از:۔مدثراحمد۔شیموگہ۔کرناٹک۔9986437327
نومبر کا مہینہ آتے ہی اردو دنیا میں ایک طرح سے کھلبلی مچ جاتی ہے، 9 نومبر کو علامہ اقبال کی یوم پیدائش کے مدنظر اس ماہ میں کم و بیش اردو سے جڑی ہوئی تنظیمیں، ادارے اور شعبے اردو یوم اردو کا انعقاد کرتے ہوئے اردو سے محبت کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ ایک طرف اردو دانوں کا دعویٰ ہے کہ اردوزبان زوال کی جانب گامزن ہے وہیں جدید ٹکنالوجی اس دعوے کے برعکس اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش میں ہے کہ اردو اب بھی بڑی تعداد میں بولی، لکھی اور پڑھی جاتی ہے۔ اسکی مثال گوگل، چیٹ جی پی ٹی، آرٹیفیشل انٹلی جنس میں مل رہی ہے۔ اردو زبان کو کمزور ثابت کرنے میں اہل اردو کا ہی ہاتھ ہے دوسری اقوام آج بھی اردو کو معتبر زبان قرار دیتی ہیں۔ یوم اردو کے موقع پر اردو سے جڑی ہوئی تنظیمیں، ادارے اور شعبے اس مہینے میں اردو ادب کے جلسے، نشستیں اور تقاریبات کا انعقاد کرتی ہیں، لیکن ان جلسوں اور تقاریبات میں ایک چیز یہ دیکھنے کو ملی ہے کہ یہ محدود طبقے کے لئے ہی منعقد ہوتے رہے ہیں اور نئی نسل کو اردو کی جانب مائل کرنے میں اہل اردو ناکام ہوتے جارہے ہیں۔ اسکی دو وجوہات ہیں، اول یہ کہ ان پروگراموں کو عوامی سطح پر تشہیر نہیں دی جاتی، اس وجہ سے لوگ ان جلسوں سے دور رہتے ہیں اور صرف وہی طبقہ ان پروگراموں کا حصہ رہتاہے جس میں اردو کا شدت سے جذبہ پایا جاتاہے، یاپھر وہ لوگ جو تنظیموں، اداروں سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں، یا پھر ایسے لوگ بھی شرکت کرتے ہیں جنکی بنیادیں اردو کی روزی روٹی سے منسلک ہیں۔ محدود افراد پر مشتمل ان پرگراموں کا انعقاد کرنا ہی یوم اردو مانا جاتا ہے اور ان جلسے کی کامیابی قرار دی جاتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جلسوں میں جو مقررین مدعو کئے جاتے ہیں وہ ایک طرح سے موجودہ معاشرے کے افکار کو متاثر نہیں کر پا تے ۔ سابق پروفیسران، سابق لکچررز یا پھر موجودہ پروفیسران ہی ان جلسوں میں مقررین کے طور پر پہنچتے ہیں۔ یہ مقررین اردو کے بزرگوں کو تو ایک پیغام پہنچا سکتے ہیں لیکن نئی نسل کو اردو کی طرف مائل کرنے میں ناکام ہوتے ہیں۔ انکی تقریریں دقیانوسی یعنی outdated ہونے کی وجہ سے نئی نسل اردو سے جڑنہیں پارہی ہے۔ غالب نے یہ کہا، خسرو نے وہ کہا، علامہ اقبال نے عشق پر فلاں شعر کہا، پطرس بخاری نے یہ لکھا یہ باتیں کالج اور یونیورسٹی کے لکچرمیں اچھی لگتی ہیں لیکن عام لوگوں اور نئی نسل کو اس سے واسطہ نہیں ہوتا۔ ہاں اردو کی تاریخ اور روایات کو عوام کے سامنے پیش کرنا ضروری ہے لیکن انہیں بنیادوں کے اردگرد گھومنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ایکسویں صدی میں اردو زبان کے لئے اگر کوئی تاریخی کارنامہ ہوا ہے تو وہ ریختہ ڈاٹ نامی ڈیجیٹل پلاٹ فارم کا جس نے اردو ادب کو نیارنگ دیا۔ درجنوں یونیورسٹیوں، سینکڑوں اداروں، ہزاروں پروفیسروں اور لاکھوں اردو کے نام کے روزی خوروں نے مل کر بھی وہ کام نہیں کیا جو ریختہ ڈاٹ کام کے بانی سنجیو صراف ہیں جو پولی پلیکس کارپوریشن لمیٹڈ کے صدر ہیں ۔ ایک کامیاب صنعت کار ہونے کے ساتھ ساتھ وہ اردو زبان اور اس کی شیرینی کے عاشق ہیں۔ اسی طرح سے ریڈیو پر نظامت کرنے والے ناوید، آرجے صائمہ، صحافی عارفہ خان شیروانی جیسے لوگ اردو کی مٹھاس کو بکھیرنے کی جدوجہد کررہے۔ اسکے علاوہ کئی موٹیویشنل اسپیکرز اردو کی بنیاد سے نوجوان نسلوں کو راہ دکھا رہے ہیں۔ ایسے میں اردو تنظیمیں ان لوگوں سے اردو کاکام لینا چاہ رہی ہیں جو زندگی بھر اپنے شعبوں کو بچانے کیلئےکرائے کے طلباء کو درس دیتے رہے۔ ٹی اے ڈی اے پر اردو کاکام کرتے رہے، عہدوں اور انعامات کے لئے اردو کا سہارا لیتے رہے۔ اگر واقعی اردو زبان کو بچانا ہے تو اردو تنظیموں کو چاہئے کہ وہ یوم اردو کی تقاریبات کو نیارنگ دیں، نئی فکر پیدا کریں، نئے لوگوں کو متعارف کرائیں، نئے طریقوں اور نئی ٹکنالوجی کااستعمال کریں۔ اس نومبر کے بعد اگلے نومبر تک اردوزبان کی ترقی، ترویج اور بقاء کیلئے کام کریں۔ یوم اردو کے بجائے سال اردو کریں۔ تب جاکر اردو کی بقاء، ترقی اور تریج ممکن ہوگی۔ ورنہ جس طرح سے نکاح کا کھانا کھاکر دولہے یادلہن کانام تک بھول جاتے ہیں ویسے ہی یوم اردو کی چائے، سموسے یابریانی کھاکر اردو کو بھول جاتے ہیں۔