لور‘ میں لکھا ہے کہ ’نور محمد تاجر کتب‘ قابل تحسین ہیں کہ جنہوں نے اس زمانے میں کشمیری ادب کو کم قیمت پر شہر و دیہات میں پہنچا کر اس کو مقبول بنانے میں اہم رول ادا کیا‘۔

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا