’ایسی شخصیتیں ہزاروں سال بعد پیدا ہوتی ہیں‘

0
0

لتامنگیشکر نے اپنے دلکش ترنم کے ذریعے اردو الفاظ کو عالمگیریت عطا کی:پروفیسرعقیل احمد
یواین آئی

نئی دہلی؍؍سروں کی ملکہ اور موسیقی میں اپنی بے مثال مہارت، فنی کمال اور اعلیٰ ہنرمندی کے باعث بلبلِ ہند کہی جانے والی اور بھارت رتن و دیگر درجنوں قومی و بین الاقوامی اعزازات سے نوازی گئیں گلوکارہ لتامنگیشکر کے انتقال نے ہندوستان ہی نہیں ساری دنیا کو مغموم کردیا ہے اور آج ہر وہ شخص رنجیدہ ہے جسے موسیقی کی ذرا بھی شدبد ہے اور جس نے عمر کے کسی بھی مرحلے میں لتا منگیشکر کو سنا ہے ۔ان خیالات کا اظہار پروفیسر عقیل احمد نے قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان کے صدر دفتر میں منعقدہ تعزیتی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔انھوں نے کہا کہ لتاجی ہندوستان کی آن بان اور شان تھیں،وہ ایسی منفرد اور عظیم شخصیت تھیں کہ ایسی شخصیتیں ہزاروں سال بعد پیدا ہوتی ہیں۔ پروفیسر عقیل نے فلمی نغموں اور اردو کے اٹوٹ رشتے پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ جس طرح فلمی گانوں نے اردو کے فروغ میں اہم رول ادا کیا ہے، اسی طرح اردو سے فلمی دنیا کو بھی بے پناہ فائدہ ہوا ہے۔ لتا جی نے ساحر، مجروح، شکیل بدایونی وغیرہ کے لکھے نغمے اور اردو کے معتبر شعرا کی غزلیں بھی گائیں، لتا منگیشکر نے اپنی سریلی آواز سے نہ صرف ان کے کلام کو وسعت بخشی بلکہ اپنے دلکش ترنم سے اردو الفاظ کی خوبصورتی میں بھی چار چاند لگادیے۔ انھوں نے کہا کہ لتامنگیشکر کو اردو سے خصوصی لگاؤ تھا اور انھوں نے ابتدائی دور میں اپنے تلفظ کو درست کرنے کے لیے ایک مولوی صاحب سے باقاعدہ اردو زبان لکھنا پڑھنا سیکھا تھا، یہی وجہ تھی کہ وہ گانوں میں الفاظ کو بہت اچھی طرح ادا کرنے پر قدرت رکھتی تھیں اور ان کے گانے جہاں ان کی آواز کی شیرینی کی وجہ سے لوگوں میں مقبول ہوتے تھے وہیں ان کا حسنِ ادائیگی بھی شائقین کے دل کو بھاتا تھا۔ وہ نئے گلوکاروں کو خاص طورپر اردو سیکھنے کی تلقین کرتی تھیں،کیوں کہ اس کے بغیر کوئی بھی نغمہ صحیح طریقے سے نہیں گایا جاسکتا۔ شیخ عقیل نے کہا کہ لتاجی نے 36 زبانوں میں تیس ہزار سے زائد نغموں کو آواز عطا کی۔ اس اعتبار سے وہ دنیا میں سب سے زیادہ نغمے گانے والی گلوکارہ ہیں،ان کا نام گنیز ورلڈ بک آف ریکارڈ میں بھی درج ہے۔ انھوں نے بہت سی ایسی زبانوں میں بھی گایا،جنھیں ہم نہیں سمجھتے، مگر لتاجی کی آواز کی دلکشی،پاکیزگی اور روحانیت ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اور ہم اس میں کھو جاتے ہیں۔پروفیسر عقیل احمد نے ان کی رحلت سے ہونے والے ذاتی دکھ کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں نے جوں ہی ان کے انتقال کی خبر سنی مجھ پر سکتہ طاری ہوگیا اور میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا انتقال ایک فرد کا انتقال نہیں؛بلکہ گائیکی کے ایک سنہرے عہد کا خاتمہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ لتاجی کی آواز ہماری زندگی کو روشنی بخشتی ہے، جب ہم غمگین ہوتے ہیں تو ہمیں ان کی آواز سن کر سکون ملتا ہے اور جب ہم کمزور ہوتے ہیں تو انھیں سن کر ہمیں طاقت ملتی ہے۔ ان کے علاوہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر(ایڈمن) کمل سنگھ، اسسٹنٹ ڈائریکٹر(اکیڈمک) شمع کوثر یزدانی اور آبگینہ عارف نے بھی عظیم گلوکارہ کو خراجِ عقیدت پیش کیا اور کہا کہ ان کے گائے ہوئے نغمے جہاں شاہکار کی حیثیت رکھتے ہیں،وہیں اردو زبان کے فروغ میں بھی ان کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔ اس موقعے پر ان کی روح کی شانتی کے لیے دومنٹ کی خاموشی بھی اختیار کی گئی۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا