ہم چاہتے ہیں کہ اس البم کے ذریعے ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں: عارف نقوی
ایسا لگتا ہے کہ اس البم میں ایک پوری تاریخ اور تہذیب شامل ہو گئی ہو:پروفیسر صغیر افراہیم
زبان و ادب اور انسانیت کے سلسلے میں عارف نقوی نے بڑا کار نامہ انجام دیا ہے: پروفیسر ریشما پروین
عارف نقوی نے اپنی ادبی خدمات سے عالمی شناخت حاصل کی ہے: ڈاکٹر نودیپ سدھو
شعبہ اردو،سی سی ایس یو میں ادب نما کے تحت عارف نقوی کی”یادیں“البم کا اجراء
میرٹھ 24/جولائی2024ء
جب میں کسی ایک فرد کو دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ اگر میں اس کی جگہ ہو تا تو میں کیا کرتا، کیسا سوچتا۔ہمارے خاندان میں بہت سے لوگ ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے۔ان کی انا ان کو ایک دوسرے سے ملنے نہیں دیتی۔ کون پہل کرے سب انتظار کرتے ہیں۔ ہم لوگ سیاست میں ایک دوسرے کو دشمن سمجھنے لگتے ہیں۔ شاعر سمجھتا ہے کہ میں سب سے بڑا شاعر ہوں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس البم کے ذریعے ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں اگر اس میں کچھ خرابی ہے تو یہ سوچنا چاہئے کہ یہ ہے تو اپنا ہی۔ یہ الفاظ تھے جرمنی سے معروف ادیب عارف نقوی کے جو شعبہ اردو، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی اور بین الاقوامی نوجو ان اردو اسکالرز انجمن (آیوسا) کے زیر اہتمام منعقد”عارف نقوی کی البم”یادیں کا اجراء پروگرام“میں اپنی صدارتی تقریر کے دوران ادا کررہے تھے۔
اس سے قبل پرو گرام کا آغازبی۔اے آنرز کے طالب علم عبد القادرنے تلاوت کلام پاک سے کیا۔ہدیہئ نعت توفیق بشر نے پیش کیا اورپروگرام کی سرپرستی صدر شعبہئ اردو پروفیسر اسلم جمشید پوری نے فرمائی۔مقررین کے بطور معروف اور منفردنقاد پروفیسر صغیر افراہیم، علی گڑھ، مقبول شاعر و گیت کارڈاکٹر نودیپ سدھو، جرمنی، ڈاکٹر اکشے بھٹاچاریہ،جرمنی،ڈاکٹر عاصم قادری، برلن،شاہد صدیقی،دہلی، ریاض شیخ، برلن،نرگس یونترا،جرمن،باغبان انٹ جرمن کے ایڈیٹر،ظہور احمد،مقبول شاعر و امام مسجد، برلن، تحریک ادب،بنارس کے مدیرڈاکٹر جاوید انور اور ایوسا کی صدرپروفیسر ریشما پروین نے آن لائن شرکت کی۔استقبالیہ کلمات ڈاکٹر آصف علی،تعارف ڈاکٹر ارشاد سیانوی اورنظامت کے فرائض شعبے کے ریسرچ اسکالر عرفان عارف،جموں نے انجام دیے۔جب کہ شکریے کی رسم ریسرچ اسکالر سیدہ مریم الٰہی نے ادا کی۔
پروگرام کا تعارف پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر ارشاد سیانوی نے کہا کہ بہت کم ایسی شخصیات ہوتی ہیں جو اپنی تمام ادبی، سیاسی، سماجی تعلیمی یادوں کو سنبھال کر رکھتے ہیں۔ایسی ہی اہم شخصیات میں عارف نقوی بھی شامل ہیں جنہوں نے نہ صرف تعلیمی میدان میں اپنی قابلیت کا لوہا منوایا بلکہ ادبی اصناف داستان، ناولٹ، افسا نہ، ڈرا ما، شاعری، سفر نامہ وغیرہ میں بھی خاصی طبع آزمائی کی۔ آپ نے نہ صرف سیاسی، سماجی، مذہبی شخصیات کے ساتھ اپنی یادوں کو سنبھال کر رکھا بلکہ فلمی دنیا کے اپنے دور کے بڑے ادا کاروں کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو البم کے ذریعے محفوظ رکھاہے جو نئی نسل کے لیے ایک تحفہ ہے اور یہ نئی نسل کے لیے ایک نئی راہ بھی ہموار کرتا ہے۔
اس موقع پر صدر شعبہ اردو پروفیسر اسلم جمشید پوری نے کہاکہ ترقی پسند تحریک کے بانی سجاد ظہیر کے ساتھ عارف نقوی کو دیکھ کر حیرانی اور خوشی ہوتی ہے۔ اس البم کی تیاری میں تقریباً ڈیڑھ سال لگ گیا۔ سبھی تصاویر میں سے کچھ اہم تصاویر کا انتخاب ایک بڑا کام تھا لیکن ہماری کوشش تھی کہ البم بہتر سے بہتر بنے سا تھ ہی ہما ری یہ کوشش بھی تھی کہ یہ البم ہما رے طالب علموں کے لیے بھی مفید ثابت ہو، یہ البم اردو میں اپنی نوعیت کی شایدپہلی البم ہے۔ اندرا گاندھی،ڈاکٹر ذاکر حسین، رام نائک، سنیل دت، وحیدہ رحمن وغیرہ کا عارف نقوی کے ساتھ کیسے تعلقات تھے اس البم سے یہ ثابت ہوجاتا ہے۔
نرگس جونترا (دختر عارف نقوی) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس البم کی خوبصورتی اور اہمیت کے تعلق سے پروفیسر اسلم جمشید پوری صاحب کی مشکور ہوں۔ اس البم میں میرے والد کے علاوہ ان کے دوست اور عزیز و اقارب شامل ہیں۔ اس طرح کی البم ہمیں متاثر کرتی ہیں کہ ہم بھی اپنی زندگی میں بڑے بڑے کاموں کو انجام دیں، شمیم نکہت، پروفیسر شارب رودولوی وغیرہ کے ساتھ میرے والد کی دوستی یہ ثابت کرتی ہے کہ میرے والد بڑے انسان ہیں۔
برلن مسجد کے امام اور مقبول شاعر عامر عزیز نے کہا کہ عارف نقوی ادبی خدمات کے تعلق سے صرف جرمن میں ہی نہیں بلکہ وہ تمام ممالک جہاں اردو بولی جاتی ہے وہاں عارف نقوی صاحب کو جانا اور پہچا نا جاتا ہے۔ عارف نقوی کی بہت سی کتابیں میں نے پڑھی ہیں۔ ان کی شخصیت ہمہ جہت ہے۔ عارف نقوی جس ملک میں جاتے ہیں وہاں کی خوبیوں اور خامیوں کو ساتھ لاتے ہیں۔عارف نقوی نے یو روپی فن کا اثرقبول کیا ہے۔ مواد اس زندگی سے لیا ہے جس سے وہ گزر رہے ہیں لیکن کہیں بھی انہوں نے قا ری کے لیے نا مانوس فضا پیدا نہ ہو نے دی ہے۔یہی ان کا بڑا کمال ہے۔
شیخ ریاض نے کہا کہ اردو عالمی ادب کے دانشور عارف نقوی کو میں تقریباً تیس برسوں سے جانتا ہوں۔ ہندوستانی سفارت خانے کی تقریب میں ان کو اعزاز سے نوازا گیا اور برلن میں کیرم کھیل کو متعارف کرانے میں آپ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
ڈاکٹر نودیپ سدھو نے کہا کہ ہندوستان کی آزادی کے وقت ہزاروں لوگوں کی جان گئی۔ ایسے نازک حالات میں لوگوں کی انسانیت نے عوام کو متاثر کیا اور ایسے اہم انسانوں میں عارف نقوی بھی شامل ہیں جو انسانیت سے لبریز ہیں،عارف نقوی نے اپنی ادبی خدمات سے عالمی شناخت حاصل کی ہے۔
پروفیسر صغیر افراہیم نے کہا کہ جب ہم البم کو انگریزی کی طرف سے دیکھتے ہیں تو پوری دنیاکو محبت کا پیغام ملتا ہے اور جب اردو کی طرف سے دیکھتے ہیں تو ہمیں انسانیت کا پیغام ملتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس البم میں ایک پوری تاریخ اور تہذیب شامل ہو گئی ہو۔موسیقی سے بے حد لگاؤ، ترقی پسند تحریک سے وابستگی اور فلمی دنیا کے لوگوں سے دوستی۔ اس بات سے اندازہ ہو تا ہے کہ عارف نقوی عالمی سطح پر مقبولیت کے حامل ہیں۔ البم میں عارف نقوی کے والدین کی تصویر، ان کے دوستوں، فلمی ستاروں اور سیاسی لیڈروں کی دوستی سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ عارف نقوی ایک عظیم شخصیت کے مالک ہیں۔
پروفیسر ریشما پروین نے کہا کہ عارف انکل جیسا انسان میں نے زندگی میں نہیں دیکھا۔ مضامین ہوں یا تنقید، تحقیق ہو یا افسا نے وہ ہر میدان کے کھلاڑی ہیں۔ آپ کا خاندان ایک ادبی خاندان ہے اور عابد سہیل، پروفیسر شارب رودولوی اور شمیم نکہت وغیرہ ادب کے بڑے بزرگوں میں ہیں۔ زبان و ادب اور انسانیت کے سلسلے میں آپ نے بڑا کار نامہ انجام دیا ہے۔آج عارف صاحب جس مقام پر ہیں وہاں تک پہنچنے میں نہ جانے کتنی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔ اس البم میں عارف صاحب کی شخصیت نظر آ تی ہے۔
اس دوران پروفیسر صغیر افراہیم،پروفیسر اسلم جمشید پوری،عارف نقوی، انگرڈ نقوی، شیخ ریاض، ڈاکٹر نودیپ سدھو، پروفیسر ریشما پروین، ڈاکٹر ارشاد سیانوی، ڈاکٹر آصف علی، ڈاکٹر شاداب علیم، ڈاکٹر الکا وششٹھ اور محمد شمشاد وغیرہ کے ہاتھوں ”یادیں“ البم کا اجراء بھی آن لائن عمل میں آیا۔پروگرام سے ادبی، سیاسی اور سماجی شخصیات کے علاوہ طلبہ و طالبات بھی جڑے رہے۔