ہماری مزاحمت کو کچل دنیاچاہتاہے لیکن یہ ممکن نہیں: یاسین ملک
یواین آئی
- سرینگر؍؍جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک نے کہا کہ فرنٹ کے بانی محمد مقبول بٹ کے وارث جیلوں اور پھانسیوں سے محبت کرتے ہیں اور انہیں نوٹس دے کر ڈرانے دھمکانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان شعلے فلم کے ڈاکو گبر سنگھ کا اپروچ استعمال کرکے ہماری مزاحمت کو کچل دنیاچاہتاہے لیکن اللہ تعالیٰ کے کرم سے اس کا یہ اپروچ بھی ناکام و نامراد ہوگا۔ یاسین ملک نے ان باتوں کا اظہار ہفتہ کے روز سری نگر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ جے کے ایل ایف کے مطابق یہ پریس کانفرنس ، اخبارات میں چھپی اس خبر کے جس کی رو سے انفورسمنٹ ڈائر کٹوریٹ دہلی نے جے کے ایل ایف چیئرمین یاسین ملک ،مشتاق احمد ڈار اور ان کی اہلیہ کے خلاف نوٹس اجراء کی ہے‘ پر روعمل ظاہر کرنے کے لئے بلائی گئی تھی۔میڈیا سے بات کرتے ہوئے جے کے ایل ایف چیئرمین نے کہاکہ ابھی تک انہیں کوئی نوٹس نہیں ملی ہے ،اور ایسا لگتا ہے کہ ہمیں نوٹس بھیجنے سے قبل ای ڈی نے یہ نوٹس میڈیا کے لئے جاری کردی ہے تاکہ حسب دستور میڈیا ٹرائل کو شروع کیا جاسکے۔انہوں نے کہا’ یہی ہے ان بے بنیاد ا ورنام نہاد کیسوں کی اصل حقیقت جو محض سیاسی عناد نکالنے ،سیاسی مزاحمت کو دھونس اور دبائوسے ختم کرنے اور لوگوں کی کنپٹیوں پر بندوق رکھ کر انہیں نام نہاد مذا کراتی عمل میں شریک ہوجانے پر راضی کرنے کے لئے بنائے جاتے ہیں‘ ۔ یاسین ملک نے کہا کہ اخباری خبر میں جس نوٹس اور جس کیس کے ضمن میں یہ نوٹس نکالی گئی ہے کی اصلیت یہ ہے کہ مارچ2001ء میں انہیں ایک فرضی ڈرامہ رچانے کے بعد سری نگر سے گرفتار کیا گیا، اس لئے کہ بقول ان کے بھارتی حکمران ان سے سخت ناراض تھے کیونکہ متحدہ حریت کانفرنس نے اُن فہمائش پر ایک متوازی الیکشن کمیشن کا اعلان کیا تھا جس کا مقصد جموں کشمیر کے حوالے سے کون نمائندہ ہے،اورکون نہیں کافیصلہ کیا جانا تھا۔ یاسین ملک نے کہاکہ انہیں گرفتار کرکے جموں پہنچایا گیا جہاں انہیں اذیتیں دی گئیں اور بدنام زمانہ قانون پوٹا کے تحت جیل میں ڈال دیا گیا۔ کچھ ماہ کے بعد انہیں عدالت کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے پوٹا جج صاحب سے کہا کہ بھارتی حکومت کا دعوہ ہے کی نیپال میں الطاف قادری نے مذکورہ ڈالر مشتاق احمد ڈار کے حوالے کئے ہیں اس لئے اگر بھارتی حکمران یہ ثابت کردیں گے کہ الطاف قادری بھی نیپال آیاہے تو میں سبھی الزامات قبول کرلوں گا۔ یاسین ملک نے کہا کہ میں نے جج صاحب کو یہ بھی کہاتھا کہ چونکہ بھارتی حکومت کہے گی کہ الطاف قادری کسی اور نام پر نیپال آیا تھا اس لئے نیپال کے ساتھ قریبی مراسم ہونے کے باعث اُن کے لئے قاردی کی پاسپورٹ اور ویزے پر لگی فوٹوصاصل کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہونی چاہے۔میرے اسی مو قف کو قبول کرتے ہوئے مذکررہ عدالت نے اُس وقت مجھے ضمانت پر رہا کردینے کے احکامات جاری کئے تھے۔ اسی ضمن میں جو بات قابل ذکر ہے کہ 2001ء سے آج تک یعنی 16برس سے جموں کی پوٹا عدالت میں یہ کیس چل رہا ہے اور باضابط ماہانہ بنیادوں پر اس کیس کو سناجارہا ہے۔ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ کیس شروع ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد حکومت نے جموں کشمیر ہائی کورٹ جموں سے درخواست کی تھی کہ وہ ملزمین کے پوٹا عدالت کو اس ڈرامے سے آگاہ کیا تھا اور اس کیس کی حقیقت نیز ملزمان کا ٹارچر و غیرہ کر کے اقراری بیان لینے کی پولیس کو ششوںکا بھانڈاپھوڑ دیا تھا کو کالعدم قرار دینے کی مانگ کی تھی لیکن جموں ہائی کورٹ نے حکومتی درخوارست کو مسترد کردیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اب معمہ یہ ہے کہ ایک کیس جو 16برس عدالت میں زیر التواہے چل رہا ہے اور اس کیس کی ایک اور متوازی ٹرائل دہلی سے بھی شروع کی جارہی ہے اور بذات خود عدل و انصاف کا مذاق اڑانے اور خود بھارتی لیگل سسٹم کی کھلی اڑانے کے متراف ہے۔ جے کے ایل ایف چیئرمین نے کہا کی حقیقت میں جس ای ڈی نوٹس کاآج کے اخبارات میں ذکر کیا گیا ہے وہ اس بات کی ایک واضح مثال ہے کہ کس طرح بھارتی ایجنسیاں، فورسز اور لیگل سسٹم بھارتی حکمرانوں کی مرضی و منشاء کے مطابق کام کرتا ہے اور کشمیر میں تحریک مزاحمت کو کچلنے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے ،یہی حقیت این آئی اے کی اُس مہم جو ئی پر بھی صادق آتی ہے جو جاری ہے اور جس کے تحت بھارتی حکمرانوں اور ان کے کشمیر گماشتوں نے باپ کے بدلے بیٹوں،بیٹے کے بدلے والدین، رشتہ داروں،دوستوں حتیٰ کہ مزاحمت میں شامل لوگوں کو جاننے والوں دہلی پہنچا کر تہاڑ جیل میں مقید کر رکھا ہے اور جس کے تحت ان لوگوںکے خلاف بے بنیاد اور بے سروپا کیس بنا کر اور انہیں میڈیا کے ذریعے بدنام کرنے کا عمل جاری ہے۔ یاسین ملک نے کہا کہ دہلی میں حکمران لوگ اور فسطائیت والی سوچ کے حامین ہمیں کہہ رہے کہ ہم ناجائز تسلط کے خلاف اپنی مزاحمت ختم کر دیں اور اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو وہ ہمیں بدنام کر دیں گے۔ ہمیں قتل کروادیں گے اور تہاڑ جیل میں ڈال دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہی ڈاکو گبر سنگھ والا رویہ ہے جس کا استعمال کرتے ہوئے دہلی ہماری کنپٹی پر بندوق جماکر رکھ ہمیں بات چیت کی دعوت دیتی پھر رہی ہے اور اگر ہم انکار کردیتے ہیں تو ہمیں نام نہاد کیس کھولنے اور نت نئے نوٹس ارسال کرکے ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی جاتی ہیں ۔یاسین ملک نے کہا کہ جو لوگ آج کل دہلی میں حکمرانی کررہے ہیں وہ تحریک آزادی کے لئے کشمیری لوگوں اور قائدین کی محبت و عقیدت کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ جب بھارت برطانوی سامراج کے خلاف جنگ آزادی میں مصروف تھا تو یہ لوگ اور ان کی سوچ آزادی کے مخالف کھڑی تھے۔یہ لوگ کیونکر آزادی کے سپاہی کے تحریک آزادی کے تئیں رومانس کو سمجھ سکتے ہیں جبکہ ان کا ازلی وطیرہ ہی لوگوں کی آواز کو فوجی طاقت اور جبر سے دبانا ہے۔لیکن یہ لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اگر فوجی طاقت سے کسی قوم کو دبایا جاسکا ہوتا تو آج دنیا میں کوئی بھی ملک یا کوئی قوم آزادہی نہیں ہوتی۔ یاسین ملک نے کہا ’ بھارتی حکمرانوں نے ماقبل ہی ہماری مزاحمت کو 2022ء تک ختم کردینے کے خواب بُن رکھے ہیں ۔ لیکن یہ عقل کے اندھے نہیں جانتے کہ عوامی تحاریک اور قومی مزاحمتوں کو کچل دنیا اور ختم کرنا کس ظالم و جابر کے بس میں نہیں ہوا کرتا ہے‘۔جے کے ایل ایف چیئرمین نے کہا’ ہم شہید بابائے قوم محمد مقبول بٹ کے جانشین ہیں ۔ ہم اُس انسان کے وراث ہیں جو سالہاسال تک تہاڑجیل میں رہا اور پھر خوشی خوشی تختہ دار پر بھی لٹک گیا لیکن ظلم و جبر کے سامنے سرنگوں نہیں ہوا۔ ہم بھارت کے حکمرانوں سے کہتے ہیںکہ جو چاہے کر لو ،جیل کے دروازے کھول دو،تختہ دار سجادولیکن ہم سختیوںکو محبوب رکھنے والے لوگ اپنی مزاحمت سے قطعاًباز نہیں آئیں گے‘۔